اگر سلاخوں کے اس پار آپ ہوتے تو؟


میں فطرتاً کافی ڈرپوک پائی جاتی ہو اس لیے بچپن میں چڑیا گھر جانے کا تجربہ کبھی خوشگوار ثابت نہ ہوا، خوف تو اپنی جگہ جانوروں کو قید میں دیکھ کر ایک چڑ سی ہوتی تھی، جانوروں کی بے بسی اور انسانوں کی بے حسی کا اندازہ اس عمر میں تو نہ تھا لیکن تھوڑی سمجھ آئی تو اندازہ ہوا کے یہ معصوم بے زبان تو صرف نام کے جانور ہیں اصلی جانور تو وہ ہیں جو ان کو قید کرتے ہیں، ان کی بے بسی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ، اور اگر ان کی ذات کو ان جانوروں سے تکلیف پہنچے تو ان کو گولی مار کر قتل کر دیتے ہیں۔

مجھے آج تک سمجھ نہیں آیا کے چڑیا گھر جا کر لوگوں کو کیا لطف آتا ہے؟ سانپ کو شیشے کے پیچھے سے دیکھ کر مجھے تو صرف قبر کا عذاب یاد آتا ہے لوگوں کو پتا نہیں کیا خوشی ملتی ہے اسے دیکھ کر یا پھر شاید قبر صرف ہم جیسے گنہگاروں کو ہی یاد آتی ہے، نیک لوگوں کو قبر سے کیا خوف؟

میں نے بچپن میں تقریباً چار سکول بدلے لیکن ان سب سکولوں میں ایک چیز مشترک تھی کہ وہ ہر سال تفریح اور تعلیم کے غرض سے ہر سال چڑیا گھر کا دورہ کرواتے تھے۔ مقصد تو بچوں کو یہ دکھانا ہوتا تھا کے جانور حقیت میں کیسے پیش آتے تاکہ بچوں کی نالج میں اضافہ ہو سکے لیکن ساتھ گئے ہوئے ٹیچرز اور سکول انتظامیہ تو بچوں کے ساتھ مل کر جانوروں کے ساتھ چھیڑ خانی میں مشغول ہو جایا کرتے تھے اور جب جانور اپنے قدرتی ماحول سے دور ہوں گے تو وہ کیسے وہ رویہ اپنائیں گے جو وہ جنگلات میں اپنا سکتے ہیں؟ جانوروں کے بارے میں بچوں کو سکھانا اتنا ہی ضروری ہے تو وہ ان کو چڑیا گھر سے زیادہ بہتر انداز میں ویلڈ لائف ڈوکومینٹریز کے ذریعے سکھایا جاسکتا ہے۔ ڈوکومینٹریز میں جانوروں کو ان کے قدرتی ماحول میں ہی فلم کیا جاتا ہے جس سے ہم ان کے بارے میں زیادہ بہتر طرح سے جان پاتے ہیں۔

بچوں کو کیا سکھانے چڑیا گھر لے جایا جاتا ہے؟ میری ناقص رائے میں تو چڑیا گھر جا کر صرف ایک ہی چیز سیکھنے کو ملتی ہے کے انسان اذیت پسند ہوتے ہیں اگر ایسا نہیں ہے تو پھر بندر کو تنگ کر کے یا پنجرے میں بند شیر کی بے بسی کو دیکھ کر کیا سیکھنے کو ملتا ہے؟ شاید بے زبان جانوروں کو پنجرے میں قید کر کے انسان کو اپنے اشرف المخلوقات ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ کسی بھی چھٹی والے دن اگر چڑیا گھر کا چکر لگا لیا جائے تو وہاں عوام کا رش دیکھ کر اس بات کا تو اندازہ ہوتا ہے کے ہم من حیث القوم کافی اذیت پسند ہیں۔

پاکستان میں جانوروں کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے وال تنظیم اینیملز او آر چی کے چیئرمین انیس جلانی کا کہنا ہے کے وہ پاکستان کے چڑیا گھروں میں موجود جانوروں کی حالت سے مطمئن نہیں ہیں، ان کہنا تھا کے چڑیا گھروں میں سیر کے لیے آئے افراد کی جانب سے جانوروں کی ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا ان پر پتھر پھینکے جاتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کے پاکستان میں اس وقت چڑیا گھروں میں رکھے گئے جانوروں کے حوالے سے کوئی واضح قانون موجود نہیں ہے۔

ویسے دنیا بھر میں کہیں بھی جانوروں کو قید کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، لیکن پاکستان میں چڑیا گھروں میں رکھے گئے جانوروں کی حالت اور ان کو دیکھنے آئے لوگوں کا سلوک دیکھتے ہوئے تو پاکستان میں چڑیا گھروں کو ہمیشہ کے لیے بند کر دینا چاہیے۔ جانوروں کو چڑیا گھر میں رکھنے کے لیے بہت سے دلائل دیے جاتے ہیں جیسا کے وہاں جانوروں کی اچھی نگہداشت ہوتی ہے وغیرہ، مان لیا کے چڑیا گھر میں رکھے گئے جانوروں کی دیکھ بھال ٹھیک سے ہوتی ہے، مگر پنجرا پنجرا ہوتا ہے بے شک وہ سونے کاہی کیوں نہ بنا ہو۔

جانوروں کو ان کے قدرتی ماحول سے نکال کر جتنا بھی بہتر ماحول فراہم کیا جائے وہاں وہ سکون سے نہیں رہ سکتے۔ ایک یہ بھی دلیل پیش کی جاتی ہے کے جانوروں کو زخمی حالت میں ریسکیو کر کے چڑیا گھر لایا جاتا ہے، اگر ایسا ہے تو پھر ان جانوروں علاج کے بعد واپس ان کے قدرتی ماحول میں چھوڑ دینا چاہیے مگر ایسا نہیں ہوتا جانوروں کو علاج کے بعد چڑیا گھر میں ہی قید کر لیا جاتا ہے۔

چلیں سب باتیں چھوڑیے آپ فرض کیجئے کہ آپ کو آپ کے گھر سے اٹھا کر کسی قید خانے میں بند کر دیا جائے؟ آپ کا ہوا پانی سب تبدیل ہو جائے؟ آپ کو اپنے رہن سہن کا طریقہ بالکل بدلنا پڑے؟ آپ کے منہ پر پٹی باندھ دی جائے کے آپ کچھ بول نہ سکیں اور اس کے ساتھ روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ آ کر آپ کے ساتھ سلاخوں کے پیچھے سے چھیڑ خانی کریں تو آپ کو کیسا محسوس ہوگا؟
اب جب اگلی پار چڑیا گھر جائیں تو سوچیئے گا کے آپ سلاخوں کے اس پار ہوتے تو کیا ہوتا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).