ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں


گزشتہ رات میڈیا پر خبر چلی کہ کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے عدالتی حکم کے بعد 13 سالہ مسیحی بچی کو بازیاب کر کے دارالامان میں بھیج دیا اور ملزم اظہر علی کو کم سن بچی کو ورغلا کر اغواء کرنے، جبری تبدیلی مذہب اور کم عمری کی زبردستی شادی کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس خبر سے پاکستان میں بسنے والے مسیحیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور عدالت کا وقار بھی بلند ہو گیا۔ اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس واقعے کے بعد جس طریقے پورے ملک میں نہ صرف مسیحیوں بلکہ سول سوسائٹی اور لبرل طبقے نے جو کردار ادا کیا اس کے بعد عدالتی فیصلے سے اعتماد کی فضا پیدا ہوئی ہے۔

غریب کا ہرجگہ استحصال ہوتا ہے لیکن اگر متاثرہ شخص کا تعلق کسی مذہبی اقلیتی برادری سے ہو تو معاملے کی حساسیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ پوری دنیا خصوصاً یورپی یونین کے ممالک اس وقت بنیادی انسانی حقوق پر توجہ دے رہے ہیں اور پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ دینے میں بنیادی انسانی حقوق، اقلیتوں کے ساتھ مساوی سلوک وغیر ہ پر تسلی بخش جواب دینا لازمی ہے۔ دنیا کو گلوبل ولیج ایسے ہی نہیں کہاجاتا، اقوام متحدہ، یورپی یونین اور دیگر بین الاقوامی ادارے اس بات پر توجہ دیتے ہیں کہ دنیا کے غریب اورترقی پذیر ممالک میں بھی انسانوں کے ساتھ کسی بھی وجہ سے امتیازی برتاؤ نہ ہو۔

لہذا یہ تنظیمیں ایسے ممالک پر نہ صرف ایسی شرائط لاگو کرتی ہیں بلکہ ان پر پورا اترنے کی صورت میں انہیں سہولیات بھی دیتی ہیں۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود مقامی افراد کا خواب غفلت سے جاگنا اشد ضروری ہے۔ ویسے تو غربت پاکستان کا بنیادی مسئلہ ہے اور اس کی وجہ دیگر مسائل جنم لے رہے ہیں اور بدقسمتی سے اس معاملے پر توجہ نہیں دی جاتی۔ پاکستان کا اقلیتی طبقہ غربت کو جبری تبدیلی مذہب کی ایک وجہ سمجھتا ہے۔ پاکستان کمیشن برائے اقلیتی حقوق اور سنٹر فار سوشل جسٹس کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2013۔

2019 کے دوران جبری تبدیلی مذہب کے 156 واقعات رونما ہوئے جن میں اکثریتی تعداد کم سن بچیوں کی تھی۔ پاکستان میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کا کہنا ہے کہ سندھ اور پنجاب میں جبری تبدیلی مذہب کے بہت سے ایسے واقعات ہوتے ہیں جو رپورٹ نہیں ہوتے اور لوگ خوف اور معاشرے میں بدنامی کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں۔ مذہب اگرچہ ہر شخص کا ذاتی مسئلہ ہے لیکن جبری تبدیلی مذہب کو روکنے کے لئے مذہبی اقلیتو ں کی جانب سے تقاضا کیا جاتا رہا ہے کہ اس سلسلے میں بالغ ہونا لازمی قرار دیا جائے البتہ اسلامی حلقے کی جانب سے تبدیلی مذہب اور شادی کی عمر پر اختلاف پایاجاتا ہے۔

گزشتہ عرصے کے دوران پاکستان میں قانون بنانے اور اس پر عمل درآمد پر کام جاری ہے۔ حالیہ واقعے کے دوران پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سوشل میڈیا پر جاری اپنے پیغام میں سندھ میں اس قانون پر عمل درآمد کرنے پر زور دیا۔ آرزو راجہ کے کیس کو سامنے رکھتے ہوئے مسیحی حلقوں کی جانب سے ردعمل کو بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ اگر پاکستان میں بسنے والے مسیحی اپنے حقوق کے لئے اگر متحد ہو کر کام کریں تو معاملات کی نوعیت فرق ہو سکتی ہے۔

اس سلسلے میں سول سوسائٹی اور مسلمانوں میں لبرل طبقے کی تائید پہلے سے حاصل ہے جس کی واضح مثال کراچی کے ایڈوکیٹ جبران ناصر ہے۔ اس کے علاوہ مسیحی مذہبی طبقہ نہ صرف معاشی طور پر مضبوط ہے بلکہ بین الاقوامی معاونت بھی حاصل کر سکتا ہے۔ مسیحی ادارے نہ صرف اچھے تعلیمی ادارے چلارہے ہیں بلکہ ٹیکنیکل ادارے بھی موجود ہیں۔ ضرورت اس امر کہ اگر مذہبی حلقے کے اندر بھی عوامی جذبات ہوں اور تمام غیر سرکاری تنظیمیں اور چرچ اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر مجموعی مسائل کے حل کے لئے متحد ہو کر لائحہ عمل اختیار کریں تو یقیناً نتائج فرق ہوں گے ۔

تعلیمی اداروں میں مسیحی طلباء کے لئے ہر سکول میں رعایتی کوٹہ مقرر کیا جائے تاکہ غریب مسیحیوں کے بچوں کے لئے بھی معیاری اور بہتر تعلیمی سہولیات حاصل ہوں۔ اس کے علاوہ بے روزگار اور کم تعلیم یافتہ نوجوانوں کو کاروبار کی جانب رجحان پیدا کیا جائے۔ اس کام کے لئے بین الاقوامی اداروں کی معاونت حاصل کرنا ممکن ہے اور غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندے اور سیاسی قیادت راہنمائی کر سکتی ہے بشرطیکہ وہ ذاتیات کے خول سے باہر نکل کر اجتماعی مسائل پر توجہ دیں۔

گاؤں، قصبے اور شہروں کی سطح پر چھوٹی چھوٹی تنظیم سازی کر کے قومی سطح کا منظم ادارہ تشکیل دیا جائے جو نچلی سطح پر پست اور متوسط طبقے کی معاونت اور راہنمائی کرے تاکہ غریب، ناداراور پسے ہوئے طبقے کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو اور آئندہ آنے والی نسلیں بیرونی ممالک میں پناہ لینے کی بجائے اپنے ملک میں رہنے کو ترجیح دیں۔ اس سلسلے میں حکومت کو چاہیے کہ وہ نہ صرف محروم طبقے کی پشت پنائی کریں اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام بدنام ہونے سے روکیں۔

بلکہ وسائل کی غیر مساویانہ تقسیم او ر مذہبی بنیاد پر ہونے والے امتیازی سلوک کو روکے۔ صوبائی، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں درست تعداد کے تناسب سے نشستوں میں اضافہ کیاجائے اور صوبائی اور وفاقی کابینہ کے فیصلے میں شریک بنایا جائے۔ ایسا کرنے سے نہ صرف ملک میں بسنے والی اقلیتوں کے اندر خود اعتمادی پید اہوگی بلکہ بین الاقوامی سطح پر ملک کا نام روشن ہوگا اور پھر ہم دھڑلے سے ہمسایہ ملک پر تنقید کرنے اور بین الاقوامی سطح پر اپنا بیانیہ بلند کرنے کے حق دار ہوں گے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).