سرما کی راتوں کے ساتھ جڑی رومانویت


سرما کی راتوں کے ساتھ جڑی رومانویت ہر موسم سرما کے آغاز میں جکڑ لیتی ہے۔ وہ آدھی رات تک جاگنا، ناولز پڑھنا اور صبح سے پہلے ختم کر کے ہی سکون لینا، لکڑیوں کے چولہے کی آگ بجھنے کے بعد دہکتے کوئلوں کے سامنے دیر تک بیٹھنا، سردیوں کی بوندا باندی جو اگر جمعرات کو شروع ہوتی تو بزرگوں کے بقول

جمعرات کی جھڑی ’بن جاتی جو اب اگلی جمعرات کو ہی ختم ہو گی۔ کچے صحن میں نقل و حرکت کے لیے اینٹیں رکھی جاتیں اور پھر ان بوندا باندی والی دوپہروں میں ساگ اور مولی کے پراٹھے کا مزا آج تک بہت کم چیزوں میں ملا ہے۔

رات کے بارہ بجے اچانک کسی بہن یا بھائی کے ذہن میں بیسن اور انڈے کا حلوہ یا زردے کا خیال آ جاتا اور پھر اس مشن کی تکمیل میں یہ خیال بھی رکھا جاتا کہ ہمارے والد صاحب نہ اٹھ جائیں کیوں کہ وہ تو اپنے سب بچوں کو زبردستی نو بجے سلا چکے ہوتے تھے۔ جب کہ بچے رات دو بجے بھی اپنی غیر نصابی پڑھائی میں مصروف ہوتے تھے۔ سردیوں کے موسم میں ہر گھر میں پنجیری، حلوے وغیرہ بنتے اور ایک دوسرے کے گھر تحفتاً بھیجے جاتے۔ دھوپ میں بیٹھ کر مالٹے کھائے جاتے اور بغیر گنتی کے کھائے جاتے۔ گاؤں کی اندھیری سرد راتوں میں کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آتیں۔ کبھی آدھی رات کو صحن یا چھت سے ایسی آوازیں آتیں کہ ایک لمحے کے لئے تو دل اچھل کر حلق میں آ جاتا اور پھر پتا چلتا کہ بلیوں کی لڑائی ہو رہی ہے۔

اب زندگی کا ڈھب کچھ ایسا ہے کہ رات کو آنکھ صرف بچوں کے فیڈر کے لئے کھلتی ہے۔ ادھ کھلی آنکھوں کے ساتھ بچوں کو فیڈر دے کر کوشش ہوتی ہے کہ کچھ نیند پوری کر لی جائے تاکہ اگلے دن کی مشقت کے لئے تازہ دم ہو سکیں۔ کتنے مہینے گزر جاتے ہیں کوئی کتاب پڑھے۔ سرما کی راتوں کا فسوں ابھی بھی اپنی طرف کھنچتا ہے لیکن دن سے رات اور رات سے دن کرنے کے چکر میں جگراتے کی ہمت نہیں پڑتی۔

ہر نسل کا اپنا ناسٹلجیا ہوتا ہے۔ میری نسل کے لوگ اسی قسم کی چیزوں کو یاد کرتے ہیں۔ تخیلاتی اور رومانوی شخصیت کا قصور ہے کہ ماضی میں سنی کتوں اور بلیوں کی آوازوں کو بھی یاد کر کے لطف اٹھایا جا رہا ہے۔ سہولیات اور ترقی کی دوڑ نے جہاں بہت کچھ دیا ہے وہاں بہت کچھ چھین بھی لیا ہے۔ صبح سے شام اور مہینے کی پہلی سے آخری کے گورکھ دھندے میں نا تو راتوں کو جاگنے والی ٰعیاشی ٰ کی جا سکتی ہے اور نا ہی اتنا وقت ہے کہ بیٹھ کر گپیں ہانکی جائیں۔

نئی، پرانی کتابوں کے نام اپنی طرف کھینچتے ہیں لیکن جب پڑھنی نہیں ہوں گی تو لینے کا کیا فائدہ۔ ایک وقت تھا کہ اخبار کا مطالعہ نہیں محاورتاً چاٹنے والی بات تھی لیکن اب سرخیاں دیکھنے کا بھی وقت نہیں ہوتا۔ پھر اپنے آپ کو تسلی دی جاتی ہے کہ شاید ایک وقت ایسا آئے کہ کچھ فرصت میسر ہو تو پرانی محبتوں سے پھر سے رابطے استوار کیے جائیں۔ وقت کے سبک رفتار گھوڑے کی طنابیں کھینچ کر اپنی مرضی کے رخ پر موڑ لیں۔ کسی سرد رات میں کافی یا چائے کا ایک کپ ہو اور ایک اچھی کتاب، اور یہ ڈر نا ہو کہ صبح الارم کی آواز کے ساتھ اٹھنا ہے تو اس سے بڑی عیاشی اور کیا ہو سکتی ہے۔ تو ان دل پذیر ساعتوں کے انتظار میں یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ یہی بہت ہے کہ وہ لگن اور شوق آج بھی کہیں دل کے نہاں خانوں میں زندہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).