امریکی صدارتی انتخاب 2020 کے نتائج: نئے امریکی صدر کا فیصلہ کِن ریاستوں کے نتائج پر آن ٹھہرا اور کیوں؟


Promo image showing Joe Biden and Donald Trump
سنہ 2016 کے صدارتی انتخاب کے بعد ہیلری کلنٹن کو سمجھ آیا تھا کہ ووٹوں کی تعداد سے زیادہ اہم یہ ہے کہ آپ نے بطور امیدوار ووٹ کہاں سے جیتے ہیں۔

زیادہ تر ریاستیں کسی ایک پارٹی کا گڑھ ہوتی ہیں اور اُن ریاستوں سے ان کی جیت عمومی طور پر یقینی ہوتی ہے۔ تاہم کچھ امریکی ریاستیں ایسی ہیں جن کے حوالے سے زیادہ وثوق سے کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی اور یہاں سے آخری وقت تک کسی بھی امیدوار کے جیتنے کا امکان موجود رہتا ہے۔ دراصل یہی وہ ریاستیں ہیں جن کے نتائج کی بنیاد پر صدارتی انتخاب میں جیت ہار کا فیصلہ ہوتا ہے۔

امریکہ میں الیکٹورل کالج کا جو نظام صدارتی انتخاب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اس میں ہر ریاست کو آبادی کے لحاظ سے کچھ ووٹ دیے جاتے ہیں۔

امریکہ بھر میں کل 580 الیکٹورل کالج ووٹ ہوتے ہیں، اور الیکشن میں کامیابی کے لیے کسی بھی امیدوار کو 270 ووٹ حاصل کرنا ہوتے ہیں۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل نقشے میں دیکھا جا سکتا ہے، کڑے مقابلے والی ریاستوں میں کافی زیادہ الیکٹورل کالج ووٹ ہوتے ہیں اسی لیے امیدوار اکثر ان میں بہت زیادہ وقت گزارتے ہیں۔

یہی وہی ریاستیں ہیں جنھیں ’سوئنگ سٹیٹس‘ کہا جاتا ہے۔

الیکٹورل کالج

ہر ریاست کے پاس اپنی آبادی پر مبنی ووٹوں کی ایک مخصوص تعداد ہوتی ہے اور وہ امیدوار جو اس علاقے میں مقبول ترین ووٹ حاصل کرتا ہے عام طور پر وہ تمام انتخابی ووٹ لے لیتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا آپ زیادہ ووٹ لیے بغیر بھی امریکی صدر بن سکتے ہیں؟

ٹرمپ کی وہ ’غلطیاں‘ جو انھیں آئندہ انتخابات میں شکست سے دوچار کر سکتی ہیں

جو بائیڈن نائب صدر کے لیے اپنا ساتھی امیدوار کسے چنیں گے؟

کیا جو بائیڈن ٹرمپ کو شکست دے کر اگلے صدر بن سکتے ہیں؟

شمالی کیرولائنا

امریکہ میں گرین وچ وقت کے مطابق رات ساڑھے بارہ بجے سب سے پہلے ملک کے مشرقی حصوں میں پولنگ بند ہو گی اور جو علاقہ پہلے ووٹنگ کو بند کرنا اور ابتدائی نتائج شائع ہونا شروع ہو جائیں گے۔

شمالی کیرولینا کے الیکٹرول کالج میں 15 ووٹ ہیں اور انتخاب میں کوئی واضح فاتح نہیں ہے۔

سابق صدر باراک اوباما نے سنہ 2008 میں یہ ریاست ایک معمولی فرق سے جیتی تھی۔ اس ریاست کی خصوصیات ایسے شہروں کی ہے جس میں افریقی نژاد امریکی ووٹروں، اعتدال پسند نوکری پیشہ افراد اور کالج کے طلبا کی ایک بڑی تعداد رہائش پزیر ہے۔

لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے یہاں سنہ 2016 میں انتخاب میں جیت حاصل کی تھی۔

اس بار ریاست کی انتخابی کونسل کا اندازہ ہے کہ 80 فیصد ووٹ ذاتی طور پر پہلے سے ڈالے جانے والے بیلٹ ہوں گے یا بذریعہ ڈاک بھیجے جائیں گے اور اندازہ لگایا گیا ہے کہ انتخاب کا دن قریب آنے کے فورا بعد یہ نتائج شائع ہونا شروع ہوں گے۔

امریکہ

شمالی کیرولینا میں حکام پہلے ہی ان ووٹوں کی گنتی شروع کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جس کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ گنتی کے عمل میں تیزی آئے گی لیکن یہ شاید ڈیموکریٹس کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔

لیکن آخری ووٹنگ کے دن رپبلکنز کی حمایت بڑھتی ہی جا رہی تھی، جیسے جیسے رات بڑھتی ہے اور اس دن کے ووٹ گنتی میں داخل ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ یہ ریاست 12 نومبر تک ڈاک کے ذریعہ ووٹ قبول کرے گی جس کا مطلب یہ ہے اگر مقابلہ سخت ہوا تو نتائج میں تاخیر مزید غیر یقینی صورتحال پیدا کرے گی۔

فلوریڈا: وہ ریاست جو صدر مملکت کو دفن کر سکتی ہے

اس رات توجہ فوری طور پر فلوریڈا کی ریاست کی طرف ہو گی جو 29 الیکٹورل ووٹس کے ساتھ صدارت دینے یا دفن کرنے کے لیے معروف ہے۔

اخبار نیو یارک ٹائمز نے اندازہ لگایا ہے کہ فاتح یہاں سے صرف ایک یا دو فیصد پوائنٹس کے فرق سے جیت حاصل کر لے گا۔

ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ٹرمپ کو انتخاب جیتنے کے لیے فلوریڈا کی ضرورت ہے اور اب تک کے نتائج یہ بتاتے ہیں کہ ایک بار پھر صدر ٹرمپ یہاں جیت گئے ہیں۔

ڈیموکریٹ ریاستیں جو 2016 میں لال ہو گئیں

اگر صدر ٹرمپ نے فلوریڈا میں اپنی گرفت برقرار رکھی تو ڈیموکریٹک کی توجہ ان تین ریاستوں پر جائے گی جو سنہ 2016 میں ہلیری کلنٹن ہار گئیں۔

وسکونسن، مشی گن اور پنسلوانیا اس صنعت کا دل ہیں جس نے 20ویں صدی میں امریکہ کو آگے بڑھایا۔

یہ ایک اہم خطہ ہے جو اس بات کا تعین کر سکتا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں کون جائے گا۔

امریکہ

مشی گن میں 16 الیکٹورل کالج ووٹ ہیں تاہم پنسلوینیا میں 20 ووٹ ہیں۔ اور کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق ریاست ڈاک کے ذریعے ووٹ کی وجہ سے نتائج کی حتمی گنتی جمعے تک مکمل ہو گی لہذا اگر مقابلہ سخت ہوا تو جیت کا انحصار پنسلوانیا پر ہو گا جہاں نتائج آنے میں وقت لگ سکتا ہے۔ دونوں امیدواروں نے اس خطے کے متعدد دورے کیے۔

وسکونسن اور مشی گن بھی نتائج کی گنتی کے معاملے میں پنسلوینیا کی طرح کی صورتحال سے دوچار ہیں۔

جارجیا، ایریزونا، ٹیکساس: یہاں کیا ہو گا؟

جارجیا، ایریزونا اور ٹیکساس میں آبادیاتی تبدیلیاں ڈیموکریٹس کو نئی امید فراہم کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

تینوں ریاستوں کے پاس مجموعی طور پر 65 الیکٹورل کالج ووٹ ہیں اور یہ تاریخی طور پر لال یعنی رپبلکن ریاستیں ہیں۔ ان تینوں ریاستوں میں سنہ 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ فاتح قرار پائے تھے۔

ٹیکساس نے سنہ 1976 کے بعد سے کسی ڈیموکریٹک امیدوار کو ووٹ نہیں دیا ہے اور اس بار بھی صدر ٹرمپ نے یہاں کامیابی حاصل کر کے 38 الیکٹورل کالج ووٹس حاصل کر لیے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32510 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp