بھیے پتا کریو، لندن پاکستان میں تو نہیں؟


آپ یقین کریں یا نہ کریں لندن پاکستان کا کوئی شہر نہیں برطانیہ کا دارالحکومت ہے۔ اچھا آپ کو یہ بات پتا ہے! ہمیں نہیں معلوم تھی۔ معلومات عامہ کی کمی ہمارا خاصہ تو ہے ہی مگر جغرافیے سے ناواقفیت میں کوئی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ عمران خان صاحب کے علاوہ۔ ہمارے ملک میں تھانوں کی حدود، کراچی میں کنٹونمنٹ بورڈز اور بلدیہ کی حدود اور اداروں کی آئینی حدود ہماری تو کیا اوقات ”سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا وفارابی“ لیکن ہم تو اپنے ملک اور دنیا کا جغرافیہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں۔

یہاں تک کہ ہم باوجود کوشش کے سمتیں بھی نہ جان پائے۔ کسی نے سمتیں جاننے کی ترکیب بتائی تھی، ”نکلتے سورج کی طرف منہ کر کے کھڑے ہوجاؤ، سامنے مشرق ہو گا، عقب میں مغرب، بائیں طرف شمال اور دائیں طرف جنوب“ لیکن یہ آسان طریقہ بھی ہمارے کام نہ آسکا، جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سورج بہت جلدی نکل آتا ہے، بھئی تمھارا کون سا دودھ کا کاروبار ہے، تمھیں کس دفتر جانا ہے، کیا ضرورت ہے سویرے سویرے نکلنے کی، مگر نہیں انھیں عین اس وقت نکلنا ہے جو ہماری میٹھی نیند کا ہے۔

شاید علم، عروج اور ہمارے نوجوانوں کی طرح سورج بھی جلدازجلد مشرق سے نکل کر مغرب پہنچنا چاہتا ہے۔ ادھر ہم طے کر کے سوتے ہیں کہ اب روزحشر ہی اٹھیں گے اور بستر سے تب مجبور ہو کر نکلتے ہیں جب یقین ہو جائے کہ دفتر کا وقت نکلا جا رہا ہے۔ چنانچہ ہمارے کھلے آسمان تلے نکلتے نکلتے سورج سر پر آ چکا ہوتا ہے۔ اب آپ ہی کہیے ہم سمتوں کا تعین کیسے کر پاتے!

ہمارے باقی کے جغرافیے کا بھی یہی حال ہے۔ ویسے ہم کیا کریں جب اتنے دور بیٹھے جاپان اور برطانیہ آپس میں جنگ لڑیں تو ہم جیسا بھولابھالا انسان یہی سمجھے گا نا کہ ان میں کوئی سرحدی تنازعہ تھا، اور مشرقی پاکستان کے بارے میں ہمارا یہ سمجھنا کیا غلط ہے کہ مشرقی پنجاب کے آس پاس کہیں ہوگا تبھی تو اسے ایک سردار جی جنرل جگجیت سنگھ اروڑا نے فتح کر لیا، جب سبھی کہتے ہیں کہ افغانستان میں پہلے روس پھر امریکا کا بیڑا غرق ہو گیا تو ہم کیسے نہ سمجھتے کہ افغانستان میں سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔

یہی معاملہ لندن کا ہے، بچپن سے اس شہر کا ذکر اتنا سنا کہ ہمیں لگتا تھا یہ پاکستان ہی میں کہیں واقع ہے، بلکہ ایک عرصے تک تو ہم اس گمان میں رہے کہ لندن کراچی ہی کا کوئی محلہ ہے جو عزیزآباد کے ”پلی“ طرف آباد ہے۔ بعض دفعہ تو ہم لوگوں سے پوچھ بھی بیٹھے ”بھیا! کیا ڈبلیو گیارہ لندن جاتی ہے“ سننے والے نے ہمیں دیکھا اور ہمارے چہرے پر پھیلی سنجیدگی دیکھ کر نو دو گیارہ ہو گیا۔ اب ہمیں لندن کا حدود اربعہ پتا چل گیا ہے تو ہم آپ کو بھی اس شہر کے بارے میں وہ سب کچھ بتانا چاہیں گے جو ہم نے بڑی جستجو کے بعد جانا ہے۔

لندن کی وجہ تسمیہ معلوم نہیں ہو سکتی لیکن ہم قسمیہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ شہر کسی ”لڈن میاں“ نامی مسلمان نے بسایا ہوگا، جس میں انگریزوں نے ”ن“ لگا کر اسے ”لنڈن“ کر لیا۔ اب آپ کو لندن اور ”ن“ کا رشتہ سمجھ میں آ گیا ہوگا۔ مسلمان اس طرح کی حرکتیں کرتے رہے ہیں، کہتے ہیں امریکا کولمبس نے نہیں بلکہ اس سے بہت پہلے مسلمانوں نے دریافت کیا تھا، ہمیں اس بات پر مکمل یقین ہے، خود امریکیوں کو بھی اس میں ذرا شک نہیں، یہی وجہ ہے کہ اظہارتشکر کے طور پر امریکا مسلم ممالک میں جمہوریت دریافت کرنے کے لیے کوشاں رہتا ہے، اپنے مخالفین کو مسلم ملکوں میں آ کر دریافت کرتا ہے اور ان ممالک میں اپنے آلۂ کار بہ آسانی دریافت کرلیتا ہے۔ لندن میں برطانیہ کا شاہی خاندان رہتا ہے، ہمارے شاہی خاندان بھی اکثر وہیں رہتے ہیں، خاص کر جب شاہی نہ رہے۔ برصغیر کے لوگ کوئی ایک صدی تک لندن کے محکوم رہے، کراچی کی یہ محکومی تو ابھی چند سال پہلے ہی ختم ہوئی ہے۔

ہمارے ہاں سے تین طرح کے لوگ لندن جاتے ہیں نوجوان بے زار ہو کر، دانش ور بے کار ہو کر اور سیاست داں بیمار ہو کر۔ میر تو خیر سادہ تھے اس لیے جس کے سبب بیمار ہوئے اسی عطار کے ”برخوردار“ سے دوا لیتے تھے، لیکن سیاست داں یہ غلطی نہیں کرتے، وہ جس کے سبب بیمار ہوئے اس سے بڑی مشکل سے علاج کی اجازت اور پھر ”اغیار کے لنڈن سے دوا لیتے ہیں۔“ ویسے طبیبوں کا کہنا ہے کہ بعض اوقات دوا لینے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی لندن کی فلائٹ لیتے ہی مرض سے نجات مل جاتی ہے۔ دراصل اس شہر کی آب و ہوا ایسی ہے کہ مرض میں فوری افاقہ ہوتا ہے، مگر یہ آب اور ہوا اسی مریض کے لیے فائدہ مند ہیں جس کی ہوا خراب ہو چکی یا اکھڑ چکی ہو اور امیدوں پر پانی پھر چکا ہو۔

انگریزوں نے ہماری سرزمین پر ریل کی پٹری بچھائی، عمارتیں بنائیں، پل بنائے، ادارے بنائے، پاکستانی سیاست داں احسان کا بدلہ احسان سے دینے کی نیت سے لندن میں جائیداد بناتے ہیں۔ یہ جائیدادیں پوشیدہ امراض کی طرح چھپائی جاتی ہیں مگر زکام اور کتا کھانسی کی طرح سامنے آہی جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی لندن میں بیوی، بگڑی اور بڑی بڑی باتیں بھی بناتے ہیں۔

اگرچہ لندن میں ہائیڈ پارک ہے جہاں جاکر بہ آواز بلند دل کی ہر بات کی جا سکتی ہے، لیکن پاکستانی راہ نما وہاں نہیں جاتے بلکہ دل ہلکا کرنے کے لیے پاکستان کال ملاتے ہیں۔ یہ دل ہلکا کرنا بعض اوقات پاکستان میں مقیم ان کے طرف داروں کو بھاری پڑ جاتا ہے۔

تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ لندن سے پاکستان حاصل کرنا آسان تھا پاکستانی حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ ہم لندن والوں سے کہہ کہہ کر تنگ آ جاتے ہیں ”میرا کچھ سامان تمھارے پاس پڑا ہے۔ وہ بھجوادو۔ میرا وہ سامان لوٹا دو“ ان کا جواب ہوتا ہے یہ سامان ہم تھوڑی لاد کر لائے ہیں خود ہی آیا ہے، پھر ہم کیوں دیویں، ہم تو نہ دیویں گے، پہلے ہی کہہ دیا تھا۔ نہ دیں گے ہم گر ”یہاں“ پڑا پایا۔

لندن بڑا عجیب شہر ہے، وہاں پہنچ کر کسی کی تقدیر بدل جاتی ہے کسی کی تقریر۔ بشرطیکہ یہ بدلاؤ تقدیر کا لکھا ہو اور تقریر لکھی ہوئی نہ ہو۔ ان لندنی تقریروں سے پتا چلتا ہے کہ نظم کی طرح تقریر بھی پابند اور آزاد ہوتی ہے۔ نثری نظم کی طرح بعض عصری تقریریں ہر پابندی سے یوں آزاد ہوجاتی ہیں کہ سننے والوں کے لیے ان سے قافیہ ملانا مشکل ہوجاتا ہے اور جو قافیہ ملائے اس کا قافیہ تنگ کر دیا جاتا ہے۔

لندن کے مومی عجائب گھر میں تو دنیا بھر کی اہم شخصیات کے مجسمے نصب ہیں لیکن ہمیں لگتا ہے پورا لندن ہی پاکستانیوں کا قومی عجائب گھر ہے، اور ہمارے ہمارے زندہ عجوبے اس وسیع وعریض شوکیس میں متحرک حالت میں موجود ہیں۔ کوئی مستقل وہیں سجا ہے، کوئی آتا جاتا رہتا ہے اور کچھ کی ”یادگاریں“ وہاں پائی جاتی ہیں۔

لندن سے پاکستان کے اتنے گہرے تعلق کے باوجود آپ کو یقین آجانا چاہیے کہ لندن پاکستان میں نہیں برطانیہ میں ہے، پھر بھی ہمارے بھروسے پر نہ رہیں، خود تصدیق کریں اور ہمیں بھی اپنی تحقیق کے نتائج سے مطلع فرمائیں، کیوں کہ ہمیں یقین نہیں آ رہا کہ لندن پاکستان میں نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).