مذہبی بنیاد پرستی کا فروغ


13 سالہ آرزو جبراً تبدیلی مذہب کیس کے خلاف پورے ملک میں احتجاج کے نتیجے میں حکومت سندھ اور وفاقی وزیر محترمہ شیرین مزاری کا خصوصی دلچسپی لیناخوش آئند ہے۔ چیف جسٹس آف سندھ ہائی کورٹ کے سوموٹو نوٹس لیتے ہوئے 2 نومبر کی تاریخ مقرر ہوئی اور آئی جی پولیس نے سندھ پولیس کو آرزو راجہ کو بازیاب کرنے کا حکم دیا۔ اور اگلی تاریخ 5 نومبرمقرر کردی گئی۔ تاکہ آرزو راجہ کی عمرکا تعین، جبراً تبدیلی مذہب و نکاح کے عمل کو دیکھا جا سکے۔

2 نومبر جج صاحب کے حکم کے چند ہی گھنٹوں بعد آرزو راجہ کو بازیاب اور اظہر علی کو گرفتار کر لیا گیا۔ لڑکی کو شیلٹر ہوم میں رکھا گیا۔ اس تمام کیس کے دوران پولیس، علما، تجزیہ نگاروں کے تجزیہ، سابقہ تجربات کی روشنی میں اور میڈیا کے کردار نے مسیحی عوام کے اندر شک و شہبات کی لہر کو اور مضبوط کر دیا کہ 5 نومبر کو لڑکی نے جج کے سامنے وہی رٹے رٹائے جملے دھرائے کہ وہ 18 سال کی ہے اور اس نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے اور شادی کی ہے۔

آرزو راجہ کے والدین کی طرف سے ایڈووکیٹ جبران ناصر علی نے نادرا، سکول اور چرچ کا ریکارڈ پیش کیا کہ آرزو کی عمر 13 سال ہے۔ جج صاحب نے 9 تاریخ دیتے ہوئے لڑکی کی عمر کے تعین کے لئے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم صادر فرما دیا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ جج صاحب نادرا کے ریکارڈ اور کاتھولک چرچ کے ریکارڈ کو نہیں مانتی۔ حالانکہ پوری دنیا کاتھولک چرچ کے ریکارڈز کو چیلنج نہیں کرتی۔ صوبائی اور وفاقی حکومت کی کوششوں کے باوجود آرزو راجہ کیس بھی کو کیا پہلے وقوع ہونے والے جبراً تبدیلی مذہب و نکاح کیسز کی طرح جائز قرار دے دیا جائے گا۔

قیاس رائیاں یہ کی جا رہی ہیں کہ کہیں اس کیس پر بھی افسوس اور ماتم کے علاوہ کچھ نہ کیا جائے۔ شاباش ہے سنگھ کمیونٹی پر! جن کی بیٹی بالغ تھی اور اپنی مرضی اسلام قبول کرنے اور شادی کرنے باوجود حکومت کو لڑکی سنگھ کمیونٹی کے واپس کرنا پڑی۔ اس سے مطلب کیا اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہندو اور مسیحی چونکہ کمزور ہیں ان کے ساتھ کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ ایسی صورت میں کیا مذہبی بنیادپرستی کو فروغ نہیں ملتا۔ مسیحی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ پاکستان میں ان سے سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ کیا انہوں نے اس ملک کے لئے قربانیاں نہیں دیں۔ اس کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ نہیں ڈالا؟

جب کسی شہری کو قانون سے انصاف نہیں ملتا تو ریاست اس کی آخر ی امید ہوتی ہے۔ چونکہ فلاحی ریاست ہی وہ سپریم طاقت ہے جس کی ذمہ داری میں تمام شہریوں کا تحفظ اور بہتری ہوتی ہے۔ حکومت کی اولین ترجیح ہوتی ہے کہ ہر شہری کو بلا امتیاز زبان، علاقہ، رنگ، نسل و مذہب تحفظ ملے۔ ہر کسی کواظہار خیال کی آزادی ہو اور وہ امن و سکون کی زندگی گزار کرسکیں۔ آج ہمارے ملک پاکستان میں کسی کی جان و مال اور عزت محفوظ نہیں۔ کیا ریاست پاکستان اس کسوٹی پر پوری اتر رہی ہے کہ پاکستان میں رہنے والے شہریوں کو زندگی کی تمام سہولتیں باہم فراہم ہوں۔

لوگوں کو ان گنت مسائل میں اضافے کے باعث اور انصاف حاصل کرنے کے لئے سٹرکوں پر آنا پڑتا ہے، مگر ریاست کے اقتدار اعلیٰ اپنے منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے رٹو طوطے کی طرح ہر جلسے میں یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ میں کسی کو نہیں چھوڑونگا۔ اس وقت حکومت خود کو بچانے اور اپوزیشن کی تحریک کو دبانے کے لئے ہر حربہ استعمال کر رہی ہے۔ اپوزیشن کے خلاف فوج کارڈ استعمال کرنے اور انہیں انڈیا کے ایجنٹ قرار د ینے کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کو غداری کے سرٹیکیفیٹ دینے میں مصروف ہے۔

وزیر اعظم سمیت حکومت کے حواری وزرا ء اپوزیشن کو کچلنے میں تمام میڈیا کا بھرپور استعمال کر رہے ہیں۔ ملک میں عوام کی فلاح وبہبو د اور ان کے مسائل حل کرنے میں ان کو کوئی د لچسپی نہیں۔ اس وقت حکومت بچاؤ اورچور سپاہی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ باہر کی دنیا کو خوش کرنے کے لئے اقلیتوں کے نمائندوں کو سلیکٹ کر لیا گیا ہے۔ اور حکومت میں بیٹھے یہ بے زبان و مظلوم مسیحی نمائندے کسی تھنک ٹینکر کا انتظار کر رہے ہیں۔

جو انہیں انگلی پکڑ کر بتائے کہ اقلیتوں کی کمسن لڑکیوں کا قبول اسلام اورنکاح کی شرح میں اضافے کو روکنے کے لئے انہیں کیا کرنا چاہیے۔ اقلیتوں کے تحفظ کا بل پاس نہیں ہو رہا۔ اس وقت اقلیتوں پر مشکل وقت ہے۔ ان کی لڑکیوں کو غائب کر دیا جاتا ہے اور وہ تھانے میں رپورٹ کرنے جاتے ہیں تو پولیس ان کے ہاتھوں میں تبدیلی مذہب اور نکاح نامہ تھما دیتی ہے۔ مذہب تبدیل کرنے والی لڑکی کو پولیس ایسا پروٹوکول دیتی ہے جیسے اس نے بہت ہی اچھا کام کیا ہے۔

آرزو کیس میں جج صاحب بغیر لڑکی کا برتھ ریکارڈ دیکھے اسے اغوا کنندہ کے ساتھ یہ کہہ کر بھیج دیتے ہیں کہ لڑکی بالغ ہے۔ اور اس نے اپنے پورے ہوش و حواس میں اوراپنی سے مرضی سے اسلام قبول کیا اور نکاح کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیر مسیحیوں کے حوصلے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ انہیں ملک یا صوبوں کے قانون کی پاسداری یا احترام نہیں۔ نہ ہی نکاح کرنے والوں کو میرج ایکٹ سے کوئی آگہی ہے۔ لڑکیوں کے اغواہ کے ایسے واقعات میں کسی حد تک مسیحی والدین بھی قصور وار ہیں جو غیر اقوام سے تعلق رکھنے والوں کو اپنے گھروں میں گھسنے دیتے ہیں اور اپنی بچیوں پر نظر نہیں رکھتے۔ اور یہ خوبصورت بچیوں سے مراسم بڑھا کر انہیں ورغلا لیتے ہیں۔

ایسے واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ مسیحی قوم نے پورے پاکستان میں احتجاج کیا اور اوورسیز سے بھی بین الاقوامی دباؤڈالا گیا۔ بلاول بھٹو، سیاسی لیڈرز، سول سوسائٹی کی کوششوں اور ہیومن رائٹس کے علمبردار ایڈووکیٹ جبران ناصر علی اور خود سندھ ہائی کورٹ کے چیف جٹس کے سوموٹو نوٹس لینے سے ہائی کورٹ کے دو ججز نے 2 نومبرکو سندھ آئی جی پولیس کو لڑکی بازیاب کرنے اور لڑکی اور لڑکے کو 5 نومبر کو کورٹ میں پیش کرنے کا حکم دیا۔

اور 9 نومبر کو میڈیکل بورڈ کی رپورٹ جس سے آرزو راجہ کی عمر کے تعین ہو گا، ہائی کورٹ آف سندھ شنوائی کرے گی۔ ذہن میں بہت سارے سوال اور شک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں۔ کہ کیا اب صرف یہی راستہ رہ گیا ہے کہ ظلم جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو لوگوں سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ کیا پاکستان میں انصاف حاصل کرنے کا یہی ایک حل ہے۔ ایک بات واضح ہے کہ اس طرح کے واقعات مذہبی بنیاد پرستی کو ختم کرنے کی بجائے اس آگ کو اور بھڑکائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).