بڑھا ہوا پیٹ اور بڑھی ہوئی مہنگائی کم نہیں ہوتی


موجودہ حکومت کو یہ کریڈٹ تو جاتا ہے کہ گزشتہ پونے دو سالوں میں مہنگائی کے ان تمام چھوٹے بڑے جنوں کو جو بوتلوں میں پڑے خواب غفلت کے مزے لوٹ رہے تھے ایک ایک کو کان سے پکڑ کر باہر نکال دیا ہے۔ ملک میں بے تحاشا مہنگائی پر حکومت پر سخت تنقید ہو رہی ہے لیکن حکومت تنقید سے نہیں گھبراتی، بلکہ عوام کو بھی کہتی کہ ”آپ نے گھبرانا نہیں ہے“ حکومت کا تنقید کے بارے میں سیاسی عقیدہ یہ ہے کہ ”یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے“ سیاست دان ستر سالوں سے غریب سے وعدہ، وعدہ کھیل رہے ہیں نہ غریب کو روٹی ملی، نہ کپڑا ملا، نہ مکان ملا، نہ ملک میں معیشت کا پہیہ چلا، نہ تعلیمی نظام بہتر ہوا، نہ پولیس غیر سیاسی ہوئی، نہ عدالتی نظام میں بہتری آئی اور، نہ طبی سہولتیں میسر ہوئیں، رہ گئے موجودہ حکومت کے کیے ہوئے وعدے جن میں ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھر، پولیس میں اصطلاحات، تو میری پاکستانیوں سے گزارش ہے کہ آپ کو سیاست دانوں نے پچھلے ستر سالوں میں کچھ نہیں دیا آپ ”بے فکر“ ہو جائیں موجودہ حکومت بھی کچھ نہیں دینے والی، کٹھن زندگی کا پل صراط آپ نے اپنے زور بازو پر عبور کرنا ہے۔

مغربی ممالک میں قائم فلاحی ریاستوں میں شہریوں کو ملنے والی تعلیم و صحت کی سہولتوں کو دیکھ کر خوش فہمیوں کے چراغ مت جلائیں، شہد اور دودھ کی نہریں نہیں بہنے والی، وعدے وفا نہیں ہوں گے، حکمرانوں کی تقریروں میں سبز باغوں کا جمعہ بازار یوں ہی لگا رہے، قوت خرید بڑھے گی نہیں، مہنگائی کم نہیں ہوگی ویسے بھی طویل انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ بڑھا ہوا پیٹ اور بڑھی ہوئی مہنگائی کم نہیں ہوتی ”، حکومت پنجاب نے بعض شہروں میں“ سہولت بازار ”کا اہتمام کیا ہے جہاں عوام کو سستے نرخوں پر اشیاء خورد و نوش مل سکیں گی، یہ سہولت بازار گنجان آباد شہروں کے لیے ناکافی ہیں، دالیں، چینی، اور بیسن مارکیٹ سے ایک دو روپے سستے فروخت کرنے سے مہنگائی کی ہاتھوں جاں بلب غریب عوام میں زندگی کے آثار نہیں پیدا ہونے والے۔

پچھلے پونے دو سالوں میں اشیاء خورد نوش کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔ اب قیمتوں میں ایک آدھ روپے کی رعایت دینے سے غریب کی قوت خرید میں اضافہ ممکن نہیں ہے۔ ناخن کاٹنے سے مردے کا وزن کم نہیں ہوتا، اگر حکومت عوام کو واقعی ہی مہنگائی کے جہنم سے نکالنا چاہتی ہے تو مہنگائی کی ماں اور مہنگائی کا باپ میری مراد پیٹرول اور بجلی ہے کے نرخوں میں اتنی ہی کمی کرے جتنی روپے کی قدر میں ہوئی ہے تب جا کر غریب کو سکھ کا سانس لینا نصیب ہوگا، بات چونکہ قوت خرید، مہنگائی اور غربت کی ہو رہی ہے تو اسی مناسبت سے ایک پرانا لطیفہ سن لیں خیر یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ لطیفہ پرانا نہیں ہوتا اگر سننے والا نیا ہو سو نئے دوستوں کی خدمت میں پرانا لطیفہ حاضر ہے۔

گھر آئے ہوئے مہمان کو آدھا پاؤ قیمہ دکھاتے ہوئے میزبان نے پوچھا اس میں کیا ڈالیں آلو یا مٹر؟ میزبان نے قیمے کو دیکھتے ہوئے مہمان کو کہا میرا خیال ہے اس میں قیمہ ہی ڈال لیں، آج کل متوسط طبقے کی قوت خرید اس قد ر کم ہو گئی کہ گھر آئے ہوئے مہمان سے، میزبان ایک پاو قیمہ دکھاتے ہوئے پوچھنے پر مجبور ہے کہ اس میں کیا ڈالیں؟ حکومت کی کوشش ہے کہ وہ اشیاء کی قیمتوں میں توازن برقرار اس سلسلے میں حکومت کو پہلی کامیابی حاصل ہو گئی ہے۔ حکومت نے ڈالر کو ٹماٹر کی قیمت کے برابر کر دیا ہے، سونے کے انڈوں کی قیمت مرغی کے انڈوں کے بر ابر ہو گئی ہے، البتہ بجلی کے نرخ کم ہونے بجائے مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں یوں لگتا ہے کہ واپڈا نے آسمانی بجلی کا بل بھی گھریلو صارفین کے بلوں میں ایڈجسٹ کر دیا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).