ملا جنید جمشید کے مرنے پر میں خوش نہیں ہوں



چترال سے آتی ہوئی پی آئی اے کی فلائٹ پی کے 661 شام ساڑھے پانچ بجے اسلام آباد ایئر پورٹ میں اترنا تھی مگر چار بجے کے قریب ایبٹ آباد کے علاقے حویلیاں کے نزدیک اس کا ریڈار سے رابطہ منقطع ہوگیا۔ ٹی وی نیوز کے مطابق جہاز کے کیپٹن صالح جنجوعہ کا آخری پیغام کنٹرول روم میں ‘مے ڈے’ کا سنائی دیا۔ ایویشن سے جن کا تعلق نہ بھی ہو انھیں بھی معلوم ہے کہ اس پیغام کا مطلب انتہائی خطرہ ہوتا ہے۔ اس ابتدائی خبر کے موصول ہونے کے بعد ٹی سکرینوں میں ایک آگ لگ گئی اور ہر سکرین ایک دوسرے سے پہلے گمشدہ جہاز کی قسمت کا فیصلہ ڈھونڈنے میں لگ گئی۔ ہر ٹکر اور ہر نیوز فلیش پہلے سے مزید سنسنی پھیلانے میں مصروف ہوگئی۔ شام پانچ کے ارد گرد اس بات کی تصدیق عینی شاہدین کی جانب سے موصول ہوچکی تھی کہ یہ بد قسمت طیارہ حویلیاں کے قریب بودلہ گاؤں کے نزدیک گر کر تباہ  ہوگیا ہے۔ اس میں عملے سمیت 47 لوگ شامل تھے۔

ٹی وی اسکرینیں ابھی تھکی نہ تھیں کہ ایک دم سنسنی مچ گئی۔ اطلاعات موصول ہوئیں کہ اس بدقسمت طیارے میں معروف گلوکار جنید جمشید بھی شامل تھے جنہوں نے گلوکاری کو خیر باد کہہ کر تبلیغ کا راستہ اپنا لیا تھا۔ جنید جمشید کی موجودگی کی خبر سب پر کسی بجلی کی طرح گری اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر سکرین پر چھا گئی۔ ہم نے دیکھا کہ کچھ ہی منٹوں میں اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ جنید جمشید بھی اس طیارے میں سوار تھے اور ان کے ساتھ ان کی اہلیہ بھی تھیں۔ میڈیا نے اس پر جو کردار ادا کیا وہ اپنی جگہ مگر سوشل میڈیا اور اپنے ارد گرد بعض عجیب باتیں سننے کو ملیں تو سوچا اس پر قلم اٹھایا جائے۔

کچھ صاحبوں نے اس موقع کو طارق جمیل صاحب پر پھبتی کسنے اور تبلیغی جماعت کو رگیدنے کے لئے استعمال کیا۔ کچھ نے پوچھا کہ خدا نخواستہ یہ عبرت انگیز موت نہیں تھی کیا؟ انصار عباسی صاحب کو اس بات سے مسئلہ محسوس ہوا کہ جنید جمشید صاحب کو ان کی گلوکاری کی زندگی کے حوالے سے یاد نہ کیا جائے اور کسی نے پھبتی کسی ایک ملا جان سے گیا، وغیرہ۔۔۔
اس بات سے قطع نظر کہ یہ سوچ کتنی رذیل ہے میں اس رنج کے موقع پر اپنے خیالات ہی بتا سکتا ہوں۔ میں ‘ملا’ جنید جمشید کے مرنے پر خوش نہیں ہوں۔ دیکھئے ہم نے انہیں بچپن سے گلوکاری کرتے دیکھا، ان کی میٹھی آواز کبھی نہ کبھی ہمارے دل کو لبھانے کا باعث بنی، کبھی تو ایسا ہوا ہوگا کہ افسردگی کے لمحات میں ان کی دھنوں نے ہمارے دل کو سہلایا ہوگا۔ یوں بھی کہ افسردہ دل ‘اعتبار’ سن سن کر جدائی کا غم غلط کرتے رہے ہوں گے۔ دل دل پاکستان کس نے اپنے بچپن اور جوانی میں گنگنایا نہیں ہوگا؟ ان کا ہم پر قرض ہے۔ انہوں نے ہماری خدمت کی ہے، ہماری یادیں بنائی ہیں۔ یہ یادیں ان کی امین ہیں۔

سوال مگر یہ ہے کہ کیا ہمیں ان کے خیالات سے اختلاف کی بنا پر ان کی موت پر خوش ہونا چاہئے۔ سوشل میڈیا پر بنفشاں کہتی ہیں کہ ’جنید جمشید نے جو بھی فیصلہ کیا، اپنی ذات سے متعلق کیا۔ انہوں نے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔‘ ہم ان کے نظریات سے سخت اختلاف رکھتے ہیں اور ہم نے متعدد بار ان کے خیالات چاہے وہ عورتوں کے خلاف ہوں یا دین کی خاص تشریحات کے حوالے سے ہوں اس پر قلم اٹھا چکے ہیں اور تحریرات اس پر پوسٹ بھی کر چکے ہیں۔ مگر ہم شخصی آزادیوں پر قدغن یا اس کی بنا پر کسی کی شخصیت پر قاضی بننے کے دعوے دار کبھی نہیں ہیں۔ دیکھئے ہم جس لبرل معاشرے کا خواب دیکھتے ہیں اس میں شخصی آزدیوں کی ہی بات کرتے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں ایک نوجوان کی مرضی ہو کہ وہ چاہے تو گلی کے نکڑ میں بنی مسجد میں رات گزار کر اپنے رب کی عبادت کرے یا اپنے محبوب کے ساتھ تین گلیاں دور نائٹ کلب میں جھوم کر اپنے دل کو خوش کرے۔ چاہے تو جنید جمشید مبلغ کے ساتھ بستی بستی گھوم کر دین کی تبلیغ کرے یا چاہے تو گلوکار جنید جمشید کے کنسرٹ میں اپنے دوستوں کے سنگ رات بتائے۔ جس چیز کی ہم قدر کرتے ہیں وہ شخصی آزادیوں کی حفاظت ہے۔ لوگوں کو آزادیاں دے دیجئے کہ وہ کیا اپنے لئے پسند کرتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کی کیا راہیں متعین کرتے ہیں۔ انہیں ’ایمان مجھے روکے ہیں تو کھینچے ہے مجھے کفر‘ کی کشمکش میں گم ہونے دیجئے۔ جنید جمشید نے اپنے لئے ایک راہ متعین کی۔ ہمیں ان کی پہلی راہ سے محبت ہے۔ ہم ان کے بعد کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔

ہمیں ملا جنید جمشید کے مرنے پر بھی اتنا ہی غم ہے جتنا گلوکار جنید جمشید کے مرنے پر۔
Dec 7, 2016 پہلی تاریخ اشاعت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments