امریکی صدارتی انتخاب 2020 کے نتائج: انتظار کے دوران کن باتوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے؟
امریکہ کے طول و عرض میں لوگ نومبر کی تین تاریخ کو پولنگ سٹیشنوں کا رخ کریں گے اور اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ اگلے چار برس ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے جو بائیڈن یا رپبلکن جماعت کے امیدوار اور موجود صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایوان صدر یعنی وائٹ ہاؤس میں رہیں گے۔
پولنگ کے بعد رات کو جب نتائج آنا شروع ہوں گے تو آپ کو ذیل میں دیے گئے نکات پر نظر رکھنی چاہیے۔
چند اہم تفصیلات :
- امریکہ میں صدر کا انتخاب جیتنے کے لیے آپ کو ووٹوں کی گنتی میں سبقت حاصل نہیں کرنی ہوتی بلکہ کامیابی کے لیے الیکٹورل کالج (انتخابی حلقوں) میں برتری حاصل کرنا ہوتی ہے۔
- ماضی کے مقابلے میں اس مرتبہ کئی کروڑ زیادہ لوگ ڈاک کے ذریعے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کر رہے ہیں۔ ڈاک کے ذریعے ڈالے گئے ووٹوں یا پوسٹل بیلٹس کی گنتی میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔
- اس قدر بڑی تعداد میں ڈالے گئے پوسٹل بیلٹس کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ جو امیدوار ووٹوں کی ابتدائی گنتی میں برتری حاصل کر لے وہ اپنی برتری کو اس وقت برقرار نہ رکھ سکے جب پوسٹل بیلٹس اور پولنگ سٹیشنوں پر ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی کے بعد حتمی نتائج کا اعلان کیا جائے۔ لہٰذا اس نکتے کو بھی ذہن میں رکھیں۔
چند اہم اصطلاحات:
- ’بیل ویدر سٹیٹ‘: اوہایو اور مزوری ایسی جگہیں ہیں جہاں سے حاصل ہونے والے نتائج سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قومی سطح پر کون سا امیدوار انتخابی معرکہ جیتے گا۔
- ’ایگزٹ پولز‘: پولنگ سٹیشنوں سے باہر نکلنے والے ووٹروں سے بات کر کے اندازہ لگانا کہ کون سا امیدوار برتری حاصل کر رہا ہے۔ کیونکہ بہت زیادہ ووٹروں سے بات کرنا ممکن نہیں ہوتا اس لیے سرکاری اور حتمی نتائج ایگزٹ پولز کے ذریعے لگائے جانے والے اندازوں سے مختلف ہو سکتے ہیں۔
- ’الیکٹورل کالج‘: ہر ریاست کو اس کی مجموعی آبادی کے لحاظ سے نشستیں دی جاتی ہیں۔ جو بھی امیدوار ریاست کے مجموعی ووٹوں کی اکثریت حاصل کر لیتا ہے اسے اس ریاست کی تمام نشستیں حاصل ہو جاتی ہیں۔ ان نشستوں پر منتخب ارکان بعد میں صدر اور نائب صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔ الیکٹورل کالج میں مجموعی طور پر 538 ارکان ہوتے ہیں اور جس امیدوار کے 270 ارکان جیت جاتے ہیں وہ کامیاب قرار دے دیا جاتا ہے۔
- ’پروجیکشن اور کالنگ‘: الیکشن کی شب ووٹ کی پرچیوں کی گنتی کو انتخابی نتائج کا اندازہ لگانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کسی بھی ریاست کے ممکنہ نتائج کے بارے میں اس وقت تک کچھ نہیں کہا جاتا جب تک ووٹوں کی ایک معقول تعداد کی گنتی نہیں کر لی جاتی۔ اس میں کئی ماہ سے جاری رائے شماری، ایگزٹ پول اور پولنگ کے دن ڈالے گئے اچھے خاصے ووٹوں کی گنتی کی بنیاد پر پروجیکشن یا پیش گوئی کی جاتی ہے۔
- ’سوئنگ سٹیٹ یا بیٹل گراؤنڈ سٹیٹ‘: یہ ریاستیں وہ ریاستیں ہوتی ہیں جہاں کسی بھی جماعت کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہوتی یا ان کی سیاسی وابستگیاں یا ہمدردیاں واضح نہیں ہوتیں۔ جس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ ان ریاستوں میں کوئی بھی جیت سکتا ہے یا یہ کسی طرف بھی جا سکتی ہیں۔
- ’ریڈ سٹیٹ بمقابلہ بلیو سٹیٹ‘: یہ ریاستیں روایتی طور پر ایک مخصوص جماعت کے ساتھ ہوتی ہیں۔ رپبلیکن جماعت کو جن ریاستوں میں روایتی طور پر اکثریت حاصل رہی ہے یا جہاں سے وہ ماضی میں تسلسل کے ساتھ کامیابی حاصل کرتی ہیں ان ریاستوں کو ریڈ یا سرخ ریاستیں کہا جاتا ہے اور جو ریاستیں ڈیموکریٹ کا مضبوط گڑھ رہی ہیں ان ریاستوں کو بلیو یا نیلی ریاستیں کہا جاتا ہے۔
کس طرح پتا چلے کہ کون جیت رہا ہے؟
اس سال بڑی تعداد میں پوسٹل بیلٹ موصول ہونے کی وجہ یہ کہنا بڑی مشکل ہوگا کہ کون سا امیدوار سبقت حاصل کر رہا ہے۔
مختلف ریاستوں میں کب اور کیسے پوسٹل بیلٹ کی گنتی کی جائے گی اس بارے میں مختلف قواعد ہیں۔ ان میں گنتی کا اعلان کرنے کا طریقہ کار بہت مختلف ہے۔ کچھ ریاستوں مثلاً فلوریڈا اور ایریزونا میں پوسٹل بیلٹ کی گنتی تین نومبر سے کئی ہفتوں پہلے شروع کر دی جاتی ہے۔ کئی دوسری ریاستوں میں وسکونسن اور پینسلوینیا ایسی ریاستیں ہیں جو الیکشن کے دن تک پوسٹل بیلٹ کو ہاتھ نہیں لگاتیں جس کا مطلب ہے یہاں سے نتائج تاخیر سے موصول ہوتے ہیں۔
امریکی صدارتی انتخابی عمل کی یہ پیچیدگی اس وجہ سے زیادہ گمبھیر صورت اختیار کر جاتی ہے کہ مختلف ریاستوں میں پوسٹل بیلٹ وصول کرنے کی آخری تاریخ مختلف رکھی جاتی ہے۔ جارجیا کی طرح کی کچھ ریاستیں تین نومبر تک موصول ہونے والے پوسٹل بیلٹ کو آخری گنتی میں شمار کر لیتی ہیں۔ لیکن اوہایو اور کچھ دیگر ریاستوں میں ان پوسٹل بیلٹ کو وصول نہیں کیا جاتا جو تین نومبر سے پہلے کی تاریخ میں ڈاک میں نہیں ڈالے جاتے۔
ہم پورے یقین سے کچھ ریاستوں کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہاں سے مکمل نتائج حاصل ہونے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ یہ کہنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے کہ کب سرکاری طور پر صدارتی انتخابات میں کامیاب ہونے والے امیدوار کے نام کا اعلان ہو سکے گا۔
ماضی کے انتخابات میں ایسا نہیں تھا۔ بین الاقوامی معیاری وقت کے مطابق رات کے گیارہ بجے تک جب امریکہ کی مغربی ریاستوں میں پولنگ ختم ہوتی ہے، آپ اس کے بعد نتائج آنے کی توقع کر سکتے تھے۔ سنہ 2008 میں صدارتی انتخابات کے نتائج عین اس وقت آنا شروع ہو گئے تھے جبکہ سنہ 2012 کے انتخابات کے نتائج صرف 15 منٹ کی تاخیر سے آنا شروع ہوئے تھے۔
گذشتہ انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کا اعلان نصف شب کے بعد تک نہیں ہو سکا تھا جب امریکہ میں مشرقی ریاستوں کے معیاری وقت کے مطابق رات کے ایک بج کر 35 منٹ پر پینسلوینیا کی ریاست کے نتائج موصول نہیں ہوئے تھے۔ اس وقت یہ بات سامنے آ گئی تھی کہ ہلری کلنٹن کی شکست اب یقینی ہو چکی ہے۔
ان مغالطوں میں نہ آئیں!
کچھ چیزیں بھی ہیں جن پر اس سال آپ کو نظر رکھنی ہوگی۔
پہلی مرتبہ ابتدائی نتائج گمراہ کن ہو سکتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ریاستوں میں نتائج کے اعلان کا طریقہ کار مختلف ہے۔ کچھ ریاستوں میں پہلے وہ بیلٹ یا ووٹ کی پرچیاں گنی جاتی جو ووٹر آ کر پولنگ سٹیشنوں میں ڈالتے ہیں۔ ان میں ہو سکتا ہے کہ صدر ٹرمپ کو برتری حاصل ہو، کیونکہ رائے عامہ کے جائزوں سے معلوم ہوا ہے کہ ان کے حامیوں کی اکثریت تین نومبر کو پولنگ والے دن ووٹ اپنے ہاتھوں سے ووٹ ڈالنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
لیکن کچھ دیگر ریاستوں میں تین نومبر سے قبل ڈاک کے ذریعے ڈالے گئے ووٹوں کی پہلے گنتی کی جاتی ہے یا ان کو پولنگ کے دن ڈالے گئے ووٹوں کے ساتھ شامل کیا جاتا ہے۔ ان ریاستوں سے آنے والے نتائج شاید جو بائیڈن کے حق میں ہوں کیونکہ رپبلیکن کے مقابلے میں ڈیموکریٹک پارٹی کے حامیوں کی طرف سے اس سال ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی توقع زیادہ ہے۔
الیکٹورل فراڈ یا انتخابی بدعنوانیوں کے اس سال زیادہ خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں، جن میں صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم چلانے والی ٹیم پیش پیش ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ انتخابی بدعنوانیوں کے واقعات ناقابل یقین حد تک بہت کم ہیں اور اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ ڈاک کے ذریعے ڈالے گئے ووٹ میں کوئی ہیرا پھیری کی گئی ہے۔ مجموعی طور پر امریکہ میں ووٹنگ فراڈ ہونے کا امکان 0.00004 فیصد ہے اور برینین سینٹر آف جسٹس کی سنہ 2017 کی ایک تحقیق کے مطابق یہ شرح اس سے بھی کم 0.0009 فیصد ہے۔
ریاستوں کے بارے میں کب کہا جاتا ہے کہ وہ کہاں جا رہی ہیں؟
پولنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ کے ذرائع ابلاغ کے بڑے ادارے مختلف انتخابی ماڈل یا طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ انتخابی دوڑ میں کون کامیاب ہو گا۔
یہ اندازے مختلف اعداد و شمار کو سامنے رکھ کر لگائے جاتے ہیں۔ ان میں ووٹروں سے بات کر کے ان کی رائے معلوم کرنے کے علاوہ مقامی انتخابی اہلکاروں سے حاصل ہونے والے ووٹوں کی گنتی بھی شامل ہوتی ہے۔
یہ ذرائع ابلاغ ان اندازوں کی بنیاد پر یہ دعوے کرتے ہیں کہ کون سی ریاست میں کسی جماعت کو برتری حاصل ہوگی۔ اس کے باوجود یہ اندازے ہی ہوتے ہیں اور حتمی نتائج نہیں ہوتے۔ بعض ادارے یہ اندازے صرف مقامی یا ریاستی انتخابات کے بارے میں لگاتے ہیں لیکن صدارتی نتائج کے بارے میں بھی دعوے ہوتے ہیں۔
کچھ ریاستوں سے حتمی نتائج موصول ہونے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔ ایسا ہمیشہ سے ہی تھا لیکن اس سال ڈاک کے ذریعے ڈالے گئے زیادہ ووٹوں سے ان کی گنتی میں زیادہ وقت لگنے کی توقع ہے۔
سنہ 2016 میں ہوئے صدارتی انتخابات میں ہلری کلنٹن کو حاصل ہونے والے کُل ووٹوں کی تعداد میں الیکشن کے ایک ماہ بعد تک اضافہ ہوتا رہا تھا کیونکہ انتخابی اہلکار ووٹوں کی گنتی جن میں اکثریت کیلیفورنیا میں ڈالے گئِے ووٹوں کی گنتی مکمل نہیں کر پائے تھے جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ اس سے بہت پہلے زیادہ ریاستوں میں برتری رکھنے کی بنیاد پر کامیاب قرار دیے جا چکے تھے۔
ڈاک کے ذریعے ڈالے گئے ووٹوں سے تاخیر کیوں ہوتی ہے؟
اس سال ڈاک کے ذریعے کئی کروڑ ووٹ ڈالے گئے ہیں جن کی تعداد غالباً سنہ 2016 کے انتخابات کے مقابلے میں دگنی ہے۔
لیکن اس سال اتنی بڑی تعداد میں ڈاک کے ذریعے ڈالے جانے والے ووٹوں کی وجہ سے یہ خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ شاید ڈاک کا نظام اتنی بڑی تعداد میں ڈالے گئے ووٹوں کی بروقت ترسیل یقینی بنانے کی استطاعت نہیں رکھتا اور ان ووٹوں کے وصول کیے جانے میں تاخیر ہو جائے۔
لیکن ڈاک کے محکمے نے ان خدشات کو رد کر دیا اور کہا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ کچھ ریاستوں میں الیکشن کے کئی دن بعد بھی موصول ہونے والے ووٹوں کو گنتی میں شامل کر لیں گی اگر یہ ووٹ تین نومبر سے پہلے ڈاک میں بھیج دیے گئے ہوں اور انھیں ڈاک میں ڈالے جانے کی مہر تین نومبر سے پہلے کی لگی ہو۔ اس وجہ سے تاخیر ہو سکتی ہے۔ ان پوسٹل بیلٹ کو ایک ایک کر کے کھولا جائے گا، ان پر لگی تاریخ کی تصدیق کی جائے گی اور پھر ان کو شمار کیا جائے گا جس میں یقیناً کافی وقت لگے گا۔
اگر کوئی بھی امیدوار واضح کامیابی حاصل نہ کر سکا؟
اگر تین نومبر کو کسی بھی امیدوار کو واضح کامیابی حاصل نہ ہو سکی تو جب تک تمام ووٹوں کی گنتی مکمل نہیں کر لی جاتی ہمیں انتظار کرنا پڑے گا اور اس میں کئی دن اور کئی ہفتے بھی لگ سکتے ہیں۔
عام طور پر انتخاب کی رات کو گنتی مکمل ہو جاتی ہے لیکن اس سال اس سارے عمل میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ قانونی پیچیدگیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں جن کی وجہ سے عدالتوں میں جانا پڑے گا اور ان کے فیصلے تک انتخابی نتائج مؤخر ہو سکتے ہیں۔
وہ ریاستیں جن پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے
ہمیں معلوم ہے کہ نتائج جلد نہیں آئیں گے۔ لیکن کچھ ریاستیں ہیں جن سے ہمیں اندازہ لگانے میں مدد مل سکتی ہے۔
شمالی کیرولائنا میں پولنگ مقامی وقت کے مطابق شام ساڑھے پانچ بجے بند ہو جائے گی جہاں پولنگ سٹیشنوں پر ڈالے گئے ووٹ کی تعداد زیادہ ہونے کی توقع ہے اور یہاں کے بارے میں جلد اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اس ریاست سے سنہ 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ بڑی مشکل سے جیت پائے تھے اور اس مرتبہ بھی یہاں سے انھیں کڑے مقابلے کی توقع ہے۔ ٹرمپ یا بائیڈن کو اگر یہاں سے خوش خبری ملی تو باقی تمام رات بھی انھیں مزید خوش خبریاں ملنے کی توقع ہو سکتی ہے۔
مشرقی حصے کے معیاری وقت رات آٹھ بجے فلوریڈا میں آخری ووٹ ڈالا جائے گا۔ الیکشن کا فیصلہ ان ریاستوں کے نتائج سے ہوتا ہے جہاں کڑا مقابلہ ہو یا جنھیں انگریزی زبان میں بیٹل گروانڈ سٹیٹس کہا جاتا ہے۔
اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہونے کی امید ہے۔ لیکن اس بارے میں ذرا محتاط ہونا پڑے گا کیونکہ فلوریڈا میں پوسٹل بیلٹ اور پولنگ سٹیشنوں پر ڈالے گئے ووٹوں کا شمار ایک ساتھ کیا جائے گا اور اس میں بائیڈن کو سبقت حاصل ہو سکتی ہے۔
ایریزونا کی ریاست میں مقامی وقت کے مطابق رات نو بجے پولنگ بند ہو گی لیکن یہاں حکام 20 اکتوبر کو گنتی شروع کریں گے۔ سنہ 2016 میں صدر ٹرمپ نے یہاں سے کامیابی حاصل کی تھی لیکن اس مرتبہ عوامی سروے کے مطابق جو بائیڈن کو معمولی سے برتری حاصل ہے۔
ایریزونا میں فلوریڈا کی طرح جلد گنتی جو بائیڈن کے حق میں جائے کیونکہ ان کے ووٹروں میں ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کا رجحان زیادہ ہے۔
بہت سی ریاستوں میں انتخابی عملہ ووٹوں کی پرچیوں کی گنتی تین نومبر سے پہلے شروع نہیں کرے گا۔ اس وجہ سے سوئنگ ریاستوں کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہو جائے گا۔ اوہایو میں مقامی وقت کے مطابق شام ساڑھے سات بجے پولنگ بند ہو جائے گی۔ انتخابی عملہ ابتدائی نتائج کا اعلان الیکشن والے دن ہی کر دے گا لیکن اس کے بعد تمام گنتی مکمل ہو جانے تک جو 28 نومبر سے پہلے مکمل کرنا ضروری ہے مزید کوئی تفصیل جاری نہیں کی جائے گی۔
اوہائیو سوئنگ سٹیٹ نہیں ہے۔ یہ صدارتی امیدوار کی تقدیر کے بارے میں بتاتی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے ماسوائے ایک صدارتی انتخاب کے یہاں سے جو بھی امیدوار کامیاب ہوا ہے وہ صدر بنا ہے۔
پینسلوینیا میں مقامی وقت کے مطابق رات آٹھ بجے پولنگ ختم ہو گی۔ دونوں امیدواروں کا صدارتی محل تک راستہ اسی ریاست سے ہو کر گزرتا ہے۔ یہ جو بائیڈن کی آبائی ریاست ہے اور یہاں سے صدر ٹرمپ 2016 کے انتخابات میں معمولی اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے۔
دیگر الیکشن
بائیڈن اور ٹرمپ صرف دو امیدوار نہیں ہیں جن کا نام ووٹ کی پرچیوں پر موجود ہیں۔ دونوں جماعتوں کی نظر لازمی طور پر امریکی سینیٹ کے انتخاب پر بھی ہو گی۔ فی الوقت رپبلیکن جماعت کو تین ارکان کی برتری حاصل ہے۔
ٹرمپ کے اتحادی لنزے گراہم جنوبی کیرولائنا میں اپنی سیاسی زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں جہاں انھیں ڈیموکریٹ امیدوار جیمی ہیریسن سے کڑے مقابلے کا سامنا ہے۔ لنزے گراہم سنہ 2003 سے اس ریاست سے منتخب ہوتے آئے ہیں لیکن صدر ٹرمپ کی غیر مشروط حمایت کی وجہ سے بہت سے ووٹر ان سے دور ہو گئے ہیں۔
مین کی ریاست میں رپبلیکن امیدوار سوزن کولنز کی بھی نوکری خطرے میں ہے۔ وہ اپنی جماعت کے چند معتدل مزاج ارکان میں شامل ہیں لیکن صدر ٹرمپ سے اپنی غیر مشروط حمایت کی وجہ سے بھی بہت غیر مقبول ہیں۔
بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی۔ امریکی شہریوں کو بہت سے ووٹوں کی پرچیوں پر نشان لگانے پڑیں گے۔ کیلیفورنیا میں ضمانت کے بارے میں ایک قانون پر بھی ریفرینڈم کروایا جا رہا ہے۔
ایریزونا، مونٹانا، نیو جرزی اور جنوبی ڈکوٹا میں لوگ افیون کے استعمال کو قانونی کرنے کے بارے میں بھی ووٹ ڈالے رہے ہیں۔ مسی سیپی میں ووٹر بھنگ کو طبی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے بارے میں ایک قانون پر رائے دے رہے ہیں۔
- جمیلہ علم الہدیٰ: مشکل وقت میں شوہر کے ہمراہ ’گھریلو اخراجات اٹھانے والی‘ ایرانی صدر کی اہلیہ کون ہیں؟ - 23/04/2024
- ’مایوس‘ والدہ کی چیٹ روم میں اپیل جس نے اُن کی پانچ سالہ بیٹی کی جان بچائی - 23/04/2024
- مبینہ امریکی دباؤ یا عقلمندانہ فیصلہ: صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان کے دوران ’ایران، پاکستان گیس پائپ لائن‘ منصوبے کا تذکرہ کیوں نہیں ہوا؟ - 23/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).