تہران میں امریکی سفارتخانے پر قبضے کے 41 سال: اس منصوبے کے ماسٹر مائنڈ اور امریکی یرغمالی سے گفتگو


تہران،
ایرانی مظاہرین امریکی سفارت خانے کے باہر جمع ہیں
آج سے ٹھیک 41 برس قبل، یعنی چار نومبر 1979، اُس واقعے کی ابتدا ہوئی جو آگے چل کر دنیا کی سب سے طاقتور ریاستوں میں سے ایک امریکہ اور دنیا کی قدیم ترین سلطنتوں میں سے ایک ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کے خاتمے کا باعث بنا۔

اور ان دونوں ممالک کے درمیان تب سے اب تک ایسی سردمہری ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی تمام جغرافیائی سیاست پر آج تک اس کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں۔

اُس روز تہران میں واقع امریکی سفارتخانے پر ایرانی طلبہ کے مشتعل ہجوم نے دھاوا بول دیا اور سفارت خانے میں موجود 99 افراد کو یرغمال بنا لیا جس میں 66 امریکی بھی شامل تھے۔

سفارتکاری کی دنیا میں میزبان ریاستیں اپنے ملک میں موجود دیگر ممالک کے سفارتخانوں اور قونصل خانوں کی حفاظت کو یقینی بناتی ہیں اور ایسا کوئی بھی حملہ اُس عمارت پر نہیں بلکہ اُس ملک پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔

یہ مظاہرین ایران کے سابق حکمران محمد رضا شاہ پہلوی کی امریکہ سے بے دخلی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ایران میں آیت اللہ خمینی کی قیادت میں آنے والے اسلامی انقلاب میں 11 فروری 1979 کو اُن کی حکومت کا تختہ اُلٹا دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

شیعہ مراجع کون ہیں اور ان کی اہمیت کیا ہے

ایران میں ’رہبرِ اعلیٰ‘ کا کردار آج بھی کتنا اہم ہے؟

انقلابِ ایران کی وہ شخصیات جو امام خمینی کے ہمراہ تھیں

اکتوبر 1979 میں صدر جمی کارٹر نے رضا شاہ پہلوی کو علاج کی غرض سے امریکہ میں داخلے کی اجازت دی لیکن ایران میں امریکہ مخالف جذبات عروج پر تھے اور ایرانیوں نے رضا شاہ کی امریکہ میں موجودگی کے خلاف مظاہرے شروع کر دیے۔

اسی دوران جب نومبر میں سفارتخانے کے عملے کو یرغمال بنایا گیا تو کہا جاتا ہے کہ امریکی انتظامیہ خود بھی یہ چاہنے لگی کہ رضا شاہ پہلوی امریکہ میں نہ رہیں، چنانچہ دسمبر 1979 میں انھوں نے امریکہ چھوڑ دیا اور پانامہ چلے گئے۔

تہران

26 اکتوبر 1967 کو ایران کے آخری بادشاہ محمد رضا پہلوی کی تاج پوشی کے موقع پر لی گئی تصویر

اس دوران مزید کیا ہوا؟

  • 17 نومبر 1979: ایرانی انقلاب کے سربراہ آیت اللہ خمینی نے خواتین اور افریقی امریکی یرغمالیوں کی رہائی کا حکم جاری کیا جس سے یرغمالیوں کی تعداد گھٹ کر 53 ہو گئی
  • 7 اپریل 1980: صدر جمی کارٹر نے ایران سے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے
  • 25 اپریل 1980: صدر جمی کارٹر کے حکم پر یرغمالیوں کو چھڑوانے کے لیے خفیہ آپریشن کیا گیا لیکن اس میں ایک ٹرانسپورٹ طیارہ اور ایک ہیلی کاپٹر آپس میں ٹکرا گئے جس کے نتیجے میں آپریشن میں حصہ لینے والے امریکہ کے آٹھ سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے
  • 11 جولائی 1980: ایک یرغمالی کو بیماری کی بنا پر رہا کر دیا گیا
  • 19 جنوری 1981: امریکہ اور ایران نے یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے پر دستخط کیے
  • 20 جنوری 1981: باقی ماندہ 52 یرغمالیوں کو رہائی کے بعد بذریعہ ہوائی جہاز جرمنی لے جایا گیا

444 دن تک جاری رہنے والا یہ بحران جمی کارٹر کی صدارت کا مشکل ترین دور تھا اور اس کا اختتام جنوری 1981 میں اُس دن ہوا جس دن رونلڈ ریگن نے امریکہ کے صدر کے طور پر حلف اٹھایا۔

یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے امریکہ نے ایران کے آٹھ ارب ڈالر کے اثاثوں کو غیر منجمد کرنے اور یرغمال بنانے والے افراد کے خلاف اقدام نہ کرنے کا وعدہ کیا۔

سنہ 1980 میں رونلڈ ریگن کے ہاتھوں جمی کارٹر کی شکست کی ایک وجہ یرغمالیوں کو چھڑوانے میں ان کی ناکامی کو بھی قرار دیا جاتا ہے۔

تنقید کرنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ رونلڈ ریگن کی صدارتی مہم کی ٹیم نے یرغمالیوں کی رہائی میں سنہ 1980 کے صدارتی انتخاب کے بعد تک تاخیر کی سازش کی تاکہ صدر کارٹر دوبارہ وائٹ ہاؤس میں نہ پہنچ سکیں۔

اب اس واقعے کو 41 سال مکمل ہو چکے ہیں اور اس موقع پر بی بی سی سفارتی تاریخ کے سب سے بڑے بحرانوں میں سے ایک کے دو اہم کرداروں سے کی گئی گفتگو آپ کے لیے پیش کر رہا ہے۔

بی بی سی فارسی نے امریکی سفارت خانے کو یرغمال بنانے کے منصوبہ سازوں میں سے ایک ابراہیم اصغرزادہ اور ایک یرغمالی بروس لینگن سے سنہ 2004 میں بات کی تھی جو اس وقت تہران میں امریکی ناظم الامور تھے۔

ابراہیم اصغرزادہ اب بھی حیات ہیں تاہم بروس لینگن جولائی 2019 میں وفات پا چکے ہیں۔

ابراہیم اصغرزادہ اس وقت 24 سال کے تھے اور یونیورسٹی آف تہران میں الیکٹریکل انجینیئرنگ کے طالبعلم تھے۔ سنہ 1988 میں وہ ایرانی پارلیمان کے رکن بھی بنے۔

تہران

یرغمال بنانے والے گروہ کی قیادت کرنے والے ابراہیم اصغرزادہ بعد میں ایرانی پارلیمان کے رکن بھی بنے

بی بی سی اور ابراہیم اصغرزادہ کی گفتگو

آپ نے امریکی سفارت خانے پر قبضہ کرنے اور اس کے عملے کو یرغمال بنانے کا منصوبہ کیسے بنایا؟

ہمارے پاس سفارت خانے پر قبضہ کرنے کا کوئی واضح اور ٹھوس منصوبہ نہیں تھا اور نہ ہی ہمارا کسی کو یرغمال بنانے کا منصوبہ تھا۔

ہم صرف طلبہ کا گروہ تھے جو احتجاجی مظاہرہ کرنا چاہتے تھے۔ اگر آپ ہمارے اقدامات کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اسے اُن دنوں کے سیاق و سباق میں دیکھنا ہو گا جو تناؤ سے بھرپور تھے۔

سرد جنگ کا دور وہ تھا جب دنیا کے دو سیاسی کیمپوں کے درمیان بڑا مقابلہ جاری تھا۔

کیا آپ کو نہیں لگا کہ لوگوں کو یرغمال بنانا غیر انسانی تھا؟

ہمیں لوگوں کو یرغمال نہیں بنانا تھا۔ ہم نے نہیں سوچا تھا کہ ہمارا اقدام یرغمال بنانے کا ایک طویل دور بن جائے گا جو 444 دن تک جاری رہے گا۔

سفارت خانے پر قبضے میں آپ کا مقصد کیا تھا؟

ہم نے نہ اس اقدام کے پہلوؤں اور نہ ہی اس کے نتائج کے بارے میں سوچا تھا۔ ہم صرف چاہتے تھے کہ دنیا ہماری آواز سنے۔

ہماری واحد تشویش یہ تھی کہ انقلاب کے سربراہ (آیت اللہ خمینی) اس اقدام کی مخالفت کریں گے لیکن جب ہم نے سفارت خانے پر قبضہ کیا تو چند گھنٹوں میں سب کچھ بدل گیا۔

قائد نے ہماری حمایت کی اور لوگوں کے گروہ ہماری حمایت میں سفارت خانے آنے لگے اور مستقبل کے حالات ہمارے کنٹرول سے باہر ہو گئے۔

ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا کہ ہم سفارت خانے میں رہتے اور عملے کا خیال رکھتے۔

تہران،

آیت اللہ خمینی کے حکم پر امریکی سفارت خانے سے رہا کیے گئے خواتین اور افریقی امریکی افراد کا گروہ 18 نومبر 1979 کو تہران میں میڈیا سے گفتگو کر رہا ہے

آپ نے یرغمالیوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا؟

ہم نے نہیں بالکل بھی نہیں سوچا تھا کہ یرغمالیوں کو کیسے رکھنا ہے۔ ہمارے پاس تقریباً 300 سے 350 طلبہ تھے اور ہمارے پاس انتہائی محدود وسائل تھے۔

ہم نے پیشہ ورانہ طور پر عمل نہیں کیا اور سفارت خانے کا کچھ عملہ پچھلے راستے سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔

ہم نے ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھنے کے بارے میں بھی نہیں سوچا تھا۔

میرا خیال ہے کہ انھیں بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ ہمارا انھیں یرغمال بنانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ ہم نے ان سے انسانی سلوک کرنے کی کوشش کی لیکن اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ ان پر کافی نفسیاتی دباؤ تھا۔

آپ آج اپنے اقدام کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟

حالیہ سالوں میں ہم نے کوشش کی ہے کہ امریکی لوگوں کو باور کروائیں کہ ہمارا اقدام صرف ہمارے ملک میں امریکی مداخلت کے خلاف ردِعمل تھا۔ ہر انقلاب کے بعد کچھ انتہاپسند اقدامات ہوتے ہیں۔ اسلامی انقلاب اب مستحکم ہو چکا ہے اور اس طرح کے واقعات مستقبل میں دوبارہ نہیں ہونے چاہییں۔

تہران،

اُس وقت تہران میں امریکی ناظم الامور بروس لینگن کی 2006 میں لی گئی ایک تصویر

بی بی سی اور بروس لینگن کی گفتگو

سفارت خانے پر قبضہ ہونے کے بعد آپ کے پہلے خیالات کیا تھے؟

میرا سب سے پہلا ردِعمل ظاہر ہے کہ حیرانی، صدمہ، غصہ، فکر اور نفرت تھا۔ اُن 444 دنوں میں ہر طرح کے جذبات میرے اور میرے ساتھیوں کے ذہن میں موجود رہے۔

پہلے تو ہمیں اعتماد تھا کہ انقلابی حکومت اور انقلابی قیادت اس صورتحال کو ختم کر دے گی مگر بعد میں مجھے یہ احساس ہونے لگا کہ میں شہر کے دوسرے کونے میں اپنے ساتھیوں کی حفاظت کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ میں نے اسی احساس کے ساتھ اگلے 444 دن گزارے۔

آپ کے ساتھ کیسا سلوک کیا گیا؟

[ایرانی] وزارتِ خارجہ میں میرے ساتھ سلوک ان لوگوں کی بانسبت بہتر تھا جنھیں شہر کے دوسرے کونے میں موجود سفارت خانے میں یرغمال رکھا گیا تھا۔

مجھے اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ ایک کمرے تک محدود کر دیا گیا۔

مجھے کبھی بھی جسمانی استحصال کا نشانہ نہیں بنایا گیا، بس آزادی کے بنیادی حق سے محروم رکھا گیا۔

بالآخر مجھے ایک جیل لے جایا گیا جہاں میں نے قیدِ تنہائی میں آخری تین ہفتے گزارے، چنانچہ مجھے اندازہ ہوا کہ میرے ساتھیوں نے اس پورا عرصہ کیسے وقت گزارا ہو گا۔ ان میں سے کئی کو طویل عرصے تک قیدِ تنہائی میں رکھا گیا تھا۔

قیدِ تنہائی کو بیان کر سکتے ہیں؟

قیدِ تنہائی کا مطلب ٹھنڈ میں اکیلے رہنا ہے۔ یہ دسمبر اور جنوری تھا، 1980، 1981، 1982۔ ایک ایسے سیل میں اکیلے رہنا جہاں کوئی روشنی نہیں اور اونچائی پر صرف ایک گندی سی کھڑکی تھی۔

چھت سے ایک بلب لٹکتا رہتا۔ مجھے کچھ بھی کرنے کی اجازت نہیں تھی سوائے اس کے کہ جب مجھے باتھ روم جانا ہوتا تو میں دروازہ بجاتا اور مجھے آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر ہال سے گزار کر باتھ روم لے جایا جاتا۔

یہ بہت پریشان کُن احساس ہے، یہ آپ کو دوہرا غصہ دلاتا ہے، دوہری بے چینی پیدا کرتا ہے۔ آپ کی آزادی چھیننے والوں کے خلاف آپ کا غصہ بڑھنے لگتا ہے۔

یرغمال بننے نے آپ کی زندگی پر کیسے اثرات چھوڑے؟

ظاہر ہے کہ آپ اس سے باہر نکل آتے ہیں، اگر آپ زندہ بچنے میں کامیاب ہو جائیں تو۔ میں یہ اس لیے کہتا ہوں کیونکہ آج عراق میں یرغمالیوں کے سر قلم کرنا بھی شامل ہے۔ بیروت میں یرغمالیوں کا طویل عرصے تک استحصال کیا جاتا ہے اور انھیں تنہائی میں رکھا جاتا ہے۔

سفارت خانے میں موجود میرے ساتھیوں کے لیے یرغمال بننے کا مطلب یہ تھا کہ انھیں طویل عرصے تک قیدِ تنہائی میں رکھا گیا۔ میں باعزت انداز میں اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ان کی عزت کرتا ہوں۔

تہران،

پانچ نومبر 1979 کو تہران میں امریکی سفارت خانے پر قبضے کے بعد مظاہرین سفارت خانے کی دیوار پر کھڑے ہیں اور اس کے باہر جمع ہیں

کیا آپ اُن سے رابطے میں رہتے ہیں؟

باقاعدگی سے نہیں۔ ہمارا کوئی کلب نہیں ہے۔ ہم ایک دوسرے سے اکثر ملتے ہیں۔ ہمارا آپس میں کافی رابطہ رہا کیونکہ ہم نے ایرانی حکومت پر اس سلوک کے خلاف مقدمہ کیا جو انھوں نے ہمارے ساتھ کیا۔

کیا آپ سب لوگ اس واقعے کے بارے میں یکساں خیالات رکھتے ہیں؟

جی ہاں۔ ہم سب تب سے ایک گروہ کی طرح متحد ہیں جب سے ہمیں یرغمال بنایا گیا تھا، حالانکہ ہم جسمانی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ نہیں تھے۔

روحانی اور ذہنی طور پر ہم سب اس پورے دور میں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔

کئی طرح سے ہم ایک حیران کُن گروہ ہیں، مگر ہم دوبارہ کبھی ایران نہیں گئے۔ ہمیں یہ موقع دوبارہ کبھی نہیں ملا۔ ہم اپنے اس مقدمے میں واضح طور پر متفق ہیں کہ جو ایرانی حکومت، زور دے کر کہوں گا کہ ایرانی حکومت نے جو ہمارے ساتھ کیا، حکومت نے اس سب پرتشدد اقدام کو قبول کیا جو اُن کے اپنے شہریوں نے ہمارے خلاف کیا۔

کچھ دیگر یرغمالیوں کے خیالات تو نسبتاً نرم ہیں؟

بالکل، ظاہر ہے۔ اب بھی 42 لوگ زندہ ہیں۔ ہمارے ایران کے متعلق مختلف نظریات ہیں مگر ہم سب ایران کے لوگوں کی بہت عزت کرتے ہیں۔ وہاں موجود مذہبی حکومت کے لیے ہمارے دل میں احترام نہیں ہے۔

کیا آپ کو لگتا ہے کہ 11 ستمبر کے بعد اس واقعے کے بارے میں جذبات مزید سخت ہوئے ہیں؟

جی مجھے لگتا ہے کہ یہ درست ہے۔ ہم میں سے کئی کو اب بھی یہ خیال آتا ہے کہ 11 ستمبر کے بعد [ہم نے کہا تھا] کہ: ‘او خدایا، یہ ہم سے ہی شروع ہوا تھا۔’

تہران،

اُس وقت تہران میں امریکی ناظم الامور بروس لینگن 28 جنوری 1981 کو اپنے گھر واپس پہنچنے پر

آپ کی اہلیہ کے کیا تاثرات تھے؟

وہ بہت غصے میں اور فکرمند تھیں جیسے ہم سبھی یرغمالیوں کے گھر والوں کے جذبات تھے۔

تہران سے لوٹنے والے ہم سبھی لوگ انھیں اصل ہیرو سمجھتے ہیں۔

اس بحران میں جس طرح انھوں نے اپنی اطلاع دیں، جیسے انھوں نے ہم تک پہنچنے کی کوشش کی۔ میری اہلیہ نے [پیلا ربن] کیا جس نے امریکی لوگوں میں وہ تحرک شروع کیا جس کے تحت وہ آج بھی تمام طرح کے مقاصد کے لیے ربن لہراتے ہیں۔

یہ ایک علامت ہے، اس ملک کی قومی علامت ہے کہ ہم کیسے اپنے ساتھی امریکیوں کا خیال رکھتے ہیں۔

اس روایت کی ابتدا کرنے والا پیلا ربن جو میرے گھر کے پائین باغ میں ایک درخت کے ساتھ باندھا گیا تھا، اب امریکی کانگریس کی لائبریری میں محفوظ کر دیا گیا ہے۔

مجھے اس بات پر بہت فخر ہے، اور مجھے اپنی اہلیہ کے ادا کیے گئے کردار پر بہت فخر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp