انڈین شہریوں کو زیادہ چینی استعمال کرنے کی ترغیب کیوں دی جا رہی ہے؟


گنے کا کھیت
انڈیا میں گنے کی فصل اگانے والے کاشکاروں کی تعداد لاکھوں میں ہے
انڈیا کی شوگر ملز ایسوسی ایشن نے انڈین شہریوں کو زیادہ سے زیادہ چینی استعمال کرنے کی ترغیب دینے کی مہم شروع کر رکھی ہے اور اس کا مقصد ملک میں چینی کی صنعت کو فروغ دینا ہے۔

شوگر ملز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ وہ چینی کے استعمال سے انسانی صحت پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں معاشرے میں موجود توہمات اور فرضی قصوں کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔

دستیاب اعداد و شمار کے مطابق اوسطاً ایک انڈین سال بھر میں تقریبا 19 کلوگرام چینی کا استعمال کرتا ہے اور یہ مقدار عالمی اوسط سے کافی کم ہے۔ تاہم اس کے باوجود انڈیا چینی کے استعمال سے بننے والی میٹھی اشیا استعمال کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔

رواں برس انڈیا میں گنے کی پیداوار میں 13 فیصد اضافے کا امکان ہے، اور یہ پیداوار تین کروڑ دس لاکھ ٹن تک جا سکتی ہے۔ اضافی پیداوار کے باعث انڈین حکومت نے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ برآمدات پر دی جانے والی سبسڈی (چھوٹ) کو روک سکتی ہے جس کا مقصد اضافی مقدار کی کھپت کو یقینی بنانا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا انڈیا میں زرعی اصلاحات کے نئے مجوزہ قوانین کسانوں کی ’موت کا پروانہ‘ ہیں؟

انڈیا کے لیے سونا، پاکستانی کسان کے لیے خاک کیوں؟

‘زخم پر نمک نہیں شکر ڈالیں’

شوگر ملز ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ پر ایک مختصر مضمون شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہے ’کھائیں، پیئں اور صحت مند رہیں: تھوڑی مقدار میں چینی کسی طور بھی مضر صحت نہیں ہے۔‘

اس آن لائن مہم میں سوشل میڈیا پوسٹس اور ورکشاپس کی بھی تفصیل ہے جس میں معروف ماہر صحت اور ہیلتھ کوچز صحت مند زندگی پر تبادلہ خیال کرتے نظر آتے ہیں۔ گھر میں مٹھائی بنانے کے طریقے بھی اس آن لائن مہم کا حصہ ہیں۔

اس مہم میں مصنوعی میٹھا بنانے والی مصنوعات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ مصنوعات لوگوں کو وزن کم کرنے میں مدد نہیں دیتے اور ایسی مصنوعات کے صحت پر منفی اثرات بھی ہو سکتے ہیں۔

ویب سائٹ کی افتتاح کے موقع پر انڈیا کے فوڈ سیکریٹری سودھانشو پانڈے نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ ’چینی سے متعلق جو باتیں کہی جاتی ہیں وہ اس کی حقدار نہیں ہے۔‘

انھوں نے کہا ’شکر اور شکر کے استعمال کے بارے میں بغیر کسی سائنسی بنیاد کے بہت سی بے بنیاد چیزیں کہی جاتی ہیں۔‘

صحت مند نقطہ نظر؟

اس مہم نے دوسرے ممالک میں چلنے والی مہموں سے بالکل مختلف انداز اختیار کیا ہے۔ دوسرے ممالک میں چینی کی کھپت کو کم کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔

چینی کا استعمال صحت کے متعدد مسائل جیسے موٹاپا اور ذیابیطس سے جوڑا جاتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) خاص طور پر ’اضافی چینی‘ کے بارے میں فکر مند ہے جسے عام طور پر کھانے پینے کی اشیا بنانے والے اپنی مصنوعات میں شامل کرتے ہیں، لیکن یہ شہد اور پھلوں کے رس میں بھی پائے جاتے ہیں۔

شکر

انڈیا میں سالانہ ایک فرد اوسطاً 19 کلوگرام چینی استعمال کرتا ہے

مٹھائی کی تجارت

انڈیا میں تقریبا پانچ کروڑ کسان گنے کی کاشت کرتے ہیں جبکہ لاکھوں افراد چینی کی ملوں میں کام کرتے ہیں۔

حکومت نے اس میں معاونت پسندانہ روش اختیار کر رکھی ہے اور بیرون ملک انڈیا کی چینی کو پہنچانے میں چھوٹ دیتی ہے۔ انڈیا کے اس اقدام کی بعض دوسرے ممالک میں مخالفت کی جاتی ہے۔

اضافی چینی سے چھٹکارا حاصل کرنے کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ اسے جلا کر ایتھنول میں تبدیل کیا جائے تاکہ ایندھن کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔

انڈین شوگر ملز ایسوسی ایشن کی پیش گوئی ہے کہ انڈیا میں ایتھنول کی پیداوار ایک ارب 90 کروڑ لیٹر سے بڑھ کر سنہ 2021 میں تین ارب لیٹر تک ہو جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32498 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp