امریکی صدارتی انتخاب 2020 کے نتائج: ڈونلڈ ٹرمپ نے جیت کی دوڑ میں مقدمات کا راستہ اپنا لیا


امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن دونوں نے ہی انتخاب میں برتری کا دعویٰ کیا ہے۔ نتائج میں زیادہ فرق نہیں ہے اور دونوں فریقین قانونی کارروائی کی تیاریاں کر رہے ہیں۔

ٹرمپ وسکونسن، جارجیا، پینسلوینیا اور مشیگن میں ووٹوں کی گنتی کو چیلنج کر رہے ہیں۔

بی بی سی کو ملنے والے نتائج کے مطابق مشیگن میں جو بائیڈن جیت رہے ہیں۔ امریکی میڈیا کے مطابق وہ وسکانسن میں بھی آگے ہیں۔ پینسلوینیا میں ابھی نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔

ان تین ریاستوں میں فتح جو بائیڈن کو کامیابی دلوا دے گی۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم ریاست جارجیا کے کچھ علاقوں میں ووٹوں کی گنتی رکوانا چاہتی ہے۔ یہ ایک اہم ریاست ہے جہاں ابھی تک کسی امیدوار کی حتمی سبقت کے بارے میں نہیں بتایا گیا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم کی جانب سے الزام لگایا گیا ہے کہ چیتھم کاؤنٹی میں رپبلیکن پارٹی کے ایک مبصر نے دیکھا کہ ایک اہلکار ڈاک کے ذریعے تاخیر سے آنے والے 53 بیلٹس کو ان بیلٹس میں شامل کر رہا ہے جو وقت پر پہنچے تھے۔ جارجیا میں صرف ان ووٹوں کو گنتی میں شامل کیا جانا ہے جو الیکشن کے دن شام سات بجے تک پہنچ گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

’دی سکواڈ‘ کے نام سے مشہور یہ چار فاتح خواتین کون ہیں؟

کسی کو واضح برتری حاصل نہ ہوئی تو؟ نتائج سے متعلق چند سوالات کے جواب

ٹرمپ کا امریکی عوام سے دھوکا ہونے کا دعویٰ، سپریم کورٹ جانے کا اعلان

امریکی صدارتی انتخاب: اب تک کوئی فیصلہ کیوں نہیں ہو سکا؟

نئے امریکی صدر کا فیصلہ کِن ریاستوں کے نتائج پر آن ٹھہرا اور کیوں؟

جارجیا ایسی چوتھی اہم ریاست ہے جہاں صدر ٹرمپ نے ووٹوں کو قانونی طور پر چیلنج کیا ہے۔ انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ ایسی جگہوں پر ووٹوں کی گنتی رکوا دیں گے جہاں ان کے خیال میں فراڈ کیا گیا ہے۔ تاہم انھوں نے اپنے دعووں کے بارے میں کوئی شواہد پیش نہیں کیے ہیں۔

میشیگن میں ان کی جانب سے گنتی رکوانے کے لیے مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔ اس ریاست میں بھی بائیڈن کے معمولی سبقت کے ساتھ جیتنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔

پینسلوینیا میں بھی ٹرمپ نے ریاست کے اس فیصلے کو چیلنج کر دیا ہے کہ ایسے ووٹوں کو گنتی میں شامل کیا جائے گا جنھیں الیکش کے دن ڈاک کے ذریعے بھیج دیا گیا تھا لیکن وہ تین دن کے بعد پہنچیں گے۔ ایسے لاکھوں ووٹوں کی گنتی ابھی باقی ہے۔

منگل کو ہونے والے انتخاب میں 120 برس میں سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ 66.9 فیصد رہا۔

جو بائیڈن کو اب تک ساڑھے سات کروڑ ووٹرز کی حمایت حاصل ہے جو کسی بھی صدارتی امیدوار کو حاصل ہونے والی حمایت کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ ٹرمپ کو اب تک چھ کروڑ 72 لاکھ ووٹ ملے ہیں جو انہیں سنہ 2016 میں ملنے والے ووٹوں سے 40 لاکھ زیادہ ہیں۔

صدارتی انتخاب کی یہ دوڑ کورونا وائرس کے باعث خاصی متاثر ہوئی جس کے دوران بدھ کو ایک لاکھ تین ہزار یومیہ کیسز کا نیا ریکارڈ بھی سامنے آیا ہے۔

انتخابی دفاتر کیا کہتے ہیں؟

بدھ کی سہ پہر جو بائیڈن نے رپورٹرز سے کہا تھا کہ جب ’گنتی ختم ہوگی تو ہم فاتح ہوں گے‘۔ ان کا مزید کہنا تھا تھا ’میں امریکی صدر کے طور پر کام کروں گا، صدارت بذات خود ایک محتسب ادارہ نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وہ پنسلوینیا کے بارے میں بہت اچھا محسوس کر رہے ہیں تاہم صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسی ریاست میں جیت کا اعلان ہے جہاں ابھی ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔

صدر ٹرمپ کے اتحادی جیسن ملر کا کہنا تھا کہ اس ہفتے کے آخر تک واضح ہو جائے گا کہ پوری قوم صدر ٹرمپ اور نائب صدر پینس کو مزید چار سال کے لیے منتخب کر چکی ہے۔

بش اور بائیڈن

کیا ٹرمپ اب بھی جیت سکتے ہیں؟

وائٹ ہاؤس تک پہنچنے کے لیے مطلوبہ 270 الیکٹورل کالج کے ووٹوں کے حصول کی دوڑ میں جو بائیڈن کو سبقت حاصل ہے۔ ان کے پاس اب تک 243 ووٹ ہیں جبکہ ٹرمپ کے پاس 214 ووٹ ہیں۔

امریکی صدارتی انتخاب میں ووٹرز ریاستی سطح پر فیصلہ کرتے ہیں نہ کہ انفرادی طور پر۔ ہر امریکی ریاست کے پاس آبادی کے تناسب سے مخصوص الیکٹورل کالج کے ووٹ ہوتے ہیں جن کی کل تعداد 538 ہے۔

اگر ٹرمپ وسکانسن (10 الیکٹورل کالج ووٹ) سے ہارتے ہیں، تو انہیں جارجیا (16 ووٹ)، شمالی کیرولائنا (15ووٹ)، پینلسوینیا (20 ووٹ) سے لازمی جیتنا ہوگا۔ جبکہ برتری بڑھانے کے لیے ایریزونا (11)، نیواڈا (6) سے بھی جیتنا ہوگا۔

صدر ٹرمپ کو جارجیا اور شمالی کیرولائنا میں سبقت حاصل ہے اور نیواڈا میں انتہائی قریب ہیں۔ ٹرمپ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ ایریزونا میں جیت جائیں گے۔

کیا قانونی چیلنجز درپیش ہوں گے؟

ٹرمپ کی الیکشن مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ صدر وسکانسن کی متعدد کاؤنٹیز میں بے قاعدگیوں کے بعد وہاں دوبارہ گنتی کے لیے درخواست دیں گے۔

نامکمل نتائج کے مطابق ٹرمپ اور جو بائیڈن کے درمیان وسکانسن میں ایک فیصد سے زیادہ فرق نہیں ہے اس لیے فریقین یہاں دوبارہ گنتی کے خواہاں ہیں۔

ٹرمپ کی ٹیم نے میشیگن میں بھی ایک مقدمہ دائر کیا ہے کیوں کہ ان کا دعویٰ ہے کہ انہیں ووٹوں کی گنتی کا مشاہدہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

میشیگن کے شہر ڈیٹرائٹ میں بدھ کی شام ووٹوں کی گنتی کے دوران حفاظت کے لیے پولیس کو بلایا گیا تھا کیونکہ مظاہرین ووٹوں کی گنتی دیکھنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ڈیٹرائٹ فری پریس کے مطابق عمارت کے اندر پہلے ہی 200 افراد ووٹوں کی گنتی کی نگرانی کر رہے تھے۔

پولیس اہلکار ٹی سی ایف کی عمارت کی کھڑکیاں ڈھانپ رہے تھے جہاں ووٹوں کی گنتی جاری تھی۔

کیا انتخاب کا فیصلہ عدالت میں ہوگا؟

ٹرمپ کی ٹیم نے پینسلوینیا میں دو مقدمات دائر کیے ہیں جن میں ووٹوں کی گنتی کو ’معنی خیز شفافیت‘ کے حصول تک روکنے کی درخواست کی گئی ہے۔

اس ریاست میں صدر کو تین پوائنٹس کی برتری حاصل ہے تاہم ہزاروں ووٹوں کی گنتی کرنا ابھی باقی ہے۔

ٹرمپ جارجیا میں بھی ووٹوں کی گنتی رکوانا چاہتے ہیں۔ ان کی ٹیم کے مطابق رپبلکن نگرانوں نے جنوبی ریاست کی چیتھم کاؤنٹی میں دیر سے آنے والے 53 بیلٹ بکسوں کو غیر قانونی طور پر دوسرے ووٹوں میں شامل ہوتے دیکھا ہے۔

2016 میں ٹرمپ نے وسکونسن، مشیگن، اور پینسلوینیا میں غیر معمولی فتح حاصل کی تھی۔

منگل کو رات گئے وائٹ ہاؤس سے ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ دوبارہ انتخاب جیت گئے ہیں اور وہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں لے کر جائیں گے۔ انہوں نے اپنے رپبلکن ڈونرز سے اس قانونی جنگ میں مدد کی درخواست کی۔

رپبلکن نیشنل کمیٹی کی سربراہ راہ رونا مکڈینیئل کا کہنا تھا کہ ’لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی، ہم لڑ رہے ہیں۔‘

بائیڈن کی مہم کے سینیئر مشیر باب بوئر کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کی جانب سے قانونی ووٹوں کو غیر موثر قرار دینے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔

امریکہ

دوسرے اہم نتائج کون سے ہیں؟

بائیڈن کی انتخاب کی رات ہی فیصلہ کن کامیابی حاصل کرنے کی امیدیں ٹرمپ کی کڑے مقابلے والی ریاستوں میں اندازوں کے برعکس بہتر کارکردگی کی وجہ سے ماند پڑ گئی تھیں۔

ٹرمپ نے کئی اہم ریاستوں میں کامیابی حاصل کی جن میں ٹیکساس، اوہائیو آئیوا شامل ہیں۔

انھوں نے فلوریڈا میں بھی آسانی سے فتح حاصل کی جہاں کا بائیڈن کے سابق باس اور حامی سابق صدر براک اوباما نے الیکشن مہم کے دوران دو مرتبہ دورہ کیا تھا۔

تاہم جو بائیڈن نے نیو ہیمپشائر اور مینیسوٹا میں اپنے حریف کی تمام تر کوششوں کو ناکام بنا دیا۔

ایگزٹ پول کیا کہتے ہیں؟

کچھ سیاسی تجزیہ کار حیران ہیں کہ ڈیٹا کے مطابق صدر ٹرمپ کے سیاہ فام ووٹرز کی تعداد میں چار سال پہلے کے مقابلے میں 12 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ایگزٹ پول کے مطابق ان کے ہسپانوی مرد ووٹوں کی تعداد میں بھی چھتیس فیصد اضافہ ہوا جب کہ سن 2016 میں یہ 28 فیصد تھے۔

افریقی نژاد امریکی اور لاطینی ووٹ ڈیموکریٹس کے لیے اہم تھے۔

اگرچہ چار سال قبل ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس لے جانے والے ووٹوں میں اب کی بار کمی ہوئی ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ کی سفید فام خواتین میں حمایت بڑھی ہے جو سنہ 2016 میں 47 فیصد تھی اور اس بار 55 فیصد ہے۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32544 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp