مذبوحی


چند محاوروں اور فلموں کی بدولت قصائی کا لفظ ہمارے ذہنوں میں شقی القلبی اور سفاکی کا تصور اجاگر کرتا ہے۔ تاہم میرا ذہن اس قسم کے تصور سے پاک ہے۔ سبب یہ ہے کہ ہمارے محلے میں ایک قصائی خاندان آباد ہے جس کا ہر فرد شرافت اور وضع داری کا نمونہ ہے۔ چار بھائی ہیں اور چاروں اپنے خاندانی پیشے سے وابستہ ہیں۔ انہیں کوئی عار نہیں ہے۔

یہ لوگ اپنے گھر میں صبح صبح دو یا کبھی کبھی تین جانور ذبح کرتے ہیں اور گوشت کو پاس والے محلے میں لے جا کر اپنی کرائے کی دکان میں رکھتے ہیں۔ شام تک سارا مال بیچ کر یہ لوگ اپنے گھر لوٹ آتے ہیں۔ اور سکھ چین کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔

ہمارے بچپن میں بکرے اور مرغ کا گوشت اس فراوانی کے ساتھ دستیاب نہیں تھا۔ لہٰذا ہمارے یہاں کوئی مہمان آیا ہوتا تو ایک دن پہلے ہی ان لوگوں کو اطلاع بھجوا دی جاتی تھی کہ آدھ کلو کلیجی چاہیے ہوگی کل صبح۔

دوسرے دن صبح صبح چھ اور سات بجے کے درمیان ہم دونوں بھائیوں میں سے کوئی ایک ان کے گھر پہنچ جاتا اور کلیجی خرید لاتا۔ اس کے بعد وہ شاہ گنج محلے کا رخ کرتا اور مسجد کے قریب والی حلوائی کی دکان سے جلیبی لے آتا۔ اور یوں ناشتہ میں مہمان کی تواضع موری روٹی، آلو کی بھجیا کے ساتھ ساتھ کلیجی اور جلیبی سے کی جاتی۔

گیارہ بجے کے قریب ہم میں سے کوئی ایک ان کی دکان سے گوشت خرید لاتا۔ اکثر اوقات ہانڈی کا الگ اور قیمے کا الگ۔ ہمیں اپنے پڑوس کے محلے میں اپنے محلہ دار کی دکان سے اتنا اچھا گوشت مل جایا کرتا تھا کہ ہم لوگوں کو شہر میں موجود کیل خانہ جانے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔

گنی بوٹیاں اور مپے شوربے میں ہم بھائی بہنوں کی غذا اور تغذیہ کا سامان موجود ہوتا تھا۔ اصول یہ کارفرما تھا کہ قصاب کے تقاضے سے بہتر ہے کہ گوشت نہ کھایا جائے۔ کہا تو یہ فارسی میں جاتا تھا مگر میں محاورہ بھول گیا۔

والد ہمارے ایک سکول میں ٹیچر تھے۔ یہ ایک اقلیتی ادارہ تھا۔ مہینوں تنخواہیں نہیں آتی تھیں۔ بچوں کی جمع فیس میں سے اساتذہ کو تھوڑا تھوڑا بطور قرض مل جایا کرتا تھا۔ اس سے ہمارے گھر کے اوپری اخراجات پورے ہوتے تھے۔ باقی کھاتے پڑتے تھے۔ دھوبی، گوالا اور کرانا والے کو تین تین یا کبھی کبھی چار چار مہینے پر ایک ساتھ پیسے دیے جاتے تھے۔ انہیں بھی اطمینان رہتا تھا کہ پیسے آخر جائیں گے کہاں۔ علاوہ اس کے یک مشت ایک بڑی رقم ہاتھ آنے سے ان لوگوں کا بھی کوئی بڑا کام نکل جایا کرتا تھا۔

ہاں ایک بات بتاتا چلوں کہ جن لوگوں کے یہاں ہمارا کھاتا ہوتا وہ نقد دے کر سامان لینے والوں کے مقابلے میں ہم بھائیوں کے ساتھ بالکل سوتیلے والا بیوہار کرتے تھے۔ کئی کئی دفعہ یہ لوگ ہمیں گھنٹے گھنٹے بھر دکان کے باہر کھڑا رکھتے تھے۔ ایک دو مرتبہ تو ہمارے والد نے ان لوگوں کو جم کر جھاڑ پلائی تھی۔

