سلام یا مرتبے کا اظہار


’السلام علیکم سر‘ ہسپتال کے کار پارک میں گاڑی سے نکلتے ہی وہاں کے اردلی نے ہاتھ سر پر رکھتے ہوئے کہا۔ میں نے جواب دیا اور ہاتھ بھی سر تک لے گیا۔ تاہم جب میں گاڑی سے اپنا بریف کیس نکالنے لگا تو وہ دوڑ کر آیا اور میرے ہاتھ سے لینے لگا۔ میں نے نرمی سے انکار کیا لیکن وہ مصر رہا کہ میرا سامان میرے ساتھ ہی لے جائے گا۔ آخر کار میں نے سختی سے منع کیا اور اپنا بریف کیس ہاتھ میں لے کر وارڈ روانہ ہوا۔ میرے پہلے پہلے دن تھے۔

یہ ان دنوں کی بات ہے کہ میں تازہ تازہ انگلینڈ سے آیا تھا اور ابھی ایک ترقی یافتہ قوم کی اخلاقیات کے زیر اثر تھا۔ چند لوگوں کے سوا ہسپتال کا زیادہ تر سٹاف مجھے نہیں جانتا تھا۔ چنانچہ اندرونی گیٹ پر اردلی نے روکا۔ میرے حلیے کو اوپر نیچے دیکھا اور میرے ہاتھ میں بریف کیس دیکھ کر میڈیکل ریپ سمجھ بیٹھا۔ ہاتھ دراز کر کے دوائیوں کے سیمپل مانگے۔ میں ہنس پڑا اور اپنا تعارف کروایا۔

وقت گزرتا گیا اور میرے ساتھی مجھ پر ہنستے رہے کہ چند دنوں میں مجھے ان عادات سے افاقہ ہو جائے گا۔ تاہم میں نے بھی ضد پکڑی رکھی اور آج تک اپنا سامان خود اٹھانے کی کوشش کرتا رہا ہوں۔ تاہم میں اپنی ہار اس طرح سے مانتا ہوں کہ میں کسی کو اس پر راضی نہیں کر سکا ہوں کہ اپنے سے نیچے ملازمین کو معمولی معمولی کاموں کے لئے زحمت نہ دیں۔ سرکاری ملازمت میں تو افسروں کے لئے سب سے بڑی کشش یہی ہے کہ اپنے ماتحتوں پر رعب جھاڑ سکتے ہیں۔

صبح خراماں خراماں گیارہ بجے دفتر میں تشریف آوری اور کار پارک سے لے کر دفتر تک ہر جگہ سلام اور سلوٹ جس کا جواب شاذ و نادر ہی دیا جاتا ہے۔ اپنے سے نچلے درجے کے ملازمین سے ہاتھ ملانا شان کے مناسب نہیں سمجھا جاتا۔ اسلام آباد میں تو بڑے لوگوں کے ڈرائیوروں میں بھی یہ تفریق ہوتی ہے کہ وہ کس درجے کے افسر کے ڈرائیور ہیں۔ حتیٰ کہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اگر گریڈ بیس کے ڈرائیور نے صاحب کی گاڑی سائے میں پارک کی ہے اور اس دوران گریڈ بائیس کے افسر کی گاڑی آن رکی تو ڈرائیور نے رعب جھاڑ کر سایہ دار جگہ خالی کروا لی۔ یہی جاگیر دارانہ ذہنیت اور اس مصنوعی ذات پات کی فضا میں رہنے والے افسروں کی وجہ سے آج ہمارے تمام سرکاری محکموں میں سب سے زیادہ ملازمتیں کلاس فور کی ہیں۔ اور ان کا کام محض افسروں کی خوشنودی حاصل کرنا ہی ہوتا ہے۔

میں کار سرکار میں مداخلت کر نہیں سکتا اور ہماری افسر شاہی کی جو عادتیں ٹریننگ کے دوران ڈالی جاتی ہیں، ان کو مستقبل میں ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ تاہم اچھے اچھے پرائیویٹ اداروں میں بھی یہی قباحت سرایت کر گئی ہے۔ میں صبح جب جاتا ہوں تو ہسپتال میں سیکورٹی گارڈ اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر پہلے ہاتھ سر پر رکھ کر سلام کرتا ہے اور پھر میری گاڑی کا دروازہ کھولنے کی کوشش کرتا ہے۔ میرے ہاتھ میں اگر فائل بھی ہو تو لے کر میرے ساتھ میرے دفتر تک لے جانے پر تیار ہوتا ہے۔

ذرا آگے بڑھتا ہوں تو صفائی والا اپنا جھاڑو چھوڑ کر ہاتھ سر پر رکھتا ہے۔ دروازے پر کھڑے گارڈ، ملاقاتیوں کی تلاشی چھوڑ کر مجھے سلام کرنے لگتے ہیں۔ اور میں دل ہی دل میں کڑھ رہا ہوتا ہوں کہ مجھے صبح ہی صبح سلام دین بنا دیا ہے۔ کار پارک کے دروازے سے لے کر اپنے دفتر تک سلاموں کے جواب دیتے دیتے میرا منہ سوکھ جاتا ہے۔ وارڈ میں دوسرا ہی نظارہ ہوتا ہے۔ جونہی میں یا کوئی اور ڈاکٹر داخل ہوتا ہے، تمام سٹاف اپنی کرسیوں سے کھڑا ہوجاتا ہے۔

بے شک ان میں سے کوئی مریضوں کے نہایت اہم نوٹس پڑھ رہا ہو، یا ریکارڈ میں انٹری کر رہا ہو، کمپیوٹر آپریٹر کسی مریض کے ٹسٹ ریزلٹ تلاش کر رہا ہو، یا نرس آنے والی شفٹ کے لئے ہدایات لکھ رہی ہو۔ اب اگر اس وارڈ میں مختلف ڈاکٹرز دس منٹ کے وقفے سے بھی راؤنڈ کے لئے آتے ہوں تو جتنا کام کا حرج ہوتا ہوگا، آپ آسانی کے ساتھ اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

اگر یہ واقعی سنت کے طور پر ہو رہا ہو، تو میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھوں گا۔ لیکن ٹھہرئیے۔ سلام کے تو اپنے آداب ہیں۔ اونچے مرتبے والے کو نچلے مرتبے پر سلام کرنے کی ہدایت ہے۔ حتیٰ کہ سوار کو پیدل پر، کھڑے کو بیٹھے ہوئے شخص پر سلام کرنے کی ہدایت ہے۔ کسی معزز سے معزز شخصیت کے لئے بھی کھڑا ہونا مناسب نہیں۔ سلام کے معنی سلامتی اور امن کے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ سلام دعا آپس میں بھائی چارے کی علامت ہے اور معاشرے کی ضرورت ہے۔

تاہم جب اس کو مرتبے اور رعب کا ذریعہ بنایا جائے تو اس کا سارا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ اگر سلام کا کرنا صرف عام لوگوں اور کمی کمین کا فریضہ ہی رہ جائے تو اس معاشرے کی بربادی مسلم ہوجاتی ہے۔ اگر کسی بڑے شخص کو سلام کا جواب دینا اپنی حیثیت سے کم لگ رہا ہے یا وہ صرف سر کے اشارے سے جواب دیتا ہے تو یہ اسلام کا اصول نہیں۔ سلام کا جواب ہمیشہ سے بہتر طریقے سے رہا ہے۔ اور ہمارے بزرگ ہمیشہ السلام علیکم کا جواب وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ سے ہی دیتے تھے۔ اسی طرح اداروں میں اگر ضرورت ہے تو یہ کہ بلند درجے والا سلام میں پہل کرے۔ نہ کہ چھوٹے عہدوں کے ملازمین کو فرائض کے ساتھ ساتھ سلام کا پابند بھی بنایا جائے۔

ذرا اس نام نہاد مسلمان معاشرے سے باہر نکل کر دیکھیں تو آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں۔ ائرپورٹ پر خاکروب صفائی کر رہا ہو تو مجال ہے کہ ملک کے سربراہ کے لئے بھی رک کر سلام کرنے میں پہل کرے۔ ہسپتال میں وارڈ بوائے ہو تو آپ نے سلام کیا، اس نے جواب دیا لیکن مجال ہے جو کرسی سے اٹھ کھڑا ہو۔ ہر شخص کی اپنی ڈیوٹی متعین ہے جسے وہ جاب ڈسکرپشن کہتے ہیں۔ دفاتر میں چائے لانے کے لئے کوئی الگ اردلی کی گنجائش نہیں۔ ہر شخص اپنے لئے اٹھ کر چائے بناتا ہے اور پینے کے بعد پیالی دھو کر اپنی جگہ پر رکھتا ہے۔ اسے کہتے ہیں نظام۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما اپنے شیشے کے گھر سے باہر نکلیں اور یہ نظام بنائیں۔ جب جرمنی کی چانسلر دوسرے ممالک کے رہنماؤں کے لئے خود چائے بنا سکتی ہے تو کیا ہمارے لیڈر یہ وی آئی پی کلچر نہیں چھوڑ سکتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).