پی ٹی ایم سے پی ڈی ایم تک: شکست خوردہ ریاستی بیانہ


وطن عزیز ایک ایسی بدنصیب کھیتی ہے۔ جس کو باہر سے زیادہ اپنی باڑ سے نقصان پہنچا ہے۔ اس کی راکھی کے دعویدار ایوب خان ہو، یحییٰ خان ہو، ضیاء الحق ہو یا مشرف، سب نے ریاستی مفادات کے بیانیہ کی آڑ میں ملک وقوم کو خطرات اور سانحات سے دوچار کیا۔ چاروں نے سیاسی لیڈر شپ کو ملک وقوم کے لئے خطرہ اور خود کو ناگزیر باور کرایا۔ ایک خود کو ڈیگال دوسرا خود کو بین الاقوامی معاملات کا ماہر تیسرا خود کو مرد حق اور چوتھا اپنے آپ کو نڈر کمانڈو سمجھتا تھا۔ جبکہ چاروں کے لئے سب سے بڑا اعزاز افواج پاکستان کا کمانڈر انچیف ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ اس سے بڑا کوئی اعزاز نہیں ہونا چاہیے۔

ایک نے عالمی امریکی جنگی منصوبہ بندی کے لئے ماحول سازگار بنایا۔ دوسرے نے اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کی بجائے امریکی دشمنوں کی تعداد گھٹائی، تیسرے نے امریکی جنگ کی کمان کو معراج سمجھا اور چوتھے نے اسی جنگ کے ملبے کی صفائی میں خدمات سر انجام دیں۔ چاروں اپنے اپنے دور میں خود کو ریاست، قانون و آئین اور فوج سمجھتے تھے۔ لیکن چاروں کی رخصتی کے بعد ریاست آئین قانون اور فوج کی عزت بڑھی۔ چاروں میں غیر ملکی مفادات کی نگہداشت کے علاوہ جو دوسری بات مشترک تھی، وہ عوامی خواہشات کی بیخ کنی اور جمہوریت دشمنی تھی۔ ان کے ادوار میں سیاسی لیڈر شپ کی عزم و ہمت کے علاوہ کسی کو جمہوریت کی واپسی کی امید نہیں تھی۔ چاروں کی رخصتی کے بعد جمہور اور جمہوریت پنپنے لگی کیونکہ جمہوریت تاریخ کا دھارا اور پاکستان کی قسمت ہے۔ ہاں چاروں نے ریاست کو کمزور، بے سمت اور زخم زخم کر کے اپنی راہ پکڑی۔

بدقسمتی سے وطن عزیز میں جمہوریت کو موقع ہمیشہ کسی حادثے کی بنا پر ملا ہے۔ طالع آزماؤں نے مشرقی پاکستان کو سانحہ بنایا تو بھٹو صاحب کے مختصر دورانیے میں جمہوریت مکمل نہ بھی آئی تو آئین اور سیاسی شعور ضرور آیا۔ اس آئینی اور سیاسی شعور کو مذہبی افیون کھلا کر تب تک سلانے کی کوشش کی گئی جب تک کہ ضیا کا تاریک دور ایک فضائی حادثے کی نذر نہ ہوا۔ اس زمانے کے بدترین کارناموں میں پوری قوم کو کرکٹ میں الجھانا اور نوجوانوں کو سیاست سے دور کرنے کی خاطر تعلیمی اداروں میں طلبا یونینز پر پابندی تھی۔ ضیا کے باقیات نے ناتجربہ کار بے نظیر اور نووارد نواز شریف کو لڑا لڑا کر استعمال کیا۔ لڑتے لڑتے جب ایک کی چونچ اور دوسرے کی دم نہ رہی تو مشرف نے قدم رنجہ فرمایا۔

آمر اتنا کمزور ہوتا ہے کہ جب تک وہ اپنے مخالفین کو قتل نہ کرے جیلوں میں نہ ڈالے یا جلاوطن نہ کردے وہ خوفزدہ رہتا ہے۔ جلاوطنی سیاسی لیڈر کے لئے اعلیٰ درجے کی یونیورسٹی سے کم نہیں ہوتی۔ اس لیے جلاوطنی نے ہی نواز شریف اور بے نظیر کو پہلی بار ہم خیال اور ہم مزاج بنا کر میثاق جمہوریت پر تیار کیا۔ جلاوطنی سے واپسی بڑی شاندار سیاسی کامیابی ہوتی ہے۔ لیکن یہ واپسی خطرات سے خالی نہیں ہوتی۔ بے نظیر یہ جانتے ہوئے بھی قتل گاہ میں اتری۔

قتل گاہ سے جمہوریت کا پرچم چن کر آصف زرداری نے جمہوریت کی تلوار سے آمریت کے اژدہا پر وار کر کے جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دیا۔ تو بل میں گھسے ہوئے زخمی اژدہا نے باریاں لینے کا بیانیہ ایجاد کر کے عام کیا۔ جبکہ امریکہ ہو یا برطانیہ، فرانس ہو یا کینیڈا ہر جمہوری ملک میں دو دو پارٹیاں ہیں۔ جو باری باری اپنی کارکردگی کی بنا پر حکومت کرتی ہیں۔ باریاں لینا، باری باری حکومتیں بنانا، کمزور کارکردگی کی وجہ سے حکومت سے نکل جانا اور بہتر کارکردگی دکھا کر حکومت کرنا جمہوری روایات ہیں، برائی خرابی یا طعنہ نہیں۔ مشرقی پاکستان کے سانحے بھٹو کی پھانسی ضیاء الحق کے حادثے اور بے نظیر کی شہادت کے بعد کیا اب بھی جمہوریت آنے کے لئے کسی حادثے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ کیا اس ملک میں جمہوری حادثہ کسی حادثے کے بغیر ممکن ہی نہیں؟

غداری کے القابات اور وطن دشمنی کے الزامات میں جان رہی نہ کشش۔ ففتھ جنریشن جنگ اگر واقعی کہیں لڑی جا رہی تھی تو اطلاعاً عرض ہے کہ وہ جنگ ختم ہو چکی ہے۔ کیونکہ میڈیا کی غیر موجودگی یا پابندی کی بنا پر جو نعرے وزیرستان کے دور دراز پہاڑوں میں لگ رہے تھے وہ اب قومی لیڈرشپ کی موجودگی میں کراچی، گوجرانولہ اور کوئٹہ کے بڑے جلسوں میں لگتے ہیں۔ ماورائے قانون گرفتار شدگان کے حق میں اٹھنے والی گھٹی گھٹی آوازیں جو خضدار اور پختونخوا کے دیہات میں سنائی دے رہی تھیں، اب ٹی وی مباحثوں میں گونجتی ہیں۔

منظور پشتیں اور قدیر ماما کے مطالبات اب نواز شریف مریم نواز فضل الرحمان اختر مینگل اور محمود خان کرنے لگے ہیں۔ آئین اور قانون کی عملداری کی دہائی اور ٹروتھ اینڈ ریکنسیلئشن کمیشن کے قیام کی ڈیمانڈ اب پی ٹی ایم کے ساتھ ساتھ پی ڈی ایم بھی کرتا ہے۔ آپ کے حواس باختہ مشیروں کے بقول پی ڈی ایم گیارہ پارٹیوں کا اتحاد ہے یعنی ایک طرف پی ٹی آئی اور دوسری طرف پوری قوم کھڑی ہے۔

یہ لفاظی، فصاحت و بلاغت، تشویش کے اظہار، اجلاسوں، جوابی بیانیہ اور کمیٹیاں بنانے کا وقت نہیں عملی اقدامات کا ہے۔ اس مرض کا علاج یک صفحاتی حکومتی انتظام نہیں کیونکہ مہنگائی اور حکومتی بد انتظامی کی وجہ سے عوام اور حزب اختلاف بھی یک صفحاتی حقیقت بنتی جا رہی ہے۔ بڑی خوشی اور اطمینان کی بات ہے کہ رینک اور فائل میں مکمل اتحاد و اتفاق ہے۔ ممکن ہے رینک کی تنخواہیں ان کی روزمرہ کی ضروریات کے لئے کافی ہوں لیکن فائل کے والدین اور بچے مہنگائی اور حکومتی نا اہلی کی وجہ سے ہلکان ہیں۔

حکومت کو وزراء کے اجلاس بلانے چاہیے نہ کہ پروپیگنڈائی مشیران کی۔ مسئلہ عوام اور مہنگائی کا ہے حزب اختلاف اور ان کے بیانیے کا نہیں۔ جلسے کے بدلے میں جلسہ، الزام کے بدلے میں دشنام، پریس کانفرنس کے بدلے میں پریس کانفرنس کی ضرورت ہے نہ شہباز گل، شیخ رشید، علی زیدی اور چوہان کی۔ سیاسی کشمکش سیاسی پارٹیوں تک محدود ہونی چاہیے۔ فوج نے دشمن کو بھرپور جواب دیا تھا۔ ائر فورس نے شاندار کارکردگی دکھائی تھی۔ گرفتار شدہ پائلٹ کو حکومت نہیں سنبھال سکی۔

اتنی جلدی اور بغیر کسی قانونی کارروائی کے تو غلطی سے بارڈر کراس کرنے والا چرواہا اور لہروں کی وجہ سے ہماری طرف آنے والا بھارتی مچھیرا بھی نہیں چھوڑا جاتا جتنی جلدی میں ایک حملہ آور پائلٹ چھوڑا گیا۔ جبکہ اعلان جنگ کی غیر موجودگی کی بنا پر اسے نہ جنگی قیدی کی حیثیت حاصل تھی نہ جینیوا کنونشن کے مراعات کا حق دار تھا۔

حزب اختلاف نے جو لہجہ اختیار کیا ہے وہ یا تو بہت مایوسی کی صورت کا اظہار ہے یا بہت غور و فکر اور اعتماد کا مظہر ہے۔ سر جوڑ کر بیٹھنے اور سیلاب کو راستہ دینے کا وقت ہے۔ سیاسی بندوبست اور غداری کے الزامات والا ففتھ جنریشن وار فئیر کا بیانیہ ناکام ہو چکا ہے۔ عہدے پارٹیاں سیاست اور انائیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ اصل اور ان سب سے اہم ریاست ہے۔ عوام تنگ ہیں سیاست دان تنگ ہوں یا نہ ہوں۔ سیاست دانوں کو این آر او کی ضرورت ہو یا نہ ہو عوام کو این آر او چاہیے۔ گیارہ پارٹیوں کے لیڈر (بقول آپ کے ) غدار ہوسکتے ہیں۔ لیکن ان کی بات سننے والی پورے ملک کے عوام نہیں۔

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani