تخلیقی اقلیت کے خواب اور مسائل پر تبصرہ


جب کوئی شخص ”تخلیقی اقلیت“ کے یہ دو الفاظ سنتا ہے تو اس کے دماغ میں بہت سے سوالات پیدا ہوسکتے ہیں :

تخلیقی صلاحیتں کیا ہیں؟ تخلیقی عمل کیا ہے؟ کیوں کچھ لوگ تخلیقی ہوتے ہیں اور ان کی مشترکہ خصوصیات کیا ہیں؟ کیا وہ اپنے خاندانوں اور معاشروں کی روایات اور اقدار کے ساتھ تنازعات میں نہیں ہیں؟ اگر ایسا ہے تو کیا وہ مسائل کو حل کرنے کے قابل ہیں؟

جب میں نے خالد سہیل کتاب کی کتاب

Creative Minority۔ Dreams and Dilemma کو دیکھا تو میں نے فوری طور پر جان لیا کہ وہ خود اس موضوع پر لکھنے اور ان پیچیدہ سوالوں کے جواب دینے کے لئے غالباً سب سے بہتر انسان ہوں گے۔ میری رائے مندرجہ ذیل وجوہات پر مبنی ہے :

1۔ ڈاکٹر خالد سہیل خود ایک تخلیقی شخص ہیں۔ وہ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں منجھے ہوئے نثر نگار اور شاعر ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

2۔ وہ ماہر نفسیات اور طبیب ہیں اور انسانوں کا مطالعہ کرنے کا جذبہ ان کے لکھنے پڑھنے کے شوق سے کم نہیں ہے۔ اپنے کلینک میں ان کا کئی ایسے خاندانوں کے ساتھ واسطہ پڑا جن میں سے کسی ایک فرد کا رویہ یاطرز زندگی تخلیقی صلاحیتیں ہونے کی وجہ سے مختلف تھا، ایک روایتی یا فعال زندگی گزارنے کے دباؤ سے نمٹ نہیں سکتا تھا، اور وہ اور اس کے گھر والے ایک دوسرے کے لئے نا قابل قبول تھے۔

3۔ مصنف ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جن میں کچھ تخلیقی شخصیات تھیں۔ ڈاکٹر سہیل کے بچپن اور ابتدائی بالغ زندگی کے دوران ان میں سے چند کے ساتھ قریبی تعلقات تھے اور انہوں نے مشاہدہ کیا ہے کہ ایک روایتی معاشرے میں تخلیقی لوگوں اور خاندانوں کے درمیان کیا تنازعات و تضادات جنم لیتے ہیں۔

یہ تخلیقی لوگ کون ہیں؟ مصنف نے ا انگریزی زبان میں اپنی ایک مختصر نظم کے ذریعے اس کی وضاحت کی ہے : ترجمہ:

—–
تخلیقی لوگوں نے ہمیشہ میرے دماغ کو سوچنے پر مجبور کیا ہے
میں متاثر ہوں
سائنسدانوں کے ذہنوں سے
فنکاروں کے دلوں سے
عارفوں کی روحانیت سے
فلسفیوں کی منطق سے
سدارکوں کا جذبے سے
اور
انقلابیوں کی بغاوت سے
انہوں نے انسانیت کی رہنمائی کی ہے
ارتقاء کے اگلے مرحلے میں لے جانے کے لئے
کئی سالوں سے
میں جستجو میں ہوں
ان کی شخصیات کو سمجھنے کی
ان کی سوچوں کا تجزیہ کرنے کی
اور
تاریخ میں ان کے ورثہ کی
تخلیقی افراد ہمیشہ اقلیت میں ہوتے ہیں
لیکن وہ اوروں کے لئے مشعل راہ ہوتے ہیں
روایتی اکثریت کو نئی بلندیوں پر لے جانے کے لئے
ان کو زندگی کی گہرائیوں میں اتارنے کے لئے
—–

ڈاکٹر سہیل نے اپنے ادبی اور طبی تجربات، مشاہدات اور حصول علم کے ذریعے تخلیقی لوگوں کی کچھ مشترکہ خصوصیات کو جمع کیا ہے :

تخلیقی شخصیات اپنے ماحول کے بارے میں انتہائی حساس ہوتی ہیں
وہ خلوت کو پسند کرتی ہیں
تخلیقی شخصیات اپنے فن / سوچ کے اظہار کے طریقے کو بہت پسند کرتی ہیں
وہ نظم و ضبط کی پابندی بہت مشکل سے کر پاتی ہیں
تخلیقی شخصیات تصورات سے بہت متاثر ہوتی ہیں
تخلیقی شخصیات روایات کو چیلنج کرتی ہیں
تخلیقی شخصیات اپنے فن، مہم، یا سوچ کے لئے مغلوب الجذبات ہوتی ہیں
تخلیقی شخصیات کے ساتھ روایتی لوگوں کا رہنا مشکل ہو سکتا ہے
تخلیق کرنے سے پہلے تخلیقی شخصیات اپنی زندگی میں موجود فن پاروں یا نظریات کو رد کر دیتی ہیں
تخلیقی شخصیات مایوسی اور تنازعات کا شکار ہو جاتی ہیں
تخلیقی لوگ فطرت کے اسرار سے بہت متاثر ہوتے ہیں
تخلیقی شخصیات فن اور زندگی کے بارے میں ایک فکر رکھتی ہیں

ڈاکٹر سہیل تخلیقی شخصیات کو تین گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ان کی کتاب سے اقتباس کا ترجمہ درج ذیل ہے :

”میں تخلیقی شخصیات کو اپنی سماجی اور پیشہ ورانہ ملاقاتوں کی بنیاد پر تین گروہوں میں تقسیم کرتا ہوں۔

پہلا گروپ ان تخلیقی شخصیات پر مشتمل ہے جو خوش، صحت مند اور کامیاب ہیں۔ انہوں نے اپنی چھوٹی سی دنیا میں تخلیقی عمل اور بیرونی روایتی دنیا کے مابین ہم آہنگی اور توازن پا لیاہے، اپنے روایتی رشتہ داروں، ساتھیوں اور پڑوسیوں کے ساتھ اپنے تنازعات کو حل کر لیا ہے اور ایک معاون سماجی نیٹ ورک تیار کیا ہے جو ان کے روزمرہ کی زندگی میں کسی بحران کی صورت میں ان کی میں مدد کرتا ہے۔ ایسی تخلیقی شخصیات کو ایک ماہر نفسیات کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے۔

دوسرے گروپ میں وہ تخلیقی شخصیات شامل ہیں جن کے جذباتی اور سماجی مسائل شدید نہیں ہیں۔ ان کے بھی اپنے روایتی خاندان اور معاشرے کے ساتھ تنازعات ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی میں معمولی بحران آتے ہیں لیکن وہ طرز زندگی کے حصے کے طور پر اس طرح کے مسائل کو قبول کر لیتے ہیں اور جذباتی اور سماجی تعطل کا شکار نہیں ہوتے۔ ایسے لوگوں کو بھی پیشہ ورانہ مدد کی ضرورت نہیں ہے۔

walt whitman

تیسرا گروپ ان تخلیقی شخصیات پر مشتمل ہے جو سنگین جذباتی اور سماجی مسائل سے دوچار ہیں، جو ان کے اور ان کے چاہنے والوں کے لئے بحران کا باعث بنتے ہیں۔ وہ ارد گرد کی روایتی دنیا اور اپنی تخلیقی دنیا کے درمیان جنگ میں مبتلا ہیں۔ اس طرح کے لوگ خاندان کے تنازعات اور پریشانی کی وجہ سے ڈپریشن یا کسی اور ذہنی بیماری کے مریض بن جاتے ہیں۔ ان لوگوں کو کسی ماہر نفسیات سے علاج کرانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ زیادہ تر نفسیات کے طبیب تخلیقی شخصیات کو سمجھنے کے لئے تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ نہیں ہوتے۔

ایسے روایتی تعلیم و تربیت یافتہ ڈاکٹر، نرس اور تھراپسٹ پریشانی، ڈپریشن اور دوسری ذہنی بیماریوں کا علاج شخصیت کے تخلیقی پہلو کو نظر انداز کر کے کرتے ہیں۔ ایسی صورت حال تخلیقی شخصیات کے لئے مزید جھنجھلاہٹ کا سبب بنتی ہے کیوں ان کے معالج ان کو نہیں سمجھ پاتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اس سے بھی ڈرتے ہیں کہ ادویات اور علاج ان کی تخلیقی صلاحیتوں میں مداخلت کریں گے جس سے ان کے تخلیقی عمل پر منفی اثر ہو گا۔ ”

تخلیقی عمل کی وضاحت کرنا ماہرین کے لئے ہمیشہ مشکل رہا ہے۔ چند لوگوں کے نظریات سامنے آئے ہیں۔ مصنف نے مندرجہ ذیل نظریات کو بیان کیا ہے :

جوزف والس کا نظریہ سب سے زیادہ مقبول ہوا، جن کے مطابق تخلیقی عمل چار مراحل پر مشتمل ہے : تیاری، پذیرائی، تنویر، اور توثیق۔ کئی دیگر ماہرین نے تخلیقی عمل کا نظریہ بالکل مختلف طرح پیش کیا ہے۔ ان کے مطابق ابتدائی سوچ، سانوی سوچ، اور پھر پختہ سوچ کسی بھی تخلیقی عمل کا پیش خیمہ ہیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل اس کتاب میں یہ بھی بتاتے ہیں کہ روایتی اسکولوں اور کالجوں کے اساتذہ کس طرح تخلیقی طالب علموں کو منفی طرز سے دیکھتے ہیں اور ان کے ذہنوں کی پرورش کرنے کے بجائے یہ ادارے ان کی ذات اور صلاحتیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

میں نے ”روایتی اکثریت تخلیقی اقلیت“ کے باب کو بہت دلچسپ پایا۔ مصنف نے وضاحت کی ہے کہ تمام بچے ایک فطری شخصیت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ جب وہ بڑے ہوتے ہیں تو ان کی فطری شخصیت دو حصوں میں تبدیل ہو جاتی ہے :

مشروط شخصیت: خاندان اور معاشرہ اپنی اقدار، عقائد، پسند، ناپسند، تعصبات کے ساتھ بچوں کے ذہن کو کنٹرول کرتا ہے اور ان کو بتاتا ہے کہ انہیں کیا کرنا چاہیے اور کیسے سوچنا چاہیے۔

تخلیقی شخصیت: یہ بچوں کا فطری تحفہ ہے جسے وہ کسی تخلیقی عمل کے ذریعے اظہار اور اشتراک کرنا چاہتے ہیں اور وہ خود فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں اور کیا سوچنا چاہتے ہیں۔ یہ ان کی آزادانہ سوچ کا آئینہ دار ہوتا ہے۔

اس کتاب کا مواد چند تخلیقی شخصیات کی زندگی پر روشنی ڈالتا ہے۔ مصنف نے درج ذیل مشہور ہستیوں کی جدوجہد، تنازعات، تعلقات، اور ان کی تخلیقات کو نمایاں کیا ہے :

Walt Whitman

والٹ وٹمین (امریکی شاعر، مضمون نگار اور صحافی) روایتی اسکول کے نظم و ضبط، تعلیم اور سیکھنے کے طریقوں پر نہیں عمل کر سکے۔ ان کے والد کو استاد نے مایوس ہو کربتایا۔ ”یہ لڑکا بہت بیکار ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ کسی بھی ہنر کے قابل نہیں بنے گا۔“ ان کے والد نے انہیں اسکول سے تیرہ سال کی عمر میں اٹھا لیا اور ایک چھاپہ خانہ میں کام کرنے کے لئے بھیجا جہاں والٹ وٹمین پھر ناکام رہے۔ اس چھاپہ خانے کے مالک کا خیال تھا کہ والٹ اپنے آپ کو ”کچھ نہ کرنے کے فن“ میں وقف کر رہا تھا۔ لیکن در حقیقت

والٹ وٹمین کبھی بھی بیکار نہیں تھے۔ والٹ زندگی کے اسرار کو حل کرنے کے لئے ذہنی مشقت میں مصروف رہتے تھے۔ وٹمین نے خود ہی گھر میں تعلیم حاصل کی اور بہت مشہور لکھاری بن گئے۔

Albert Einstein

البرٹ آنسٹائن (جرمن نظریاتی طبیعیات) ایک سست طالب علم تھے کیوں کہ وہ تدریس و تعلیم کے روایتی نظام کے لئے موزوں نہیں تھے۔ جب ان کے والد نے اپنے بیٹے کے ہیڈ ماسٹر سے پوچھا کہ اس کے بیٹے کو کیا پیشہ اختیار کرنا چاہیے تو جواب صرف یہ تھا، ”اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ لڑکا کسی بھی چیز میں کبھی کامیابی حاصل نہیں کرے گا۔“ لیکن ان کے ایک استاد اورچچا نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی ہمت افزائی کی اور سولہ سال کی عمر میں البرٹ آئنسٹائن نے ایک تخیلی خاکہ تیار کیا جو بعد میں ان کے مشہور زمانہ نظریہ اضافیت کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔

Charles Darwin

چارلس ڈارون (انگریز ماہر قدریات، ماہر ارضیات اور ماہر حیاتیات) کو شریوسبری کالج بھیجا گیا تھا، لیکن چارلس نے اسے بہت بورنگ پایا اور اس کے نصاب سے نفرت ہو گئی۔ چارلس کے باپ نے انہیں کالج سے اٹھا لیا اور چارلس کو بتایا ”تم کسی کام کے قابل نہیں ماسوائے شوٹنگ کا شوق یا کتوں اور چوہوں کو پکڑنا۔ تم اپنے تمام خاندان کے لئے ایک ذلت کا سبب بنو گے۔“ پھر چارلس کو ایک میڈیکل کالج میں بھیجا گیا، لیکن چارلس نے اسے بھی پسند نہیں کیا۔

ان کے والد نے انہیں ایک مذہبی مدرسہ میں بھیج دیا جہاں انہوں نے عیسائی تعلیمات کے خلاف بغاوت کی۔ اپنے میڈیکل کالج کی تعلیم کے دوران چارلس ایک سائنسی سوسائٹی کا رکن بن گئے تھے جس کے اراکین دانشورانہ بحث کرتے تھے۔ اس سوسائٹی نے چارلس کو ایک تخلیقی اور متحرک ماحول فراہم کیا اور انہوں نے قدرت کی تاریخ اور سائنس پر بہت سے مضامین لکھے۔ ان شعبوں میں چارلس ڈارون کی دلچسپی کی وجہ سے بالآخر انہوں نے The Origin of Species اور The Descent of Man جیسی کتابوں کی تصنیف کی جس میں انہوں نے زندگی کے ارتقائی نظرئے کو پیش کیا۔


Karl Marx

کارل مارکس (جرمن ماہر سماجیات و معاشیات اور صحافی) نے زندگی انتہائی مالی جدوجہد، جلاوطنی اور جیل میں گزاری۔ کارل اپنی سیاسی مطبوعات کی وجہ سے بے وطن ہو گئے اور اپنے بیوی اور بچوں کے ساتھ کئی عشروں کی جلاوطنی کی مصیبت بھگتی۔ ان کی سب سے مشہور تخلیقات 1848 کا کتابچہ کمیونسٹ منشور اور تین حجم پر مشتمل داس کاپاٹال ہیں۔ کارل کی بیوی نے بہت دکھ بھری زندگی گزاری لیکن کارل کے ایک دوسری عورت سے تعلقات کے باوجود ان سے محبت کرتی رہی۔

Anais Nin

انیس نن (فرانسیسی امریکی مضمون نگار، ناول نگار اور مختصر کہانیوں کی مصنفہ) نے ایک سے زیادہ شادیاں کیں اور محبتیں کیں۔ انہوں نے اپنی ڈائری، میگزین، شہوت انگیز کہانیاں، اور ناولوں کو شائع کیا۔ انیس نے اپنی زندگی میں بہت جلد دریافت کر لیا کہ انسانوں کی شخصیات کے دو پہلو ہوتے ہیں : ایک روایتی شخصیت جو والدین، اساتذہ اور ثقافتی اقدار کی وجہ سے بنتی ہے اور ایک تخلیقی شخصیت جو انسان اپنی اندرونی تلاش کے بعد پاتا ہے۔

Nida Fazli

ندا فاضلی (بھارتی ہندی اور اردو شاعر، اورمکالمہ مصنف جن کا خالد سہیل نے خود انٹرویو لیا ) بچپن میں عدم تحفظ کا شکار ہوئے کیوں کہ ان کے والد ایک طوائف کے ساتھ شام گزار کر دیر سے گھر آتے تھے۔ وہ فسادات کا زمانہ تھا۔ باپ کی اپنے اہل خاندان سے غیر دلچسپی کی وجہ سے ماں نے بچوں کے معاملات میں بہت عمل دخل دینا شروع کر دیا اور ندا کو کم تر ذات کے بچوں کے ساتھ کھیلنے سے منع کر دیا۔ ان حالات نے ندا فاضلی کو سرکش بنا دیا۔

ندا فاضلی

انہوں نے ایک رومانی المیہ کی وجہ سے نظمیں لکھنے شروع کردیں۔ سنہ 1965 میں یعنی بھارت کی تقسیم کے اٹھارہ سال بعد ان کے والدین اور دیگر خاندان کے ارکان پاکستان منتقل ہو گئے۔ فاضلی تاہم ہندوستان میں ہی رہے۔ والدین سے علیحدگی ان کی زندگی میں ایک سنگین واقعہ تھا جس کا درد اور اس کے اثرات ان کے شب و روز پر حاوی رہے۔

Saqi Farooqi

ساقی فاروقی (برطانیہ میں مقیم پاکستانی اردو اور انگریزی شاعر جن کا خالد سہیل نے خود انٹرویو لیا) زندگی کے تجربات کو اپنی شاعری میں بیان کرنے میں باغی، بے باک اور نڈر تھے۔ ایک متنازعہ شخصیت کی وجہ سے لوگ ان سے محبت کرتے ہیں یا نفرت۔ ان کی شخصیت روایتی معاشرے کی منافقت کے بارے میں شدید احساسات کا نتیجہ تھی۔ ان تضادات کی وجہ سے ان کی شخصیت میں کافی شکست و ریخت پیدا ہوئی۔

Virginia Woolf

ورجینیا وولف (انگریز ناول نگار اور مضمون نگار ) کو بیسویں صدی کے جدت پسند مصنفین میں سے سب سے اہم سمجھا جاتا ہے۔ ان کی تخلیقی صلاحیت اور دیوانگی ساتھ ساتھ رہیں۔ وولف بچپن میں ہی 1895 میں ماں کی موت کی وجہ سے سے ذہنی مسائل کا شکار ہو گئیں۔ دو سال بعد ان کی سوتیلی بہن جو اب ان کے لئے ایک ماں کی شخصیت کی طرح تھیں کا انتقال ہو گیا۔ ورجینیا اس صدموں کی تاب نہ لا کر موڈ سوئنگز کے اضطراب کا شکار رہیں اور ایک دن یاسیت کے زیر اثر آ کر خود کشی کر لی۔

Vincent Van Gogh

ونسنٹ وین گوف (ڈچ مصور) دیوانگی کا شکار ہو گئے اور ایک شیزوفرینک شخصیت بن گئے۔ ان کی دیوانگی ان کی تخلیقی صلاحیتوں کے لئے ایک محرک تھی۔ صرف ایک دہائی کے دوران انہوں نے 2100 فن پارے تخلیق کیے ۔ ذہنی بیماری اور غربت کی ایک طویل مدت کے بعد انہوں نے خود کشی کا ارتکاب کر لیا۔

اس کتاب میں ڈاکٹر سہیل نے ذہنی تنازعات میں مبتلا دو تخلیقی انسانوں کے بارے میں کہانیاں شامل کی ہیں جن کا انہوں نے کامیابی سے علاج کیا۔

کتاب کے اختتام پر مصنف نے ایک سوالنامہ پیش کیا ہے جس کے جوابات کے مجموعی اسکور سے جواب دینے والا اپنی تخلیقی صلاحیت کا اندازہ لگا سکتا ہے۔

تخلیقی لوگوں کو عام طور پر روایتی اکثریت مسترد یا نظر انداز کر تی ہے لیکن یہی تخلیق کاراگلی نسلوں کے ہیرو بن جاتے ہیں۔ میری رائے میں ہم سب کو انسانی ذہن اور سماج کے ارتقاء کا راستہ بنانے والے ان تخلیقی لوگوں کی کاوشوں کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ آج وہ ظلم یا تنقید کا نشانہ بنتے ہیں لیکن کل کی نسل انہی کے نظریات، تحریکوں اور فن پاروں کی مرہون منت ہو گی۔ اسی بارے میں کتاب سے اس موضوع پر مندرجہ ذیل تبصرہ نقل (ترجمہ) کیا جاتا ہے :

”دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم کسی بھی تہذیب کے ارتقاء کی تحقیق کرتے ہیں تو ہم یہ پائیں گے کہ ایک صدی کی تخلیقی اقلیت کی تخلیقات اگلی صدی کی روایتی اکثریت کے افکار اور طرز زندگی کا سد باب بن جاتی ہیں اور یہ نیا دور ایک نئی تخلیقی اقلیت کو جنم دیتا ہے جو انسان کے ارتقاء کو ایک اور اگلے مرحلے کی طرف لے کر جاتی ہے۔ یہ دیکھنے والی دلچسپ بات ہے کہ کس طرح ایک نسل کے دھتکارے ہوئے لوگ اگلی نسل کے ہیرو بن جاتے ہیں۔“

میں قاری کو اس کتاب کے پڑھنے کا مشورہ ضرور دوں گا کیونکہ اس کے مطالعہ سے کسی بھی خاندان کے ارکان کو ان کے گھر میں تخلیقی ذہن کے حامل شخص کو سمجھنے میں مدد ملے گی، اساتذہ کو ان کے کلاس روم میں ایسے طلباء کی نشو و نماء کرنے کا موقع ملے گا اور ایک منیجر کو اس کی تنظیم میں ایسے ملازمین کی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرنے میں مدد ملے گی۔

عنوان : Creative Minority۔ Dreams and Dilemma
مصنف: ڈاکٹر خالد سہیل
پبلیشر: گرین زون پبلشنگ
صفحات کی تعداد: 167
سال اشاعت: 2016


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).