مہنگائ کی مساوات


فیصل آباد میں غلام آباد کا علاقہ بے فکرے کاٹیج انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کا علاقہ ہے جو اپنی سیاسی بیداری کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ لوگ نیم کی چھاؤں میں بیٹھ کر پورا دن سیاسی بحث کرتے نظر آتے ہیں اور ہر مسئلے کے حل کی تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ مجھے حکومت دیں ایک ماہ میں سب ٹھیک کر دوں گا چار لوگوں کو چھتر ماروں گا اور چند کو لٹکا دوں گا دیکھنا ملک کیسے ایک ماہ میں ٹھیک ہوتا۔ عوام کی دلپشوری کی حد تک تو یہ صحیح ہے لیکن جب یہی انداز فکر حکمرانوں میں بھی نظر آئے تو بہتری کی ہر امید دم توڑتی نظر آتی ہے۔

عمران خان کی حکومت بھی اسی جذبے سے حکومت میں آئی اور اب خان صاحب مایوسی کے عالم میں کہتے نظر آئے کہ مافیا ان کے فی الحال کنٹرول میں نہیں آ رہا۔ انہیں اس کا حل یہ نظر آ رہا ہے کہ سرکاری کرپٹ مشینری پر انحصار چھوڑ کر ٹائیگر فورس کو گراس روٹ لیول پر استعمال کیا جائے اور مہنگائی پر جرمانے کر کے اس سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ شاید خان کے ذہن میں شیر شاہ سوری کی پانچ سو سال پرانی پالیسی ہو لیکن خان یہ بات نہیں سمجھتا کہ اب فری مارکیٹ اکانومی کا زمانہ ہے اب اسی فیصد اشیا ہم وہ خریدتے ہیں جو ضروریات زندگی میں شامل نہیں اور جو میڈیا ہمیں خریدنے پر قائل کرتا ہے۔

سب سے پہلے تو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اصل مسئلہ روپے کی ڈیویلیوشن کا ہے۔ ڈالر سے حساب لگائیں تو جو چیز سن سینتالیس میں ایک ہزار کی تھی وہ بغیر کچھ مہنگائی کیے ایک لاکھ ساٹھ ہزار کی ہے۔ اگر سونے کے حساب سے بات کریں تو بات اور خطرناک ہے جو چیز سینتالیس میں ایک ہزار کی تھی آج وہ انیس لاکھ کی ہے۔ یہ وہ فرق ہے جو موجودہ دجالی معاشی نظام میں سمجھے بغیر آپ مہنگائی پر کنٹرول نہیں کر سکتے۔

پھر اس ڈیویلیوشن کی وجہ سے سب سے بڑا مسئلہ نفسیاتی ہے اسی کی دہائی میں جو معیار زندگی آپ آٹھ نو سو روپے مہینہ میں حاصل کر لیتے تھی آج وہ ایک لاکھ مہینہ میں بھی ممکن نہیں۔ ہمارے دادا نانا دس روپے مہینہ میں گزارا کرتے تھے ہمارے والدین چند سو میں اور ہم ستر اسی ہزار میں۔ اب عام پاکستانی اس تیزی سے ہونے والی ڈیویلیوشن کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ اب اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ روپیہ واپس سونے سے وابستہ کر دیا جائے اور تنخواہ اور قیمتیں سونے پر مقرر کر دی جائیں۔

دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں مینوفیکچرنگ ختم ہونے کی وجہ سے مینوفیکچررز تاجر بن گئے یہاں تک بات صحیح تھی لیکن پاکستان میں کاروبار کی ڈائنیمکس عجیب ہیں یہاں لوگ پیسہ لے کر پھرتے ہیں اور سٹہ بازوں سے مشورہ کر کے کھانے پینے کی اشیا سے لے کر پیمپرز تک سٹور کر لئے جاتے ہیں اور دو مہینہ رکھ کر بیچ دیے جاتے ہیں۔ اس میں اربوں روپے کا سٹہ بھی شامل ہوتا ہے۔

تیسری وجہ مڈل مین ہے ایک سبزی کا ٹرک منڈی میں ان لوڈ ہونے سے پہلے دس دفعہ بک چکا ہوتا ہے یعنی تقریباً تین سے چار گنا مہنگا ہو چکا ہوتا ہے۔

اب یہ ہو گئی مرض کی تشخیص اس کا حل کیا ہے اس کا بہترین حل یہ ہے جو برٹش نے انڈیا میں اپنایا تھا۔ سب سے پہلے خفیہ پولیس کو ایکٹو کریں اور سٹہ بازوں تک رسائی حاصل کریں تاکہ پہلے ہی مہنگی ہونے والی چیز کا پتہ چل جائے اور اس کا مناسب حل کر دیں ڈپٹی کمشنر کو چیزوں کے سٹاک کو سرکاری ریٹ پر نیلام کرنے کا اختیار دے دیں۔ کسی حلقے کی چیز مہنگی ہونے پر ایس ایچ او کو اکاؤنٹ ایبل ٹھہرائیں۔

یہ مسئلے کی فرسٹ ایڈ ہے۔ اب لانگ ٹرم حل پر آئیں اور مڈل مین ختم کریں۔ سب سے بہتر حل کسان کو فروخت کرنے پر آمادہ اور موٹیویٹ کرنا ہے۔ باقی مڈل مین اگر پاسپورٹ آفس میں ختم ہو سکتے ہیں تو منڈیوں میں ختم کرنا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے صرف دکان کا مالک مال اتار کر خریدنے کا مجاز ہو۔ ایک شہر کے روزانہ کے دس یا بیس ہزار ٹرک مینیج کرنا اتنی بڑی انتظامیہ کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔

کسان یا مینوفیکچررز کو کارڈ جاری ہوں کسی بھی شکایت پر سرکاری اہلکار فوری معطل ہو کر اس کی انکوائری شروع ہو۔ تاکہ اس حل کو رشوت کا ایک ذریعہ نہ بنا لیا جائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).