ایک وقت آیا جب ہمارے والد کی تنخواہ ہر مہینے پابندی کے ساتھ آنے لگی۔ اور ہماری والدہ، جنہیں ہمارے والد نے یونانی میڈیسن پڑھوایا تھا، کی سرکاری نوکری ہو گئی یونانی میڈیکل افسر کے پوسٹ پر ۔ تب جا کر کھاتا بہی کا یہ سلسلہ ختم ہوا۔ اور پھر خدا نے وہ دن بھی دکھائے جب گوشت اس فراوانی کے ساتھ دسترخوان کی زینت بننے لگا کہ ہم لوگ تنگ آ کر پکار اٹھتے ؂

ہر روز وہی گوشت وہی گوشت وہی گوشت
اک دن تو کبھی دال پکانے کے لیے آ (محمد یوسف پاپا)

قصائی برادران ہم دونوں بھائیوں کے ساتھ خاص طور سے مروت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ یہ چاروں ہمارے والد کے شاگرد رہ چکے تھے۔ سب سے بڑے بھائی جن کا نام رحمت تھا شیریں کلامی اور منکسرالمزاجی میں اپنے بھائیوں سے بھی آگے تھے۔

رحمت بھائی کے جملے آج بھی ہمارے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔ ”بابو، ذرا پیچھے ہو جائیے گا۔ ہڈی ٹوٹ کر اڑے گی تو چوٹ لگ سکتی ہے“۔ ”بابو، اس کونے میں چلے جائیے۔ یہاں پہ چھینٹ پڑ جائے گی۔“ ”اے، ماسٹر صاحب کے بیٹے کو پہلے دے کر چلاؤ۔“

رحمت بھائی کے گھر کا جغرافیہ کچھ اس طرح تھا۔ ایک طرف تنگ گلی والا راستہ تھا جدھر سے ہم لوگ ان کے گھر میں داخل ہوتے تھے۔ اندر پہنچنے پر دو طرف رہائشی کمرے نظر آتے تھے اور تیسری جانب جانوروں کا ڈیرہ تھا جس میں دو یا شاید تین ناندیں پڑی ہوتی تھیں جانوروں کو چارا پروسنے کے لیے۔ اس کے باہر ڈھیر سارے کھال جمع ہوتے رہتے تھے جنہیں دباغت کے کارخانوں میں بھیجنے کے لئے جمع کیا جاتا، تاکہ یہ چمڑے میں تبدیل ہو سکیں۔ جانوروں کو حلال کرنے، کھال اتارنے اور مختلف حصوں کو الگ الگ کرنے کا کام صحن میں انجام دیا جاتا تھا۔

اکثر اوقات تجسس مجھے وقت سے تھوڑا پہلے ہی وہاں لے جاتی۔ میں ساری کارروائی بغور دیکھا کرتا۔ اس پورے عمل میں مجھے تو کہیں کوئی سفاکی یا بدمذاقی نظر نہیں آتی تھی۔ مجھے تو یوں لگتا جیسے یہ کوئی آرٹ ورک ہے اور یہ چاروں بھائی آرٹسٹ یا فن کار ہیں۔

یہ لوگ انتہائی نفاست اور عرق ریزی کے ساتھ سارا کام انجام دیتے تھے۔ چھرے کی نوک کے ہلکے ہلکے ضرب اور پانی کے چھڑکاؤ کے ساتھ پوست اتاری جاتی۔ شکم چاک کر کے انتڑی پچونی نکالی جاتی اور اسے ایک کونے میں دھر دیا جاتا۔ کلیجی، دل اور گردے کو دھو کر ایک سینی پر ڈالا جاتا۔ اور پھر ران الگ، سینہ الگ، سری الگ۔

چاروں بھائی اکثر بنیان پہنے رہتے تھے اور اپنی لنگی کے اوپری حصے کو اپنی اپنی کمر کے اطراف اینٹھ اینٹھ کر باندھ لیتے تھے۔ اس طرح یہ لوگ چھینٹ سے بچتے اور پیر پھنس کر گرنے سے بھی۔ ساتھ ہی کمر کے اطراف اچھا خاصابٹوا سا بن جاتا جس میں روپے پیسے، کھینی کی ڈبیا، چابی کے گچھے وغیرہ بآسانی سما جاتے تھے۔

بقرعید کے موقع پر یہ لوگ درجنوں جانور لایا کرتے تھے۔ ہمارے بہت سارے محلہ داران بھائیوں سے جانور خریدتے اور انہی لوگوں سے اپنے جانور ذبح کرواتے اور گوشت بنواتے تھے۔ اس طرح یہ قصائی برادران نہ صرف محلے والوں کی رزق کا سامان بہم پہنچاتے تھے بلکہ ان کے پل صراط پار کرنے کا انتظام بھی کرتے تھے۔ گویا ہمارے محلے میں ان لوگوں کا وجود سر تا سر رحمت تھا۔

جب بھی میں شاہ گنج محلے میں رحمت بھائی کی دکان پہ جاتا تو دو لوگوں کو اکثر وہاں موجود پاتا۔ سید نوشاد علی اور مجتبیٰ خان۔ یہ دونوں ہمارے محلے کی معزز شخصیتیں تھیں۔ دونوں حضرات گوشت شناسی میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ انہیں گوشت خوری کا بڑا طویل تجربہ تھا۔ رحمت بھائی ان کے ساتھ بڑی عزت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ انہیں اپنے بازو والی بنچ پر بٹھاتے اور کئی کئی دفعہ چائے منگوا کر پلواتے تھے۔ یہ دونوں حضرات خریدے ہوئے گوشت کے ساتھ ساتھ دوچار بوٹیاں اور ایک دو چبنی ہڈی منگنی میں لے کر وہاں سے اٹھتے تھے۔

جانور کے جسم کے مختلف عضلات کے نام اور کس عضلے یا حصے کا استعمال کس پکوان کے لیے زیادہ موزوں اور مناسب ہے یہ میں نے انہیں لوگوں کی زبان سے سن کر سیکھے۔

”یار رحمت، پٹھ کے گوشت کا کوئی جواب نہیں۔ کتنا جلد گل جاتا ہے۔ اور منہ میں جاتے ہی حلوہ ہو جاتا ہے۔ کیا لذیذ اسٹیک اور پسندے تیار ہوتے ہیں!“ مجتبیٰ خان نے ایک روز فرمایا۔
”جی بھیا۔“ رحمت بھائی نے کہا۔
”یار! آج نکال دو ڈھائی کلو۔“
”جی بھیا۔“ کندھے کے قریب ٹنگے گوشت کے ٹکڑے پر چاپڑ چلاتے ہوئے رحمت بھائی بولے۔

ایک روز میں رحمت بھائی کی دکان پر گیا تو سید نوشاد علی معیاری اور صحت بخش گوشت کی صفات کچھ یوں بتا رہے تھے : ”بھائی اچھا گوشت لال رنگ کا نہیں ہوتا ہے بلکہ سرخی مائل ہوتا ہے۔ اس میں ایک خاص قسم کی چمک ہوتی ہے۔ اس کی چربی پیلا پن لیے ہوئے یا لجلجی نہیں ہوتی ہے، بلکہ سفید اور قدرے سخت ہوتی ہے اور آسانی سے نکل آتی ہے۔ اور ہاں معیاری گوشت میں ایک خاص طرح کی خوشبو بھی پائی جاتی ہے۔“

ہمارا قصاب کی دکان پہ جانا یوں بھی مفید ثابت ہوتاکہ گوشت پہچاننے اور کھانے کے متعلق ہماری معلومات میں اضافہ ہوتا رہتا تھا۔

قیمہ، کوفتہ، کباب اور روسٹ بنانے کے لیے لوگ ران کا گوشت لے جاتے۔
”رحمت، مقدم نکال دو ڈھائی کلو۔“ سید نوشاد علی نے کہا۔
”جی بھیا۔“ ہمیشہ کی طرح رحمت بھائی بولے۔
”یار رحمت آج چانپ کھانے کا دل ہے۔ سینے اور پٹھ میں سے دے دو تین کلو۔“ مجتبیٰ خان نے کہا۔
”جی بھیا۔“

دکان پر علیک سلیک، ”جی بھیا“ اور ”جی بابو“ کے علاوہ شاید ہی کوئی لفظ یا فقرہ میں نے رحمت بھائی کی زبان سے سنا ہو۔

”رحمت، ڈکر کا گوشت نکال دو ایک کلو۔“ ایک بزرگ شخص بولے۔
”جی۔“
”رحمت بھائی، قورمے کے لیے ایک کلو نکال دیجئے اور آدھ کلو ران کے گوشت کے پارچے بنا دیجئے۔“
”جی بابو۔“
”رحمت بھائی، بوٹی ذرا چھوٹی چھوٹی کاٹیے گا۔“ ایک نوجوان گاہک نے کہا۔
”جی بابو۔“

”ارے پریشان مت ہو۔ رحمت بالکل برفی کی طرح بوٹیاں بناتا ہے۔“ وہاں پہ موجود مجتبیٰ خان نے مسکراتے ہوئے کہا۔

رحمت بھائی کے چہرے پر بھی ایک خفیف مسکراہٹ کھیل گئی۔
”رحمت، چھیچھڑے اچھی طرح نکال دینا۔ اور ہڈی کم ہی رکھنا۔“ ایک صاحب بولے۔
”جی بھیا۔“
”رحمت بھائی، چبنی ہڈی بھی دے دیجئے گا۔“ ایک خریدار بولا۔
”جی بابو۔“

ایک دن دکان میں سید صاحب کہنے لگے : ”گوشت کھانا ایک فطری عمل ہے۔ یہ مہذب ہونے کی نشانی بھی ہے۔ فطرت نے ہمارے منہ میں ایسے دانت دیے ہیں جن کا کام گوشت کھانے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ اور یہ مہذب اور متمدن ہونا ایسے ہے کہ ہم نے گوشت بنانے اور پکانے کوایک فن میں تبدیل کر دیا ہے۔ انواع و اقسام کے لذیذ سالن ہم کھاتے اور کھلاتے ہیں۔ گوشت کا کاروبار دنیا میں اربوں کھربوں روپیے کی انڈسٹری بنا ہوا ہے۔ اور ہاں یہ گوشت جو ہم کھا رہے ہیں یہ لحمیہ یا پروٹین کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ایک بات اور غور طلب ہے کہ اگر انسان گوشت نہ کھائے تو ماحولیات کا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔“

اس پرزور تقریر نے میرے ساتھ ساتھ وہاں پہ موجود تمام لوگوں کے دل میں گوشت خوری کی دھاک جما دی۔ اگر کسی کے دل میں گوشت خوری کے متعلق ذرا برابر بھی شک و شبہ رہا ہوگا تو وہ ضرور کافور ہو گیا ہوگا۔

میں تو گوشت خوری کے جذبہ سے ایسا سرشار ہوا کہ اگر کوئی سبزی خور اس وقت مجھے مل جاتا تو میں اس کے منہ پھاڑ کر اس کے ان دانتوں کی نشاندہی کرتا جو بقول سید صاحب قبلہ خاص گوشت خوری کے لئے ودیعت کیے گئے ہیں۔

گوشت خوری پر ایمان افروز اور مدلل تقریر کے بعد سید صاحب، رحمت بھائی سے مخاطب ہوئے : ”یار رحمت! ٹھنڈ بہت بڑھ گئی ہے۔ ہندی میں اسے گلنگ کہتے ہیں۔ ہڈی ہڈی میں ٹھنڈ سرایت کر گئی ہے۔“

”جی بھیا۔“
”یار، آج پایے اور بونگ دے دو۔ نہاری ہی اس ٹھنڈ کا توڑ ہے۔“
”جی بھیا۔“

”بھئی رحمت، پایے اور بونگ کل میرے لیے رکھ دینا۔ آج گردن اور شانے کا گوشت دے دو۔ شوربے والا سالن کھایا جائے گا آج۔“ خان صاحب نے فرمایا۔

”جی بھیا۔“
”رحمت بھائی، چری تیار ہو رہی ہے کیا آج کل؟“ ایک گاہک نے دریافت کیا۔
”نہیں بابو۔“
”رحمت، بٹ اور چستہ ہے؟“ ایک روز ایک صاحب نے استفسار کیا۔
”جی بھیا۔“

”نکال دو۔ خالہ کے گاؤں سے چاول کا آٹا آیا ہے۔ بٹ کے ساتھ چاول کے آٹے کی روٹی کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ کیوں رحمت؟“
”جی بھیا۔“
”رحمت بھائی، مغز ہے؟“ ایک خریدار نے پوچھا۔
”جی بابو۔“

ہمیشہ کی طرح ایک دن پھر میری ڈیوٹی لگی کلیجی لانے کی۔ پھوپھا جان اور پھوپھی جان آئے ہوئے ہیں اپنے گاؤں سے۔ میں پیسے اور تھیلے لے کر گھر سے نکلا۔ رحمت بھائی کا مکان میرے گھر سے بمشکل چالیس قدم پہ ہے۔ جب میں ان کے گھر کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ بہت سے لوگ جمع ہیں۔ اداسی بکھری پڑی ہے۔ دو دو، تین تین لوگ حلقہ بنا کر آپس میں دھیمے دھیمے لہجے میں باتیں کر رہے ہیں۔

اسی بیچ میری نظر احتشام پہ پڑی۔ مرلی گراؤنڈ میں ہم لوگ کرکٹ اور فٹ بال کھیلا کرتے ہیں۔
”احتشام، کیا بات ہے؟“
”ارے۔ رحمت بھائی گزر گئے۔“
” اوہو۔ ان۔ ۔ ۔“

”کچھ دن پہلے گوشت کاٹتے وقت ان کی ایک انگلی کٹ گئی تھی۔ شاید گینگرین ہو گیا تھا اور پھر انفیکشن زیادہ پھیل گیا۔“

مجھے تو سکتہ سا لگ گیا۔ میں تھوڑی دیر گم صم کھڑا رہا۔ پھر میں وہاں سے رخصت ہوا۔

افسردگی اور اضمحلال نے مجھے آ لیا تھا۔ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا ہوامیں اپنے گھر کی طرف بڑھ رہا تھا کہ میری نظر سید نوشاد علی اور مجتبیٰ خان پر پڑی۔ یہ لوگ آپس میں محو گفتگو تھے۔ ”بھیا، آخر جانوروں کا صبر کہاں جائے گا؟“ ”صحیح بات ہے۔ ان کی بھی تو بددعا ہوتی ہے۔“ ان کی باتیں میری سماعت سے ٹکرائیں۔ اچانک مجھے سڑے ہوئے گوشت کا بھبکا محسوس ہوا۔ ایسی سڑانڈ کہ خدا کی پناہ۔ مجھے لگا جیسے دماغ کی نسیں پھٹ جائیں گی۔ مجھے ابکائی آنے لگی۔ گھٹن کا احساس ہونے لگا۔ میں تیز تیز قدم بڑھاتا ہوا وہاں پر سے بھاگا۔

پہلے بھی ان حضرات کو میں نے رحمت بھائی کی دکان کے باہر بولتے سنا تھا کہ ”قصائی اپنے باپ کا بھی نہیں ہوتا ہے۔ کتنا ہی اچھا گوشت دے، اس میں سے دو چار بوٹی ضرور مار لے گا۔“ اس روز ان لوگوں کی بات سن کر میں بڑی بدمزگی سے دوچار ہوا تھا لیکن آج تو مذبوحی ہو گئی۔

گھر پہنچ کر میں نے پانی سے اپنے ہاتھ دھوئے۔ اور پھر میں نے گوشت کھانا اور گوشت کی دکان پر جانا چھوڑ دیا۔

فیصل ہاشمی، بہار، ہندوستان
Latest posts by فیصل ہاشمی، بہار، ہندوستان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).