اندھی تقلید ذہانت کا دروازہ بند کر دیتی ہے


\"tamina-mirza\"قدرتی ارتقا کے ساتھ ساتھ انسان کی فطرت بھی ارتقائی مراحل سے گزر کر مزید بہتری کی طرف گامزن ہے۔ آج کا انسان اپنے جد امجد سے کئی گنا آسان اور بہتر انداز میں اپنی سماجی زندگی گزار رہا ہے۔ اور ہر آنے والا دن اپنے ممکنات میں اضافہ کئے جا رہا ہے۔ انسان کو سوچنے سمجھنے، سیکھنے، جانچنے، متاثر ہونے اور اپنے لیئے آسائشیں تخلیق کرنے کے علاوہ قدرت سے بے شمار قابلیتیں ملی ہیں جو اس کو باقی تمام مخلوقات میں ممتاز کرتی ہے۔ ان تمام قابلیتوں کا چیدہ چیدہ ذکر کرنے کی بجائے ہم یہاں فقط انسان کے متاثر ہونے کی قابلیت کے کچھ مثبت اور منفی پہلوؤں کا جائزہ لیں گے۔ جب کوئی بھی انوکھی چیز، بات، واقعہ، سانحہ، ایجاد، اور علم رونما ہوتی ہے تو وہ انسان کے حواس خمسہ کو ایک نئی جلا بخشنے اور سوچ کا زوایہ تبدیل کر دینے میں اپنا ایک خاص مقام اور انسان کو متاثر کرنے کی حس پر اثر انداز ہونے کی قابلیت رکھتے ہیں۔ لوگوں کے جذبات کی عکاسی کرتا چاہے وہ کوئی سیاسی نعرہ ہو یا شخصیت، چاہے وہ کوئی نیا فتویٰ ہو، کوئی ایجاد ہو، یا کوئی سیاسی، سماجی، معاشی نظام، اور واقعی ایسی تعمیر و ترقی انسانی زندگی کو بہتر اور سہل بنانے میں اپنا ایک مثبت کردار ادا کرتی ہے۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی ضروریات زندگی و اردگرد کے ماحول میں مختلف تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔ جو ارتقا کا ایک نمایاں خاصہ ہے۔

مگر بعض اوقات انسان اپنے شعائر زندگی سے اس حد تک وابستہ ہو جاتا ہے کہ وہ ان ارتقائی تبدیلیوں سے مزید متاثر ہونا چھوڑ کر قدامت پسندی کو فوقیت دیتا ہے اور انہی رسوم و رواج و نظام و طرز زندگی و عقل و فہم کو اپنائے رہتا ہے۔ اسے اپنے طرز زندگی اور اس سے جڑی سوچ سے اس حد تک لگاؤ ہوتا ہے کہ وہ اس سے جڑی حقیقتوں کے بھیانک رخ کو پس پشت ڈال کر ان کو قائم رکھنے کے مختلف جواز تلاش کرتا ہے۔ اور پھر ان جوازوں کو کبھی خاندانی و معاشرتی مجبوریوں کا نام دیتا ہے اور کبھی عقیدت، اور کبھی نظریات۔ یہ سب دراصل انسان کی ایک خود فریبی ہے جو اسے اپنی نام نہاد اقدار سے جڑا رہنے کا جواز فراہم کرتی ہے اور یہیں سے شعوری ارتقاء اور تعمیر و ترقی کا باب بند ہو جاتا ہے اور انسان کی زندگی میں قدامت پرستی کا عنصر غالب آجاتا ہے جو آگے جا کر بے شمار مسائل اور بگاڑ کا موجب بنتا ہے۔

اس عقیدت سے ان نظریات، خیالات اور شعائر زندگی کی ایک اندھی تقلید کا وہ سلسلہ شروع ہوتا ہے جو نسلوں در نسلوں چلتا رہتا ہے۔ اندھی تقلید ہمیشہ گمراہ کن ہوتی ہے چاہے وہ کسی ملا، پنڈت پادری کی ہو، چاہے کسی سیاسی لیڈر یا ڈکٹیٹر کی، کسی دانشور کی یا معاشی یا معاشرتی نظام کی۔ رہنما سازی میں \”عقیدت\” کے لفظ کو انتہائی گمراہ کن نوعیت تک استعمال کیا گیا ہے جو سراسر شعوری ارتقا اور عقل و دانش کی ترقی میں حائل ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

ہم آج کل اس اندھی تقلید میں اس حد تک گھرے ہوئے ہیں کہ ہم نے تحقیق و تدبر سمیت شعوری ارتقا کے تمام دروازے بند کر لئے ہیں۔ چاہے کوئی مخصوص سیاسی نظام ہو، کوئی شخصیت ہو، کوئی معاشرتی نظام ہو، کوئی معاشی نظام ہو، ہم مسلسل اندھی تقلید کا شکار ہو کر شدت پسندی کی طرف جا رہے ہیں۔ ہمارے نظریات مقدس گائے کا وہ روپ اختیار کر چکے ہیں جنہیں ہم انسانی زندگی سے زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔

اور یہیں سے قدامت پرستی اور شدت پسندی کے وہ بیج ایک تناور درخت کا روپ دھار لیتے ہیں جو معاشرے میں نفرتوں، خون خرابے اور دیگر بگاڑ کو جنم لیتے ہیں۔ یہیں سے دلوں کو دماغوں پر وہ مہر ثبت ہو جاتی ہے جو کسی بھی قسم کے شعور کو اجاگر کرنے والے کو ایک مجرم گردانتی ہے اور یہیں سے تحقیق، تنقید، ترویج، ترقی اور اصلاح کے پہلو ماند پڑ جاتے ہیں اور ایک ایسی فضا قائم ہوتی ہے جو بنی نوع انسان کی تقسیم کا سبب بنتی ہے۔ اندھی تقلید سے جڑی ہم جتنی بھی کرامات کا ذکر کریں ہمیں خیر کا در ہمشہ مقفل ہی نظر آتا ہے۔

یہ تحریر آپ کی نظروں سے گزارنے کا بنیادی مقصد صرف اتنا ہے کہ عہد رفتہ کے کسی بھی نظریے، سیاسی، سماجی یا علمی شخصیت، سیاسی، معاشرتی، معاشی نظام سے جڑی عقیدت کو عہد دوراں کے عقل و دانش کے پیمانوں کے مطابق قبول کریں اور اندھی تقلید اور اس سے جڑی قدامت پرستی اور شدت پسندی کی ممکن حد تک حوصلہ شکنی کریں تاکہ شعوری ارتقاء ترقی کی منازل طے کرتا ہوا انسان کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لائے اور اسے سہل سے سہل ترین بنانے میں اپنا کردار ادا کرئے اور ہمہ وقت معاشرے کے ناسوروں کا خاتمہ بھی ممکن ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments