آپ سیکس اوراس سے جڑے ہوئے مسائل کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟


سیکس تخلیق اور محبت کا ایک خوبصورت اظہار ہوتا ہے یہ ایک ایسا خوبصورت عمل ہے جو دو افراد کے درمیان مکمل رضامندی سے سیلیبریٹ ہوتا ہے۔ اگر اس تعلق میں زور زبردستی ہو تو پھر یہ عمل گھناؤنا، ظلم اور ریپ کہلاتا ہے۔ جس کی کسی بھی مہذب معاشرے میں اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یہ تعلق ایک خوبصورت تخلیق کی عکاسی کرتا ہے۔ بطور فرد چاہے عورت ہو یا مرد یہ اس کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ہمارے والدین کے ملاپ سے ہی خاندانی سلسلہ آگے بڑھتا ہے اور صدیوں سے یہ تسلسل یونہی چلتا آ رہا ہے۔

مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب روایتی معاشروں میں اس قسم کے اہم موضوع پر بات چیت سے احتیاط برتی جاتی ہے اور اس حقیقیت کو چھپانے کے لیے بچپن سے بچوں کے ذہنوں میں عجیب وغریب قسم کی پہلیاں فیڈ کی جاتی ہیں۔ اس روایتی پر اسراریت کی وجہ سے بچے کی شخصیت کے اندر ایک ٹیڑھا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ بچہ معصوم ہوتا ہے اور اس کا ذہن ایک خالی سلیٹ کی طرح ہوتا ہے۔ بچپن میں جو ابتدائی سکیچ ماں باپ اس ننھی سلیٹ پر نقش کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ بہت پختہ انداز میں اس کی ابتدائی فطرت کا حصہ بن جاتا ہے۔

ہمارے مشرقی والدین کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ہمارے بچوں کو ان روایتی پہلیوں کی بجھارت کتنی مہنگی پڑتی ہے۔ ہمارے والدین بچوں کے ذہنوں کے گرد پراسراریت کا ایسا ہالا بن دیتے ہیں جس کے پار دیکھنے کی کوشش میں اس کی زندگی کے قیمتی ماہ و سال بیت جاتے ہیں اور شعور کی بنیادی سیڑھی پر قدم رکھنے کی جستجو کرتے کرتے اس کے بالوں میں چاندی اتر آتی ہے۔ ہم اپنے بچوں کو بچپن سے ہی روایتی بلنکرز پہنا دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ادھر ادھر دیکھ نہیں پاتے اور ان کا زاویہ نگاہ سکڑ کر محدود ہوجاتا ہے۔

ہم اپنے بچوں کو زندگی کا ابتدائی سبق پڑھانے کی ابتداء اپنے گھر سے نہیں کرتے۔ والدین بچوں کو نہیں سکھاتے کہ اپنی بہنوں کے ساتھ کیسے برتاؤ کرنا ہے۔ جب بھائی پہلی دفعہ اپنی بہن کو تھپڑ مارتا ہے اور ماں باپ بیٹے کی سائیڈ لینا شروع کردیتے ہیں تو اسی دن سے بگاڑ کا وہ تسلسل شروع ہو جاتا ہے جس کا اثر معاشرے پر پڑتا ہے۔ وہی بچہ جب بڑا ہو کر اسی حرکت کی ریہرسل معاشرے میں کرتا ہے تو پھر والدین نظریں چھپاتے پھرتے ہیں۔

معاشرے میں انسانی رشتوں کو کیسے نبھانا ہے اس تربیت کا آغاز والدین کو مکمل دیانت داری کے ساتھ اپنے گھر سے کرنا چاہیے مگر یہ اسی وقت ممکن ہوپائے گا جب ہم اپنے بچوں کے ساتھ سچ بولیں گے اور ان کے جسم کے اندر ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں مکمل آگاہی دینے انتظام کریں گے۔ جس طرح سے کھانا پینا انسان کی بنیادی ضرورت ہے بالکل اسی طرح سے سیکس بھی ایک اہم ضرورت ہے اور اس جبلت کا شائستہ اظہار کا طریقہ بھی آنا چاہیے۔

مغربی معاشروں میں ابتدائی کلاسوں سے ہی بچوں کو سیکس ایجوکیشن دینے کاآغاز کر دیا جاتا ہے تاکہ بچہ اپنے جسم میں ہونے والی تبدیلیوں سے آشنائی حاصل کر کے بہتر انداز میں ڈیل کر سکے۔ جیسے جیسے بچہ گرو کرتا ہے سیکس ایجوکیشن اس کی قدم قدم پر راہنمائی کرتی ہے۔ بلوغت کی عمر تک پہنچتے پہنچتے بچہ نارمل طریقہ سے اپنے جسم کے حوالہ سے وہ سب کچھ جان چکا ہوتا ہے جسے ابنارمل طریقہ سے ہمارے مشرقی والدین بچوں کے ذہنوں میں بطور ٹیبو فیڈ کرتے ہیں۔

مغربی بچوں کی نسبت جب مشرقی بچے بلوغت کی عمر کو چھوتے ہیں تو ان کے سامنے ان کے جسم کی تبدیلیاں بطور ”سرپرائز“ کے سامنے آتی ہیں اور ان تبدیلیوں کو ڈیل کرنے کے لیے انہیں ان لوگوں کا سہارا لینا پڑتا ہے جو ان کے اپنے نہیں ہوتے اور اس طرح سے ان کا معاشرتی ابیوز شروع ہوجاتا ہے اس گھناؤنے جرم کے ذمہ دار وہ والدین ہوتے ہیں جو بچپن سے اس اہم موضوع پر صرف نظر سے کام لیتے ہیں اور بچوں کو مس گائیڈ کر کے ان کو ابنارمل بنا دیتے ہیں۔

اس بات کے پیچھے ان کا یہ مقصد ہوتا ہے کہ جیسے بچہ بڑا ہوگاتو اس کو سیکس کے حوالہ سے خود بخود پتا چل جائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے سماج میں سیکس ایجوکیشن کا کوئی انتظام ہے؟ اس سوال کا جواب ہمیں ایک بڑے ”ناں“ کی صورت میں ملے گا۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے روایتی پنڈت سیکس ایجوکیشن کے راستہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ ہمارے بچے ایک نارمل زندگی جئیں۔ ہمارے مصنوعی اخلاقی ضابطے اور روایتی قدغنیں اس بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ اس اہم موضوع کو کھل کر ڈسکس کیا جاسکے اور ان ظالمانہ رویوں کے نتائج ہم ریپ، گینگ ریپ اور چائلڈ ابیوز کی صورت میں بھگت رہے ہیں مگر گلشن کا کاروبار چلانے میں ہمارے منافقانہ رویے بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے سماج میں آج ہمارے بیٹے اور بٹیاں اپنے حقیقی رشتوں سے بھی محفوظ نہیں رہے۔ والدین کو معاشرتی رویے اپنے بچوں کو سیکھانا ہوں گے۔ ہمیں اپنے بچوں کے سامنے فرسٹریشن اور اٹریکشن کے فرق کو واضح کرنا ہوگا۔ سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کے ساتھ سچ بولنا ہوگا، سچ سیکھانا ہوگا، ورنہ یہ تسلسل یونہی چلتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).