الفت کی ایک مثل تاریخ کے باب سے


نور الدین زنگی ایک عابد شب بیدار تھا۔ وہ ایک عظیم الشان سلطنت کا فرمارواں ہونے کے ساتھ ایک درویش صفت انسان تھا۔ جس کی راتیں رب کے حضور سجدہ ریزی میں اور دن جہاد میں گزرتا تھا۔ وہ عظمت و کردار کا پیکر تھا، جس نے اپنی نوک شمشیر سے اسلام کا سنہری باب لکھا۔ اس کا روز کا معمول نوافل پڑھ کے محبوب رب العالمین کو درودشریف کا تحفہ بھیجنا اور بستر پہ لیٹ جانا۔ اور چند ساعتوں کے بعد تہجد کے لیے بیدار ہو جانا اور صبح تک عبادت میں مشغول رہنا۔

ایک شب ایسے معمول کے مطابق عبادات سے فارغ ہونے کے بعد آنکھ لگی ہی تھی کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت ہوئی۔ بعض روایتوں میں سلطان نے متواتر تین رات حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خواب میں دیکھا۔ ہر مرتبہ دو آ دمیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا نور الدین یہ مجھے ستا رہے ہیں ان کے شر کا استصال کرو۔ نور الدین یہ خواب دیکھ کر سخت مضطرب ہوا استغفار پڑھا۔ اور سوچا خدا اس دن کے لیے نورالدین کو زندہ نہ رکھے کہ ان کو محبوب رب العزت نے یاد فرمایا اور وہ دمشق میں آ رام سے بیٹھا رہے۔

سلطان نور الدین بے چین ہو گیا، کہ ضرور مدینہ منورہ میں کوئی ایسا واقعہ ہوا ہے، جس سے سرور کونین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روح کو تکلیف پہنچی ہے۔ اس نے فوراً مدینہ منورہ کی طرف سفر کا حکم دیا، اور دمشق سے نکل پڑا۔ دمشق سے مدینہ پہنچے میں عام طور پر بیس سے پچیس دن لگتے تھے۔ مگر سلطان نے یہ سفر سولہ دن میں کر لیا۔ اہل مدینہ سلطان کی اچانک آ مد سے حیران ہوئے مگر پھر بھی خوش دلی سے ان کا استقبال کیا۔

نور الدین نے حکم دیا کے شہر کے آ نے جانے والے سب دروازوں کو بند کر دیا جائے۔ پھر منادی کرادی تمام اہل مدینہ آج سلطان کے ساتھ کھانا کھائیں۔ سب نے سلطان کی دعوت کو قبول کیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اس طرح سے تمام اہل مدینہ نظر سے گزر جائیں۔ سلطان نے سب کو بڑے غور سے دیکھا مگر وہ دو چہرے نہیں تھے جو خواب میں دیکھے تھے۔ سلطان نے اکابرین شہر سے پوچھا کوئی ایسا شخص تو نہیں رہ گیا جو کسی وجہ سے دعوت میں شریک نہ ہو سکا ہو، انھوں نے عرض کی اہل مدینہ سے تو کوئی ایسا شخص نہیں رہا جو دعوت میں شریک نہ ہوا ہو۔

البتہ دو خدارسید مغربی زائر جو عرصے سے یہاں مقیم ہیں، نہیں آئے۔ یہ دونوں بزرگ ہر وقت عبادت میں مشغول رہتے ہیں اور جو وقت بچتا ہے تو وہ جنت البقیع میں لوگوں کو پانی پلاتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کسی سے ملتے ملاتے نہیں ہیں۔ سلطان نے حکم دیا ان دونوں کو بھی یہاں ضرور لاؤ۔ جب ان کو سامنے لایا گیا تو نورالدین نے ان کو فوراً پہچان لیا وہ دونوں وہی خواب والے چہرے تھے۔ ان دونوں کو دیکھ کر سلطان کا خون خول اٹھا مگر تحقیق بھی ضروری تھی۔ کیونکہ ان کا لباس زاہدانہ اور شکل مومنوں کی سی تھی۔

سلطان نے پوچھا تم لوگ کدھر رہتے ہو؟ انھوں نے بتایا ہم نے روضہ اقدس کے قریب ایک مکان کرائے پہ لی رکھا ہے۔ اور اس میں ہی ہر وقت عبادت میں مشغول رہتے ہیں۔ سلطان نے انہیں اپنے بندوں کی نگرانی میں چھوڑا۔ اور خود اکابرین شہر کے ساتھ ان کے مکان کی طرف رخ کیا۔ ایک چھوٹا سا مکان تھا اور سامان بہت مختصر تھا۔ جو ان کی زاہدانہ زندگی کی کو بیان کر رہا تھا۔ اہل شہر ان کی تعریف میں رطب اللسان تھے، اور بظاہر کچھ قابل اعتراض چیز نظر نہیں آئی مگر سلطان کا دل مطمئن نہیں تھا۔

اس نے مکان کا فرش ٹھونک بجا کر دیکھنا شروع کیا۔ تو ایک جگہ سے چٹائی کے نیچے سے فرش ہلتا ہوا محسوس ہوا۔ چٹائی کو ہٹا کر دیکھا تو ایک چوڑی سل تھی، اسے سرکایا گیا تو ایک خوفناک انکشاف ہوا۔ یہ ایک سرنگ تھی جو روضہ اقدس تک جا رہی تھی۔ سلطان کو سارا معاملہ سمجھ آ گیا اور منہ سے صدق اللہ وصدق رسولہ النبی کریم نکلا۔ سادہ مزاج اہل مدینہ بھی ان بھیڑ نما بھیڑوں کی اس حرکت سے ششدر رہ گئے۔ سلطان قہروجلال کی مجسم تصویر بن گیا۔

ان دونوں ملعونوں کو پایہ زنجیر کر کے اپنے سامنے لانے کا حکم دیا، جب وہ سلطان کے سامنے پیش ہوئے، تو اس نے ان سے نہایت غضب ناک لہجے میں پوچھا۔ سچ سچ بتاؤ تم لوگ کون ہو؟ اس ناپاک حرکت سے تمہارا کیا مقصد ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا اے بادشاہ ہم نصرانی ہیں (بعض روایتوں میں وہ یہودی تھے ) اور تمہارے پیغمبر کا جسد مبارک چرانے پر معمور ہوئے ہیں۔ ہمارے لیے اس سے بڑھ کر اور کارثواب نہیں ہے۔ لیکن افسوس جب ہم اپنے مقصد کے قریب تھے تو آپ نے ہمیں گرفتار کر لیا ہے۔

سلطان کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا۔ اس نے تلوار کھینچ کر دونوں بد بختوں کی گردنیں اڑا دیں، اور ان کی لاشیں بھڑکتی آگ کے الاؤ میں ڈال دیں۔ یہ کام انجام دینے کے بعد سلطان پہ رقت طاری ہو گئی۔ اور یہ شدت گریہ سے اس کی گھگی بند گئی، اور وہ مدینہ منورہ کی گلیوں میں روتا ہوا گھومتا تھا اور کہتا تھا، زہے نصیب اس خدمت کے لیے آقا صلیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غلام کا انتخاب فرمایا۔ جب ذرا قرار آ یا تو سلطان نے حکم دیا روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گرد خندق کھودی جائے اور اسے پگھلے ہوئے سیسے سے پاٹ دیا جائے۔

سلطان کے حکم کی تعکمیل میں گہری خندق کھودی گئی اور اس میں سیسہ بھر دیا گیا تاکہ زمانے کی دستبرد سے محفوظ رہے۔ یہ سیسہ کی دیوار آ ج بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روضہ مبارک کے گرد موجود ہے اور ابد تک قائم رہے گی۔ آ ج بھی اہل اسلام نور الدین زنگی کو نہایت محبت و عقیدت سے یاد کرتے ہیں اور ان کا احترام کرتے ہیں۔ اور ان کا شمار ان نفوس قدسی میں کرتے ہیں جن پر اعتماد کا اظہار سید البشر نے خود فرمایا۔ اور ان کے محب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہونے کی تصدیق فرمائی۔

یہ منصب بلند ملا جس کو ملا۔

مجھ ناچیز کے الفاظ اس قابل تو نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی الفت کو بیان کر سکوں۔ مگر فرانس میں ہونے والے حالیہ گستاخانہ خاکوں کے مقابلوں کے اعلانات کے بعد میرے الفاظ میرے اندر چلانے لگے کہ ان کو سپرد قلم کیا جائے۔ نور الدین زنگی کے حالات زندگی سے متعلق کتاب زیر مطالعہ تھی، تو لگا اس کو ادھر بیان کرنا ضروری ہے۔ وہ بہترین حکمران اور عاشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تھے۔ اور ایک ہمارے حکمران ہیں جن کی اقتدار کی جنگ اور آ پس کی دشمنی اور پیسے کی ہوس نے کہیں کا نہیں رہنے دیا۔

دیکھا جائے تو توہین رسالت کا یہ سلسلہ نیا نہیں ہے۔ ہر دور میں کچھ بدفعال سامنے آ تے رہے ہیں۔ اور مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتے رہے ہیں۔ اور پھر اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں۔ اور ہمارے ہاں کچھ دن سوشل میڈیا پر ہم خود کو سچا مسلمان ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں مگر اس کے حل کی کوئی حکمت عملی نہیں اپناتے ہیں۔ دوسروں کی طرف دیکھتے ہیں وہ کچھ کریں ہم کیا کر سکتے ہیں؟

اس طرح کے شیطانی عمل کا حل رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اسوہ حسنہ کو پڑھنا اور ان کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے زندگی بسر کرنا اور اسلامی تاریخ کو پڑھنا جس سے ذہن کی بنجر زمین کی آ بیاری ہو۔ اور شدت پسندی کے بجائے اسلام کی خوبصورتی کے مطابق زندگی بسر ہو۔ فرانس کا بائیکاٹ کرنے کے علاوہ اپنے لوگوں میں بھی شعور بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے جس دن ہم نے مذہب کو استعمال کرنے کے بجائے اس پہ عمل کرنا شروع کر دیا اس دن مذہب پہ انگلیاں اٹھنا خودبخود بند ہو جائیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).