اصلاح اشد ضرورت


یہ کئی دہائیوں سے ہمارے سماج کی سوچ بن گئی ہے۔ تنقید اور طنز کا نشانہ ہمیشہ معصوم اور پاک دل والوں کو بنایا جاتا ہے۔ اکثر دیکھنے میں آیا کہ میاں بیوی مل جل کر رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر ارد گرد کے افراد ان کے درمیان آگ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہتان لگا کر انہیں الگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ اب فیشن بن گیا ہے کہ کسی پر الزام لگا کر پہلے اس کا گھر بکھیرنا پھر زندگی بھر عورت مرد دونوں کو طعنے دیتے رہنا۔

ضرورت ہے عملی شعور لانے کی جو ہمارے بہت کم گھرانوں میں نظر آتا ہے۔

اس کی کئی زندہ مثالیں موجود ہیں۔ میں محلے یا گلی کوچے میں لوگوں کو بیہودہ گالیاں دیتے ہوئے سنتا ہوں۔ ایسے الفاظ زبان سے ادا کرتے ہیں جو میں سن کر افسوس کرتا ہوں کہ جس زبان سے اللہ پاک کا پیارا نام لیا جاتا ہے، اسی زبان کائنات کی عظیم ہستی نبی پاک ﷺ کا نام لیا جاتا ہے اور ان پر درود پڑھا جاتا ہے۔ ایسی پاک زبان سے غلیظ ترین الفاظ کیسے ادا کیے جاتے ہیں۔

اسی زبان کے غلط استعمال سے نفرت کی آگ سلگائی جاتی ہے آخر کیوں؟

ہم تو ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جس کی ”شرح خواندگی“ 60 فیصد سے زیادہ ہے۔ یعنی تعلیم تو لیکن عملی شعور کا فقدان ہے۔ آخر ایسا کیوں؟ کیا ہم تربیت کرنے میں کمزور ہیں۔ یا عمل کرانے میں پختہ ارادے نہیں رکھتے۔

بچپن سے ہم سنتے آئے کہ خاندانوں کے درمیان دہائیوں سے دشمنی ہے یعنی اس دور میں تعلیم و تربیت اور شعور کی کمی تھی۔ آج تو پسماندہ علاقوں تک ”حکومت وقت“ تعلیم جیسی سہولیات فراہم کر رہی ہے۔

ہم بہتر جانتے ہیں کہ زبان کے بہتر استعمال سے ہی رشتوں میں الفت بڑھتی ہے۔ آج ازدواجی رشتے کے ساتھ ساتھ تمام رشتوں کے درمیان فاصلہ کرانے کی بڑی وجہ زبان کا بڑا کردار ہے۔ الفاظ بہتر انتخاب نہ ہونا۔ پھر لہجہ کا درست نہ ہونا۔ وقت کی مناسبت سے زبان کو قابو نہ رکھنا۔ ان سب کو شعور کو عملی طور ظاہر کرنے اور تعلیم و تربیت کے مطابق خود کو ڈھالنے سے ممکن ہے۔

اسلامی تعلیمات اور اللہ و رسول ﷺ کے احکامات پر عمل کرنا بھی آسان ہو جائے گا۔ کیونکہ زبان کے بہتر استعمال سے ہمارے اندر برداشت کا مادہ بڑھے گا۔

ہم خود سے عہد کریں کہ اپنے اردگرد موجود افراد کی رہنمائی کر کے ان میں شعور پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ تبھی ہمیں خوشگوار ماحول میسر ہو پائے گا۔ انشاءاللہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).