امریکی صدارتی انتخاب 2020 کے نتائج: کیا انتخاب کی رات فاتح کا تعین ہو جائے گا؟


امریکی صدارتی انتخاب، امریکی الیکشن، جو بائیڈن، ڈونلڈ ٹرمپ، امریکہ
ریاست ڈیلاویئر میں بچے ایک انتخابی جلوس میں شریک ہیں
یہ امریکی صدارتی انتخاب کی رات ہے۔ آپ 10 گھنٹے سے بھی زیادہ وقت سے ٹی وی سکرین سے چپکے ہوئے ہیں جبکہ مسلسل سوشل میڈیا فیڈ ریفریش کیے جا رہے ہیں مگر ایسی صورتحال میں جب نہ ہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نہ ہی سابق نائب صدر جو بائیڈن اپنی شکست تسلیم کر رہے ہوں، تو امریکہ کا بدترین خواب سچ ہوتا نظر آتا ہے، یعنی ایک متنازع انتخاب۔

پھر ووٹوں کی دوبارہ گنتی شروع ہوتی ہے، مسترد کیے گئے ووٹوں کے خلاف قانونی دعوے دائر کیے جاتے ہیں، اور ملک بھر میں عوامی بے چینی جنم لینے لگتی ہے۔ اور جلد ہی ایک قانونی اپیل امریکی سپریم کورٹ میں دائر کی جائے گی تاکہ صدر کا تعین کیا جا سکے۔

پر اس سب سے بچا جا سکتا ہے لیکن وہ تب کہ اگر امریکی انتخاب کی نتائج کا انتظار کرنے کے لیے تیار ہوں۔ مگر کتنا انتظار کریں، یہ نہایت اہم سوال ہے۔

یہ دیر کیوں ہوتی ہے؟

پوسٹل ووٹ کی وجہ سے۔

سنہ 2016 کے امریکی صدارتی انتخاب میں تین کروڑ 30 لاکھ امریکیوں نے ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالا۔ رواں سال کورونا وائرس کی وبا کے باعث آٹھ کروڑ 20 لاکھ افراد نے ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی درخواست کی ہے۔ جب انتخاب میں صرف ایک دن رہ گیا تھا، تب بھی کئی ریاستیں ابھی بھی دہائیوں پرانے قوانین تبدیل کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں کہ کوئی پوسٹل ووٹ کب کھولا اور گنا جا سکتا ہے۔

امریکی صدارتی انتخاب 2020: یہ بھی پڑھیے

بی بی سی اردو کا لائیو پیج: امریکی صدارتی انتخاب: فیصلے کا دن آن پہنچا

امریکی صدارتی انتخاب کے نتائج: کل تین ممکنہ شہ سرخیاں کیا ہو سکتی ہیں؟

امریکہ میں ووٹ ڈالنا اتنا مشکل کیوں ہو جاتا ہے؟

امریکہ میں عوام اپنا صدر کیسے چنتے ہیں؟

امریکی صدارتی انتخاب، امریکی الیکشن، جو بائیڈن، ڈونلڈ ٹرمپ، امریکہ

میری لینڈ میں دونوں جماعتوں کے ارکان پر مشتمل جوڑے ڈاک کے ذریعے موصول ہونے والے ووٹوں کی گنتی کر رہے ہیں۔ میری لینڈ میں ملک میں سب سے پہلے ڈاک ووٹوں کی گنتی شروع ہوتی ہے

مثال کے طور پر مشیگن جو کہ ایک اہم سوئنگ ریاست ہے، وہاں اندازاً 30 لاکھ افراد ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالیں گے۔ لیکن چونکہ وہاں انتخاب کے دن صبح سات بجے سے پہلے پوسٹل ووٹوں کی گنتی نہیں شروع کی جا سکتی، اس لیے مشیگن کو انتخابی نتائج کا اعلان کرنے میں کئی دن لگ سکتے ہیں، اور وہ بھی تب جب دوبارہ گنتی نہ ہو تو۔

اس وقت کورونا وائرس کی عالمی وبا اور انتخاب کے باعث ویسے ہی ڈاک کی ترسیل میں تاخیر ہو رہی ہے اور اس کے اوپر صدر ٹرمپ نے امریکی پوسٹل سروس کے لیے ہنگامی فنڈنگ یہ کہتے ہوئے روک دی ہے کہ ڈاک کے ذریعے ووٹنگ سے اُن کی مہم کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ماضی کے پولنگ اور بیلٹ ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈیموکریٹس کا رپبلیکنز کے مقابلے میں ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے جبکہ رپبلیکنز کے بارے میں زیادہ امکان ہوتا ہے کہ وہ ذاتی طور پر ووٹ ڈالنے جائیں گے۔

امریکی صدارتی انتخاب، امریکی الیکشن، جو بائیڈن، ڈونلڈ ٹرمپ، امریکہ

محکمہ ڈاک کے عملے کی ایک رکن اوریگون میں ووٹوں سے بھرے ہوئے ہزاروں بکسے اتار رہی ہیں

دوسرا مسئلہ قانونی جنگوں کا ہے

جب کوئی نتیجہ بہت قریب قریب ہو تو کئی لوگوں کو خدشہ ہوتا ہے کہ ریاستوں کو مسترد کیے گئے ووٹوں پر قانونی دعوؤں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کی وجہ سے نتائج میں مزید تاخیر ہوجاتی ہے۔

کسی ووٹ کے مسترد ہونے کی سب سے عام وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ ڈاک کے ذریعے اتنی دیر سے پہنچتے ہیں کہ گنے نہیں جا سکتے۔ دیگر وجوہات میں ناقابلِ شناخت دستخط یا دوسرا ’سیکریسی‘ لفافہ گم ہونا شامل ہیں۔

چونکہ رواں انتخاب میں گذشتہ انتخاب کے مقابلے میں کہیں زیادہ ووٹ ڈاک کے ذریعے ڈالے گئے ہیں، اس لیے تاخیر سے آنے والے اور ممکنہ طور پر مسترد ہونے والے ووٹوں کی تعداد کے بڑھنے کے امکانات ہیں۔

سنہ 2016 میں صدر ٹرمپ نے ریاست مشیگن 11 ہزار سے بھی کم ووٹوں سے جیتی تھی۔

اگر آپ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اگست میں جب مشیگن کے پرائمری انتخاب ہو رہے تھے (جب ووٹر انتخاب کے لیے اپنی پارٹی کے امیدواروں کو چُنتے ہیں) تب 10 ہزار سے زیادہ ووٹ اس لیے مسترد ہوئے تھے کیونکہ وہ اتنی دیر سے پہنچے تھے کہ گنے نہیں جا سکتے تھے۔

اگر انتخاب کی رات کو مقابلہ نہایت کڑا ہو تو کئی سوئنگ ریاستوں میں مسترد ہونے والے ووٹوں کی تعداد بھی تنازعے کا سبب بن سکتی ہے۔

کیا انتخاب کی رات کو نتیجہ آنا ممکن ہے؟

جی ہاں۔ ڈاک میں تاخیر کے باوجود حالیہ رائے شماری کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عددی اعتبار سے ممکن ہے کہ اسی رات میدان مار لیا جائے۔ مگر کسی بھی امیدوار کو اس کے لیے بھاری مارجن سے فتح درکار ہوگی۔

امریکی صدارتی انتخاب، امریکی الیکشن، جو بائیڈن، ڈونلڈ ٹرمپ، امریکہ

بائیڈن مشیگن میں سماجی دوری کے ضابطوں کے ساتھ ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے

وائٹ ہاؤس پہنچنے کے لیے جو بائیڈن یا ڈونلڈ ٹرمپ کو الیکٹورل کالج سے کم از کم 270 ووٹ حاصل کرنے ہوں گے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ صدر کو براہِ راست ووٹر نہیں چُنتے بلکہ ان کا انتخاب الیکٹورل کالج کے ذریعے ہوتا ہے۔

ہر ریاست کی آبادی کی بنا پر اُس کے الیکٹورل ووٹوں کی تعداد مختص کی جاتی ہے۔ چنانچہ اہم یہ ہے کہ کسی ریاست میں لوگ کیسے ووٹ ڈالتے ہیں اور کسے یہ الیکٹورل ووٹ جاتے ہیں۔

انتخاب کے دب سے ایک دن پہلے تک چھ کروڑ 95 لاکھ امریکیوں نے پہلے ہی یا تو ڈاک کے ذریعے یا ذاتی طور پر جا کر اپنے ووٹ ڈال دیے تھے۔ جلد ووٹنگ کی اتنی بڑی تعداد کا مطلب ہے کہ 2016 میں گنے گئے تمام ووٹوں کا نصف سے زائد پہلے ہی ڈالا جا چکا ہے۔

سنہ 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے مقامی وقت کے مطابق رات ڈھائی بجے اپنی فتح کا اعلان کیا جب ریاست وسکونسن نے انھیں جیت کے لیے درکار 270 کی لکیر عبور کروا دی۔ مگر اس بار ڈاک کے ذریعے ڈالے گئے ووٹوں کی بڑی تعداد کے باعث کئی بیٹل گراؤنڈ ریاستیں (وہ ریاستیں جہاں سخت مقابلہ ہوتا ہے اور کوئی بھی امیدوار جیت سکتا ہے) ممکنہ طور پر انتخاب کی رات کو نتیجے کا اعلان نہیں کر سکیں گی۔

مشیگن، پینسلوینیا اور وسکونسن تینوں ہی اہم سوئنگ ریاستیں ہیں جو انتخاب کے دن ہی پوسٹل ووٹوں کو کھولنا اور گننا شروع کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ اگر مقابلہ ٹکر کا ہو تو انھیں ممکنہ طور پر ووٹوں کی دوبارہ گنتی اور قانونی جنگوں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

مگر جہاں امید ہے وہاں فلوریڈا ہے

امریکی صدارتی انتخاب، امریکی الیکشن، جو بائیڈن، ڈونلڈ ٹرمپ، امریکہ

صدر ٹرمپ پینسلوینیا میں ایک بڑے مجمعے سے خطاب کر رہے ہیں

یہ میدانِ جنگ ریاستوں میں سب سے بڑی ہے اور یہاں 29 الیکٹورل ووٹ ہیں۔ یہ سوئنگ ریاست اس بات کا اشارہ ہوگی کہ آیا کوئی امیدوار انتخاب کی رات کو جیتنے کا امکان رکھتا ہے یا نہیں۔

فلوریڈا میں پوسٹل ووٹوں کا شمار اور ان کی جانچ پڑتال انتخاب سے 40 دن پہلے سے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ 24 لاکھ سے زیادہ پوسٹل ووٹ پہلے ہی گنے جا چکے ہیں اور اب بھی ان کے پاس لفافوں کا پہاڑ ہے جسے کھولنا اور گننا باقی ہے، مگر دیگر تمام سوئنگ ریاستوں کے مقابلے میں فلوریڈا کی جانب سے انتخاب کی رات کو فاتح کا اعلان کرنے کا امکان سب سے زیادہ ہوتا ہے۔

رائے شماری میں اس وقت بائیڈن آگے ہیں پر اگر وہ فلوریڈا میں ہار جاتے ہیں تو یہ اس بات کا اشارہ ہوگا کہ ان کے انتخاب کی رات کو جیتنے کا امکان اور بھی کم ہے۔ وہ پھر بھی شمالی کیرولائنا، ایریزونا، آئیووا اور اوہائیو کے ذریعے 270 الیکٹورل ووٹوں کی لکیر عبور کر سکتے ہیں مگر بائیڈن کے لیے انتخاب کی رات کو ہی جیتنے کے تمام آسان ترین طریقوں میں یہ ضروری ہے کہ وہ فلوریڈا سے جیتیں۔

امریکی صدارتی انتخاب، امریکی الیکشن، جو بائیڈن، ڈونلڈ ٹرمپ، امریکہ

ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن شمالی کیرولائنا میں پریس سے گفتگو کر رہے ہیں

صدر ٹرمپ ابھی رائے شماری میں پیچھے ہیں اور اگر وہ فلوریڈا سے جیت بھی جاتے ہیں تو پھر بھی ان کے لیے انتخاب کی رات کو فتح کا اعلان کرنا اس لیے مشکل ہوگا کیونکہ سوئنگ ریاستوں کی بڑی تعداد اُس رات نتائج کا اعلان نہیں کریں گی۔

لیکن اس کا الٹ بھی ہو سکتا ہے، اگر رائے شماری غلط ہو تو۔

جیسا کہ حالیہ تاریخ بشمول سنہ 2016 کے صدارتی انتخاب سے ثابت ہوا ہے، رائے شماری صحیح اندازہ لگانے میں ناکام ہوسکتی ہے۔

کیا امریکی ٹی وی نیٹ ورک اُسی رات اعلان کرنے کی کوشش کریں گے؟

انتخاب کی رات پر امریکی میڈیا کی طاقت تشویش ناک حد تک زیادہ ہوتی ہے۔ ماضی میں بڑے امریکی ٹی وی نیٹ ورکس نے تمام ووٹ گنے جانے سے پہلے ہی نتائج کا اعلان کیا ہے۔ ووٹروں سے اُن کا ووٹ معلوم کرنے والی ایگزٹ پول کمپنیوں کے ساتھ مل کر بڑے ٹی وی نیٹ ورک سب سے پہلے فاتح کا اعلان کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔

ایک مرتبہ جب میڈیا ’اعلان‘ کر دے تو ’ہارنے والے‘ امیدوار سے فوراً شکست تسلیم کرنے کی امیدیں باندھ لی جاتی ہیں، یہاں تک کہ لوگوں کے سونے سے قبل ہی، تاکہ فاتح امیدوار انہی ٹی وی نیٹ ورکس پر انتخاب کی رات خود کو فاتح قرار دے۔

یہ ڈرامائی خبریں یقینی بنانے کا اچھا طریقہ ہے مگر 2020 میں جب لاکھوں پوسٹل ووٹ پہلے ہی گنے جا چکے ہوں گے تو کافی چیزوں کا انحصار انتخاب کی رات کو امریکی میڈیا کے صبر اور اس کی باریک بینی پر بھی ہوگا۔

کئی لوگوں کو خدشہ ہے کہ اس سال بھی وہی افراتفری ہو سکتی ہے جو سنہ 2000 میں جارج بش اور ایل گور کے درمیان وائٹ ہاؤس تک پہنچنے کی دوڑ میں پیدا ہوئی تھی۔

اب سے 20 سال قبل انتخاب کی رات کئی جائزوں کے مطابق مقابلہ اتنا کانٹے کا تھا کہ فاتح کا اعلان نہیں کیا جا سکتا تھا، مگر پھر بھی کئی ٹی وی نیٹ ورکس نے فلوریڈا کی اہم سوئنگ ریاست میں ایل گور کو کامیاب دے دیا، مگر بعد میں اپنا مؤقف جارج بش کے حق میں تبدیل کر لیا۔

ایل گور نے تب شکست تسلیم کر لی تھی مگر جب یہ واضح ہوا کہ فلوریڈا میں مقابلہ اصل اندازوں سے بھی کہیں زیادہ کانٹے کا تھا تو ایل گور نے شکست تسلیم کرنے کا اعلان واپس لے لیا تھا۔ پھر 36 دن اور سپریم کورٹ میں ایک مقدمے کے بعد امریکیوں کو معلوم ہوا کہ ایل گور نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے مگر بش الیکٹورل کالج کا ووٹ حاصل کر کے صدارت کے منصب تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔

امریکی صدارتی انتخاب، امریکی الیکشن، جو بائیڈن، ڈونلڈ ٹرمپ، امریکہ

جارج بش سنہ 2000 میں فلوریڈا میں صدارتی انتخاب میں کامیابی کا جشن منا رہے ہیں

سنہ 2020 میں امریکہ پہلے ہی کورونا وائرس کی وبا کے باعث لڑکھڑا رہا ہے، بلیک لائیوز میٹر تحریک کے باعث تقسیم کا شکار ہے اور اب اس بات کا بہت حد تک امکان ہے کہ امریکیوں کو اگلے صدر کے لیے انتظار بھی کرنا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32551 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp