خیبرپختونخوا میں لڑکیوں کی مخلوط تعلیم کے خلاف دھمکی آمیز پمفلٹ تقسیم


تعلیم
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں ایک بار پھر لڑکیوں کی تعلیم نشانے پر ہے۔

صوبے کے ضلع لوئر دیر میں دھمکی آمیز خطوط کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جس میں تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم لڑکیوں کو دھمکی دی ہے کہ ’اگر کالج جانا ہے تو پھر برقعوں کے ساتھ اپنے کفن بھی لائیں۔‘

لوئر دیر میں حال ہی میں ایک پمفلٹ بانٹا گیا ہے جس پر کسی شدت پسند تنظیم کی نہ تو کوئی مہر ثبت ہے اور نہ ہی یہ کسی مخصوص تنظیم کے لیٹر ہیڈ پر تحریر کیا گیا ہے۔ اس پمفلٹ پر موجود تحریر کے مطابق مخلوط نظام والے تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

شدت پسند تنظیم تحریک طالبان کے ترجمان محمد خراسانی نے میڈیا کو جاری کردہ اپنے بیان میں اس خط سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔

خیال رہے کہ کچھ عرصہ قبل تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان پاکستان کے سکیورٹی اداروں کی قید سے فرار ہو گئے تھے۔ وہ خفیہ مقام سے اپنی شدت پسند تنظیم کے حوالے سے تحفظات کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔

پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے اس تنظیم کے خلاف حال ہی میں آپریشن بھی کیے ہیں اور اس تنظیم سے منسلک متعدد شدت پسندوں کو گرفتار بھی کیا ہے۔ وقتاً فوقتاً پاکستان اس تنظیم کے خلاف کارروائی کے لیے افغان حکومت پر بھی دباؤ ڈالتا رہتا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات پر قابو پانے کے بعد اب ایک مرتبہ پھر بعض علاقوں میں تشدد کے واقعات پیش آ رہے ہیں اور دھمکی آمیز پمفلٹ اور خطوط بھی تقسیم کیے جا رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے بعض علاقے اس سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور ان میں سے ایک لوئر دیر بھی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

صوفی محمد اور شدت پسندی کی لہر

’کھانا احسان اللہ احسان کے گھر سے آتا تھا‘

’ناراض‘ طالبان گروہ تحریک طالبان پاکستان میں شامل

چند روز پہلے خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر دیر کے ایک کالج کے باہر ایک پمفلٹ چسپاں کیا گیا تھا، جس میں کہا گیا کہ اگر آج کے بعد یہاں لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہا تو پھر لڑکیاں برقعوں کے علاوہ اپنے ساتھ کفن بھی لائیں۔

بظاہر یہ پمفلٹس کالعدم تنظیم تحریک طالبان کے مقامی کمانڈر کی جانب سے تقسیم کیے گئے ہیں لیکن یہ پمفلٹ سادہ کاغذ پر لکھا گیا ہے۔

لڑکیاں

یہ پمفلٹ پشتو زبان میں ہاتھ سے لکھا گیا ہے، جس پر چند سطریں درج ہیں۔ اس پمفلٹ کے آخر میں حلقہ دیر میدان اور بحکم امیر تحریک طالبان پاکستان لکھا گیا ہے۔

اس بارے میں کالج انتظامیہ کی جانب سے محکمہ تعلیم کے حکام، ضلعی انتظامیہ اور مقامی پولیس کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔ پولیس نے اس بارے میں روزنامچہ درج کرکے تفتیش شروع کر دی ہے۔

شدت پسند تنظیم کے ترجمان کے مطابق ’ہم اس خط سے مکمل برات کا اعلان کرتے ہیں اور صحافی حضرات سمیت تمام شہریوں کو خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے پیغام پہنچانے کا ذریعہ اور طریقہ آپ سب کو معلوم ہے، اس نوعیت کی خبروں پر، جس میں ہمیں بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہو، کان نہ دھریں۔‘

ضلع لوئر دیر کے پولیس افسر عبدالرشید کے خیال میں ’ایسا نہیں ہے کہ یہ کسی کالعدم تنطیم کی جانب سے جاری کیا گیا ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی اور مسئلہ ہے اور اس بارے میں معلومات حاصل کی جا رہی ہیں۔‘

لوئر دیر کے ثمر باغ میں واقع غازی عمارہ خان ڈگری کالج کے عملے کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ کالج میں کل طلبا اور طالبات کی تعداد 1428 ہے، جس میں 60 لڑکیاں ہیں جو بی ایس کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

ایک سرکاری عہدیدار نے بتایا ہے کہ اس دھمکی آمیز خط کے بعد پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اہلکار کالج میں ڈیوٹی دے رہے ہیں جبکہ کالج میں زیر تعلیم تمام طلبا کا ڈیٹا بھی اکٹھا کیا جا رہا ہے۔

لوئر دیر میں کیا ہو رہا ہے؟

اس نوعیت کا یہ پہلا پمفلٹ یا پوسٹر نہیں ہے بلکہ رواں برس اگست کے بعد سے اس طرح کا یہ تیسرا پوسٹر ہے جو منظر عام پر آیا ہے۔ گذشتہ چند ماہ میں تشدد کے متعدد واقعات بھی پیش آ چکے ہیں، جن میں امن کمیٹی اور حکومت کے حمایتی عہدیداروں اور پولیس اہلکاروں پر حملے، سڑک کنارے بم دھماکے اور بھتہ خوری کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔

ان میں جو واقعات نمایاں سامنے آئے ہیں ان میں اس سال یکم ستمبر کو پولیس گاڑی پر دھماکہ خیز مواد سے حملہ کیا گیا تھا، جس میں تین اہلکار زخمی ہوئے تھے۔

اس سے پہلے 11 اگست کو میدان کے علاقے میں پولیس چوکی پر بھی نامعلوم افراد نے حملہ کیا تھا۔

ملا فضل اللہ

اسی طرح مقامی سیاسی رہنما ملک عطاءاللہ کی گاڑی پر نامعلوم افراد نے یکم اکتوبر کو حملہ کیا تھا، جس میں ان کے ڈرائیور ہلاک ہو گئے تھے۔ ایک اور واقعے میں خان بادشاہ نامی شخص کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا لیکن وہ محفوظ رہے تھے۔

خان بادشاہ طالبان کے خلاف مقامی لشکر کی قیادت کر چکے ہیں۔ ان چند ماہ میں تین پمفلٹ سامنے آئے ہیں جن میں ایک کالج کے باہر چسپاں کیا گیا تھا۔

اس سے پہلے منظر عام پر آنے والے پوسٹرز میں سے ایک میں مقامی لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ حکومت کی حمایت سے دور رہیں وگرنہ ان کا انجام اچھا نہیں ہو گا۔

دوسرے پمفلٹ میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ عام شہریوں پر ظلم، مدرسوں اور دیگر مقامات کی بے حرمتی کی گئی ہے اور گرفتار افراد کو ہلاک کیے گئے ہیں، جن کا وہ بدلہ لیں گے۔

یہ پمفلٹ ہاتھ سے پشتو زبان میں لکھے گئے ہیں اور بظاہر یہ پرانے پمفلٹ ہیں کیونکہ ان کے اوپر نام کالعدم تنظیم تحریک طالبان کے سابق امیر حکیم اللہ محسود اور مولانا فضل اللہ کا نام لکھا گیا ہے اور تحریر کے بعد آخرمیں کمانڈر حفیظ اللہ عرف کوچوان کا نام لکھا گیا ہے۔

ماضی میں جب سال 2008 میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دیگر علاقوں کی طرح لوئر دیر بھی متاثر ہوا تھا اور یہ ان شہروں میں سے ایک تھا جہاں اس کی شدت زیادہ محسوس کی گئی تھی۔

ان تشدد کے واقعات میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔

حالیہ واقعات کے خلاف بھی مقامی لوگوں نے احتجاج کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان علاقوں میں امن کے قیام کے لیے کوششیں کی جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp