الیکشن2020: امریکہ میں ووٹ ڈالنے کا آنکھوں دیکھا حال


امریکہ بھر میں 3 نومبر کے عام انتخابات سے پہلے ہفتہ بھر جاری رہنے والی قبل از وقت پولنگ کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ آخری اطلاعات کے مطابق قومی سطح پر پچاس ریاستوں میں نو کروڑ تیس لاکھ سے زائد امریکیوں نے اپنے ووٹ ڈال دیے ہیں۔ جو کہ ایک نیا ریکارڈ ہے۔ نیویارک سٹی میں بھی ایک ہفتے کے دوران گیارہ لاکھ سے زائد افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔

نیویارک کے علاقے کوئینز میں گھر کے قریب واقع کوئینز کالج میں قائم ایک پولنگ اسٹیشن کے وزٹ کا موقع ملا۔ جہاں ہم نے بھی اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ موسلا دھار بارش کے دوران ایک سے ڈیڑھ سو کے قریب ووٹر لمبی لائن میں اپنی باری کے انتظار میں رنگ برنگی چھتریاں تانے کھڑے تھے۔

ریپلکن پارٹی کوئینز کے اس حلقہ سے کانگریس کے امیدوار کے حامی اس کے پمفلٹ تقسیم کرتے ہوئے نظر آئے۔ جبکہ لائن میں کھڑے ایک دلچسپ بات جو مشاہدے میں آئی وہ یہ تھی کہ کوئینز بورو پریزیڈنٹ کے ایک چینی امریکن امیدوار ڈیو۔ ین کے حامی اس کے بروشر بھی تقسیم کر رہے تھے۔ بلکہ حیرت انگیز طور پر وہ اپنے امیدوار کے حق میں ووٹروں کو راغب کرنے بلکہ لبھانے کی خاطر بروشر کے ساتھ ایک فری ’سنیکر چاکلیٹ بار‘ بھی آفر کر رہے تھے۔ کسی امیدوار کے حق میں اس کے حامیوں کا یہ اقدام میرے لیے بڑے اچنبھے کا باعث تھا۔

امریکہ میں رہتے ہوئے گزشتہ بیس سال کے دوران میں اپنی آنکھوں کے سامنے ایسے ہوتا پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ کئی ووٹر بروشر لے کر اسے کھولتے، چاکلیٹ بار نکال نکالتے، اور بروشر بغیر پڑھے ہی قریب پڑے ڈسٹ بن میں پھینک دیتے۔ انتخابی قوانین کی رو سے ووٹروں کو متاثر کرنے والی ایسی سرگرمیاں صریحاً قانون کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہیں۔

برستی بارش میں یہ دلچسپ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا۔ بارش سے بچاؤ کے لیے تانی گئی چھتری ذرا ایک طرف کو لڑھکی تو سر کے عین اوپر درخت پر ایک گلہری بارش اور سردی سے سمٹی اور دہری ہو کے بیٹھی ہوئی دکھائی دی۔

ہفتہ بھر جاری رہنے والی قبل از وقت ووٹنگ کے لیے بورڈ آف الیکشننز نیویارک سٹی نے کافی بہتر انتظامات کر رکھے تھے۔ گھنٹہ بھر لائن میں انتظار کے بعد ووٹنگ ہال کے اندر داخل ہوئے تو پہلی نظر دائیں جانب ووٹروں کی رہنمائی کے لیے بیٹھے ہوئے مختلف زبانوں کے مترجم نظر آئے۔ جن میں انگلش کے علاوہ سپینش، چینی، کورین، بنگلہ، اردو، پنجابی اور ہندی بھی شامل تھے۔

امریکہ بھر میں ووٹروں کی رہنمائی کے لیے تمام الیکشن بورڈ ز بیلٹ پیپروں اور دیگر سٹیشنری میں ہر علاقے کی کمیونٹی میں اکثریتی بولی جانے والی دیگر اہم زبانیں بھی استعمال کی جاتی ہیں۔

امریکہ میں تقریباً پچانوے فیصد انتخابی عمل اب کمپیوٹرائزڈ اور ڈئجیٹل ہو چکا ہے۔ زیادہ تر ووٹروں کے پاس بارکوڈ سے مزین ووٹنگ کارڈ یا ”فاسٹ ووٹر ٹیگ“ ہوتا ہے۔ جس کو آپ اپنے کی رنگ کے ساتھ منسلک بھی کر سکتے ہیں۔

لائن کے اختتام پر ووٹنگ ہال کے اندر داخل ہوئے تو ہمارا سب سے پہلا سامنا ووٹر ٹیگ سکین کرنے والے پول ورکر سے ہوا، جسے سکینگ انسپکٹر کہا جاتا ہے۔ ٹیگ سکینگ مشین کو ٹچ ہوتے ہی ووٹر کی تصویر سمیت اس کی ساری معلومات پولنگ افسر کے سامنے آ جاتی ہیں۔ جن کی مزید تسلی کرنے کے لیے افسر اگر چاہے تو ووٹر سے اس کی تاریخ پیدائش، رہائشی پتہ وغیرہ یا شناختی کارڈ بھی طلب کر سکتا ہے۔ تاہم ہم سے محض رہائشی پتہ کی ہی تصدیق کی گئی۔ اورایک مناسب فاصلے سے شیشہ نما ونڈو سے اسی ٹیبلٹ پر الیکٹرانک دستخط کروائے گئے۔

اس مرحلے کے بعد ایک دوسرے پولنگ افسر نے بڑے سائز کے ایک فائل کور میں بلیٹ پیپر رکھ کر ہمیں تھما دیا۔ امریکہ میں بیلٹ پیر خاصے بڑے سائز کے ہوتے ہیں۔ عام طور پر دو سے دو تین فٹ سائز کا بیلٹ پیپرز ہوتا ہے۔ جس میں صدارتی امیدواروں کے ناموں کے علاوہ کانگریس کے دونوں ایوانوں کے اراکین، ریاستی ممبران، مقامی کونسلوں، کاؤنٹی ممبران، لوئر کورٹس سمیت ریاستوں کی سپریم کورٹس کے ججوں کا انتخاب بھی براہ راست انہی انتخابات کے ذریعے عمل میں لایا جاتا ہے۔ اس وجہ سے امریکی بیلٹ پیپرز ایکسٹرا سائز کے ہوتے ہیں۔

خاتون پولنگ افسر سے بیلٹ پیپر لے کر ہم تین ٹانگوں والے ووٹنگ بوتھ (سٹینڈ) پر چلے گئے جو تین اطراف سے باپردہ تھا۔ تاکہ ووٹ کی پرائیویسی برقرار رہ سکے۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ بیلٹ پیپر لمبا چوڑا ہونے کے باوجود الجھا ہوا یا پیچیدہ ہرگز نہ تھا۔ ہر پارٹی کے امیدواروں کو ان کے ناموں کے حساب سے انہیں اے، بی، سی ڈی، ای، ایف کئٹگریز کے نام دیے گئے تھے۔

ری پبکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کے بڑے صدارتی امیدواروں ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کے علاوہ چند اور لوگ بھی صدارتی امیدوار ہیں۔ جن کا تذکرہ عام طور پر بہت کم سننے میں آتا ہے۔ ان میں گرین پارٹی کے ہیوائے ہیکننز، لبرشین پارٹی کے جو جارجنسن اور انڈی پینڈنس پارٹی کے بروک پئیرس صدارتی انتخابات کی دوڑ میں شامل ہیں۔

اسی پنسل سے جس سے پہلی ٹیبل پر واقع ٹیبلٹ پر الیکٹرانک دستخط کیے تھے۔ اسی سے اپنی پسندیدہ کئٹگری پر بنے بیضوی سرکل کو گہرا سیاہ کرنا ہوتا ہے۔ اس عمل میں بمشکل ایک منٹ لگا۔ بیلٹ پیپر پر نشان دہی کر کے ہم آگے بڑھ گئے۔ آخری مرحلہ مکمل کیے گئے بیلٹ پیپر کو سکینر نما کمپیوٹر مشین میں ڈالنے کا تھا۔

ذرا آگے کھڑے ایک دوسرے افسر نے قطار میں رکھی گئی بڑے سائز کی ایک مشین میں بیلٹ پیپر ڈالنے کے لئے کہا۔ بیلٹ پیپر مشین میں جاتے ہی سبز رنگ کی روشنی دونوں جانب سے اسے منور کر گئی۔ اس کے ساتھ ہی مشین کے مائنٹر پر ”تھینک یو فار پولنگ یور ووٹ“ کا پیغام نمودار ہوا۔

قبل از وقت انتخابات میں آج ہمارا ووٹ تو کاسٹ ہو گیا مگر ”ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں“ کے مصداق تین نومبر اور پھر اس کے بعد ووٹوں گنتی کے کئی اور ہنگامہ خیز مراحل ابھی آئیں گے۔ اگر کسی امیدوار کو واضح برتری نہ ملی تو ہو سکتا ہے کہ معاملات عدالتوں تک پہنچیں۔ اور غیر یقینی صورتحال کافی عرصے تک رہے۔

یوں امریکی صدر کے انتخاب کے لیے ہمارے ووٹ کاسٹ کرنے کا مرحلہ اختتام پذیر ہوا۔ ووٹنگ کے لیے لائن میں کھڑا ہونے میں لگ بھگ ایک گھنٹہ جبکہ ووٹنگ ہال کے اندر ووٹ کاسٹ کرنے کے عمل میں بمشکل پانچ منٹ لگے ہوں گے۔

امریکہ کے اس بار ٹیکنالوجی سے لیس صدارتی انتخاب میں ووٹنگ پول کرنے کا مشاہدہ کا خاصا دلچسپ اور معلومات سے بھرپور رہا۔ ٹھنڈی ہوا، سخت سردی اور بارش سے بچتے بچاتے اس امید کے ساتھ گھر واپسی کی راہ لی کہ جس صدارتی امیدوار کو ووٹ دیا ہے وہ ضرور کامیاب ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).