کورونا وائرس: کیا انڈین شہری کووڈ 19 کے خلاف زیادہ قوت مدافعت رکھتے ہیں؟


انڈیا
لاکھوں انڈین شہریوں کی صاف پانی تک رسائی محدود ہے، وہ صحت کے لیے مضر کھانا کھاتے ہیں، گندی ہوا میں سانس لیتے ہیں اور گنجان ماحول میں رہتے ہیں۔

محققین نے دریافت کیا ہے کہ اس کی وجہ سے وہ دل اور سانس کے عارضوں، کینسر اور ذیابیطس سمیت متعدد بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق اس وجہ سے ملک میں بیماری کے بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے۔ صرف آلودگی کی وجہ سے ہی انڈیا میں ہر برس دس لاکھ سے زیادہ لوگ دم توڑ جاتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ صاف پانی، صفائی اور حفظانِ صحت کے حالات کووڈ 19 سے بچنے کے لیے اہم ہیں۔

عالمی ادارہ صحت اور اقوام متحدہ کے ایک مشترکہ مطالعے کے مطابق دنیا میں تقریباً تین ارب لوگ، جو کہ دنیا کی آبادی کا 40 فیصد بنتے ہیں اور زیادہ تر ترقی پذیر ممالک میں رہ رہے ہیں، ’ہاتھ دھونے کی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔‘

بی بی سی بینر

کورونا وائرس اس قدر مہلک کیوں ہے؟

کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟

کووڈ-19 سے جڑی اصطلاحات کے معنی کیا ہیں؟

کورونا وائرس کی ویکسین کب تک بن جائے گی؟

دنیا میں کورونا کہاں کہاں: جانیے نقشوں اور چارٹس کی مدد سے


یہ ان خدشات پر روشنی ڈالنے کے لیے کافی تھا کہ کورونا وائرس انڈیا جیسے ایسے ممالک کو بڑی حد تک متاثر کرے گا اور ان میں لاکھوں اموات کا سبب بنے گا۔

کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ کے ڈاکٹر شیکر منڈے کہتے ہیں ’عام طور پر ان ممالک میں صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات، حفظان صحت اور صفائی ستھرائی تک رسائی کا نظام برا ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہاں عام طور پر بیماریوں کے زیادہ ہونے میں یہ عوامل اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ غیر متوقع نہیں تھا کہ کووڈ 19 کے کم اور درمیانی آمدن والے ممالک میں تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔‘

انڈیا آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے اور دنیا بھر میں کورونا وائرس کیسز کی تعداد میں بھی اس کا نمبر چھٹا ہے۔ تاہم یہاں کورونا وائرس سے ہونے والی اموات دنیا بھر میں ہوئی اموات کا صرف 10 فیصد ہے اور یہاں کووڈ 19 سے ہونے والی اموات کی شرح دو فیصد سے بھی کم ہے جو دنیا بھر میں کم ترین ہے۔

لیکن اب انڈین سائنسدانوں کی ایک نئی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ حفظان صحت کے برے حالات، پینے کے صاف پانی کی کمی اور صفائی کے نامناسب انتظام نے دراصل کووڈ 19 سے بہت سی زندگیوں کو بچایا ہے۔

دوسرے لفظوں میں انھوں نے یہ خیال پیش کیا ہے کہ کم اور متوسط آمدن والے ممالک میں رہنے والے افراد کو بچپن ہی سے مرض پھیلانے والے جراثیم کا سامنا ہوتا ہے، جو انھیں کووڈ 19 کے خلاف قوت مدافعت دیتا ہے۔

انڈیا

ان دونوں مطالعوں کا ابھی آزادانہ جائزہ لیا جانا باقی ہے، اور ان میں اموات کی شرح کا موازنہ کرنے کے لیے فی دس لاکھ آبادی میں ہونے والی اموات کو دیکھا گیا ہے۔

ایک مقالے میں 106 ممالک کے عوامی سطح پر دستیاب اعداد و شمار کا دو درجن معیارات جیسے کہ آبادی، بیماریوں کا پھیلاؤ، اور صفائی ستھرائی کے معیار پر موازنہ کیا گیا ہے۔ سائنسدانوں کو پتا چلا ہے کہ زیادہ آمدن والے ممالک میں زیادہ لوگ کورونا وائرس سے ہلاک ہوئے ہیں۔

اس مطالعے کے مصنفین میں سے ایک ڈاکٹر منڈے نے مجھے بتایا: ’ایسا لگتا ہے کہ زیادہ غریب اور کم آمدن والے ممالک میں لوگوں کو زیادہ آمدن والے ممالک کے مقابلے میں اس بیماری سے زیادہ مدافعتی ردعمل ملا ہے۔‘

ایک دوسرے مطالعے میں کووڈ 19 انفیکشن میں اُن کھربوں جرثوموں (مائیکروبیئم) کے کردار کو دیکھا گیا ہے جو انسانی جسم کے اندر رہتے ہیں۔ مائیکروبیئم میں بیکٹیریا، وائرس اور فنگس شامل ہیں۔ یہ انہضام میں مدد دیتے ہیں، بیماری پیدا کرنے والے بیکٹیریا سے بچاتے ہیں، مدافعتی نظام کو منظم کرتے ہیں اور وٹامن تیار کرتے ہیں۔

ڈاکٹر راجیندرا پرساد گورنمنٹ میڈیکل کالج کے پروین کمار اور بال چندر نے زیادہ آمدن والے 80 ممالک سمیت 122 ملکوں کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان ممالک میں کووڈ 19 سے ہونے والی اموات کی تعداد کم ہے جن کی زیادہ تر آبادی کو مخلتف قسم کے جرثوموں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہ بیکٹیریا عام طور پر شدید نمونیا، خون اور پیشاب کی نالی اور جلد کے انفیکشن کی وجہ بنتے ہیں لیکن یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایک وائرس مخالف پروٹین (اینٹی وائرل سائٹوکائن) تیار کرتے ہیں جو انھیں مرض پھیلانے والے جراثیم سے لڑنے میں مدد کرتے ہیں اور خلیوں کو کورونا وائرس سے محفوظ رکھتا ہے۔

انڈیا

ڈاکٹر چندر نے بتایا: ’ابھی تک کووڈ 19 سے متعلق پیش گوئی کرنے والے موجودہ ماڈلز مائیکروبیئم یا ماحول میں موجود جراثیم کو آبادی کی مدافعتی حیثیت کے تناظر میں نہیں دیکھتے۔‘

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ سب ’حفظان صحت کے فرضی تصور‘ کی نشاندہی کرتا ہے۔

مدافعتی نظام پر لکھی جانے والی کتاب ’این ایلیگینٹ ڈیفینس: دی ایکسٹرا آرڈنری نیو سائنس آف ایمیون سسٹم‘ کے مصنف میٹ رچٹیل کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا ماحول اتنا صاف ہو چکا ہے کہ اس نے ہمارے مدافعتی نظام کی تربیت چھوڑ دی ہے۔

وہ کہتے ہیں ’وسیع خیال یہ ہے کہ ہم صفائی پر زیادہ توجہ دے کر اپنے مدافعتی نظام کو کمزور کر رہے ہیں۔‘

بذات خود یہ کوئی نیا خیال نہیں۔

ورلڈ الرجی آرگنائزیشن کے ایک مقالے میں، جس میں میٹ رچٹیل کا حوالہ دیا گیا، کہا گیا کہ ’الرجی اور قوتِ مدافعت کو جسم کے خلاف کر دینے والے امراض میں اضافہ ہوتا ہے جب لوگ غریب سے امیر ممالک میں منتقل ہوتے ہیں۔‘

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ڈیوس میں ماہرِ مدافعتی نظام سمیتا ائیر کہتی ہیں کہ کووڈ 19 کے معاملے میں ’صفائی کا مفروضہ’ وائرس کے خلاف ہمارے مدافعتی نظام کے بارے میں ہماری فہم کو ضرور چیلنج کرتا ہے۔

مگر ڈاکٹر ائیر مجھے بتاتی ہیں کہ یہ دیکھتے ہوئے کہ ہمارا مدافعتی نظام کئی دشمنوں سے یکے بعد دیگرے یا ایک ساتھ بھی لڑ سکتا ہے، ہم ایسا ماڈل تیار کر سکتے ہیں جس میں پہلے حملہ کر چکے کسی مرض کے ردِ عمل میں بننے والی مدافعت کسی دوسرے مرض کے خلاف کام آ سکے۔‘

سائسدانوں کا کہنا ہے کہ چونکہ باہمی تعلق کا مطلب یہ نہیں کہ ایک کا انحصار دوسرے پر ہے، لہٰذا اس طرح کے مطالعے کا سختی سے جائزہ لینا چاہیے۔

ڈاکٹر منڈے کا کہنا ہے کہ اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہیے کہ مستقبل کے وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے حفظان صحت کے کمزور طریقوں پر عمل پیرا ہونا فائدہ مند ہو سکتا ہے۔

میڈیکل یونیورسٹی آف ساؤتھ کیرولائنا میں اسسٹنٹ پروفیسر کروتیکا کوپالی کہتی ہیں کہ نئی تحقیق مختلف طرح کے مفروضات کو مدنظر رکھتی ہے جو سائنسی اعتبار سے ثابت نہیں ہوئے ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’وہ سائنسی حقائق سے زیادہ مفروضے ہیں۔‘

اس کے علاوہ وبائی امراض کے ماہرین نے انڈیا جیسے ممالک میں اموات کی کم شرح کو نوجوان آبادی سے منسوب کیا ہے کیونکہ عموماً بوڑھوں کو زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ یہ واضح نہیں کہ کیا دوسرے عوامل جیسے کہ گذشتہ انفیکشن سے حاصل کی گئی قوت مدافعت بھی ذمہ دار ہیں یا نہیں۔

واضح طور پر کم شرح اموات کے پیچھے ممکنہ طور پر کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پروفیسر کوپالی کے مطابق ’وائرس کے بارے میں ابھی بہت کچھ جاننا باقی ہے اور ہمیں اس وبا کا صرف دس ماہ سے سامنا ہے۔‘

حقیقت ہے کہ ایسا بہت کچھ ہے جو ابھی تک ہم نہیں جانتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp