انتہاپسند کی پہچان کیسے؟


انتہاپسندی کیا ہے؟ یہ ایک عقیدہ، نظریہ اور طرز فکر بھی ہے اور رویہ و طرزعمل بھی۔ ایک جانب کا انتہاپسند دوسری طرف کے لیے عموماً ہیرو ہوتا ہے۔ مختصراً بات کریں تو انتہاپسندی اعتدال اور میانہ روی کا الٹ ہے۔ انتہاپسندی نارمل نہیں بلکہ خلاف معمول اور غیر معمولی سوچ اور رویہ ہے۔ انتہا پسند توازن اور عدل سے محروم ہوتا ہے۔

انتہاپسندی مذہبی ہو یا سیکولر، سیاسی ہو یا غیر سیاسی، نظریاتی ہو یا عملی، معاشرے میں امن و سکون تباہ کرتی اور ظلم و فساد کا باعث بنتی ہے۔ اس کے برعکس جہاں اعتدال اور رواداری کا دور دورہ ہو، وہاں محبت، استحکام اور خوشحالی پھیل جاتی ہے۔

چاہے مذہبی یا سیکولر، سیاسی یا غیر سیاسی، جدید تعلیم یافتہ یا مدرسے سے فارغ التحصیل یا ان پڑھ اور مسلح و غیر مسلح افراد ہوں، گروہ یا ریاستیں اور یا لسانی و نسلی تنظیمیں، انتہاپسند ان سب میں پائے جاتے ہیں۔ کسی میں کم کسی میں زیادہ۔ ہمارے اردگرد بھی موجود ہوسکتے ہیں۔ ان میں کچھ صاف پہچانے جا سکتے ہیں مگر بعض کو سمجھنا اور پہچاننا مشکل ہوتا ہے۔

مگر سچ یہ ہے کہ انتہاپسند ہر جگہ، ہر قوم، ہر معاشرے اور ہر مسلک میں پائے جاتے ہیں۔ اس لیے انتہاپسندی کو کسی مذہب، فرقے، گروہ، پارٹی اور نسلی، لسانی اور علاقائی قومیت سے نتھی کرنا بالکل غلط اور نامناسب ہے۔

انتہاپسندی ایک عالمگیر مسئلہ ہے۔ چنانچہ دنیا کو محبت اور امن کا مرکز بنانے کے لیے انتہاپسندوں کی پہچان، علاج اور کایاپلٹ ضروری ہے۔ اسلام اعتدال اور عدل کا حکم دیتا اور ظلم و انتہاپسندی سے منع کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو امت وسط یعنی معتدل امت کہتا ہے اور انہیں عدل کا حکم دیتا ہے اور کہتا ہے کہ کسی گروہ یا قوم کی دشمنی بھی تمھیں عدل سے اعراض پر مائل نہ کرے۔

اگر کوئی فرد، گروہ یا قوم اپنے ذاتی، گروہی اور قومی مفاد کے لیے، خواہ اللہ کے نام پر ہی سہی، اعتدال اور عدل کی راہ چھوڑتا اور انتہاپسندی اختیار کر کے خود پر یا کسی اور پر ظلم کرتا ہے تو اللہ اس کے عمل سے بری ہے اور اسلام میں یہ پسند نہیں کیا جاتا۔ اس کے باوجود مگر افسوس ہے کہ ہمارا معاشرہ اعتدال، رواداری اور عدل کا نمونہ بننے سے ابھی کوسوں دور ہے۔ تو کیا آپ انتہاپسندی کو ناپسند اور اعتدال و رواداری کو پسند کرتے ہیں؟ اور کیا آپ انتہاپسند افراد اور گروہوں کی چند نشانیاں جاننا اور ان سے بچنا چاہتے ہیں؟ تو آئیے انتہاپسندوں کی چند نمایاں خصوصیات اور نشانیوں کا ذکر کرتے ہیں۔

انتہاپسند افراد افراط و تفریط سے کام لیتے اور اعتدال و توازن سے محروم ہوتے ہیں۔ اپنے مسلک، گروہ اور رہنما کی محبت و حمایت ہو یا کسی دوسرے سے نفرت و مخالفت، یہ اس میں نارمل، معتدل اور متوازن سوچ اور رویہ نہیں دکھاتے بلکہ انتہا پر نظر آتے ہیں۔ اپنے مسلک، گروہ اور رہنما کی ہر غلطی کے لیے جواز ڈھونڈتے ہیں مگر مخالف کی معمولی غلطی کو بھی پہاڑ اور ناقابل معافی سمجھتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے الفاظ میں ”یہ مچھر چھانتے ہیں مگر اونٹ نگل لیتے ہیں“ ۔

انتہاپسند افراد معاشرے میں تبدیلی و اصلاح کی خاطر پرامن قانونی، آئینی، جمہوری اور مرحلہ وار جدوجہد پر یقین نہیں رکھتے اور خفیہ، مسلح اور پرتشدد تحریک کو واحد حل سمجھتے ہیں اور فوری نتائج چاہتے ہیں۔ یہ لوگ برداشت، وقار، احترام اور دلیل پر مبنی گفتگو نہیں کر سکتے اور ان کی باتیں ہرزہ سرائی، الزام تراشی، بدگمانی، ہیجان، نفرت و تعصب اور تشدد پسندی سے عبارت ہوتی ہیں۔ ان کی زبانیں آگ اگلتی اور فساد و انتشار پھیلاتی ہیں۔

اعتدال سے عاری افراد برداشت اور رواداری کو کمزوری گردانتے ہیں۔ اپنے مسلک اور گروہ کے لیے قانون ہاتھ میں لیتے ہوئے یا تو خود مدعی، وکیل اور منصف بن کر کسی کو ماورائے قانون مار دیتے ہیں یا ایسا کرنے والوں کو ہیرو سمجھتے ہیں۔ جمہوریت کو خلاف شرع سمجھتے ہیں۔ آمروں، انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کے خود ساختہ وکیل ہوتے ہیں۔ کسی ایک مسلک، فقہ اور پارٹی کے سوا باقی سب مسالک اور پارٹیوں کو گمراہ اور قابل نفرت سمجھتے ہیں۔ پرامن بقائے باہمی، برداشت اور حکمت کے بجائے سخت ردعمل، فتویٰ بازی، لعن طعن اور مخالف رائے دینے والوں کو خاموش یا ختم کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔

یاد رہے اعتدال چھوڑنے والے انتہاپسند افراد اپنے اصلی مسائل، اہداف اور لائحہ عمل کی حکمت اور ممکنہ نتائج سے بے خبر یا جزوی طور پر ہی آگاہ ہوتے ہیں۔ یہ جذبات اور ردعمل کی نفسیات کا شکار ہوتے ہیں۔ مخالفین کو جسمانی، ذہنی اور مالی نقصان دوسروں کی جانب سے ملے یا یہ اپنی طرف سے دیں تو اس سے انہیں خوشی اور تسکین ملتی ہے۔

انتہاپسند اپنے رہنماؤں کو معصوم عن الخطا اور نجات دہندہ جبکہ باقی رہنماؤں کو جھوٹے، مکار، چور، ڈاکو، غدار الغرض شیطان مجسم سمجھتے ہیں اور مخالف سیاسی و مذہبی رہنماؤں کی غیر اخلاقی ویڈیوز اور تصاویر شیئر کرتے رہتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں ہمارا انتخابی نظام دھن، دھاندلی، دھونس اور دھوکہ سے عبارت ہے، اس کے نتائج انجینیئرڈ اور ناقابل اعتبار ہوتے ہیں اور یہ امیروں کے مفاد میں اور عوام کے لیے نقصان دہ ہے۔ ان کے بقول ہماری سیاسی جماعتوں پر مافیا کا قبضہ ہے جو اپنی دولت کے ذریعے قیادت کے قریب آتے، پارلیمان اور کابینہ کے رکن بنتے اور پھر بدعنوانی کرتے ہیں۔ جب سوال کیا جائے کہ پھر کیا کیا جائے تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ یہاں خونی انقلاب کے بغیر کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی اور یہ کہ جب تک یہاں چوکوں میں چند ”بڑے“ پھانسی نہیں چڑھائے جاتے تب تک حالات ایسے ہی رہیں گے۔

میانہ روی چھوڑنے والے لوگ دلائل کے ساتھ کسی شخص، عمل یا واقعے تک اپنی رائے محدود رکھنے کے بجائے اکثر جنرلائزیشن کرتے اور سویپنگ ریمارکس دیتے ہیں مثلاً یہ کہ اجی چھوڑیں سب لوگ جھوٹے، بددیانت اور مفاد پرست ہیں۔ یہ سارے میڈیا کو دجالی اور جھوٹا اور سارے اینکر پرسنز کو بکاؤ مال اور ضمیر فروش سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سارا عدالتی نظام اور جج بھی پیسوں کے عوض خریدے جا سکتے ہیں۔ یہ سیاسی کارکنان کو یوتھیا، پٹواری وغیرہ اور مخالف سیاسی و مذہبی رہنماؤں کو کھلاڑی، اناڑی، ڈیزل، جھوٹے، چور اور ڈاکو جیسے برے ناموں سے پکارتے ہیں۔

اعتدال چھوڑنے والے افراد ہر وقت سازشی نظریات پھیلاتے رہتے ہیں۔ ہر دہشت گردی کے پیچھے انہیں اغیار کے ہاتھ نظر آتے ہیں۔ کہتے ہیں مسلمانوں اور کافروں کے درمیان جنگ جاری ہے مگر ہمارے حکمران اس جنگ میں اغیار سے ملے ہوئے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو ان کی مضحکہ خیز باتوں کو نہ مانے اسے غیرملکی ایجنٹ اور گمراہ قرار دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).