آپ مشترکہ خاندانی نظام کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟


انسان ایک معاشرتی حیوان ہے اور مل جل کر رہنا اس کی فطرت میں شامل ہے۔ ایک خاندان سے کئی خاندان بنتے ہیں اور انسانوں کا یہ تسلسل کروڑہا سالوں سے یونہی چلتا آ رہا ہے۔ روایتی معاشروں میں مشترکہ خاندانی نظام کا تصور پایا جاتا ہے۔ یہاں پر ایک ماں باپ کے چھے یا سات بچے شادیاں ہونے کے باوجود ایک ہی چھت کے تلے اپنی زندگیاں بسر کرتے ہیں اور باپ اس فیملی سسٹم کا مکمل کنٹرولر ہوتا ہے۔ اس بندوبست کے پیچھے یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ ”اتفاق میں برکت ہوتی ہے“ اور مشترکہ نظام میں ایک دوسرے کا سہارا بننا آسان ہوتا ہے مگر اس خاندانی نظام سے جڑی ہوئی خرابیوں کا جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی جاتی۔

اس نظام کی خرابی کا ثبوت ہمارے ملک کی کورٹ کچہریاں ہیں جہاں ہزار ہا کیس زمین جائیداد کے جھگڑوں کی وجہ سے رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔ ان جھگڑوں کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جب فیملی نظام کا کنٹرولر یعنی باپ دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے تو اس کے فوری بعد تمام بھائی آپس میں جائیداد کی تقسیم پر گتھم گتھا ہو جاتے ہیں اور اس جھگڑے کا نتیجہ خاندانی تباہی کی صورت میں نکلتا ہے۔ زبردستی کے رشتوں کو زیادہ دیر تک باندھ کر نہیں رکھا جاسکتا۔

صدیوں کے تسلسل کے بعد آج جس جدید دنیا کا ہم حصہ ہیں اس میں ”انفرادیت“ کو اولین حیثیت حاصل ہے اسی لیے مغرب میں جب بچہ جوان ہوجاتا ہے تو ماں باپ اس کو اپنی مرضی کے ساتھ جینے کا حق دیتے ہیں اور جہاں راہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے وہ اس کا بھرپور ساتھ بھی دیتے ہیں۔ شخصی آزادی کے اس تصور کو ابھی ہمارے مشرقی معاشرے میں پوری طرح سے تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ ہم ابھی تک لاعلم ہیں کہ پرائیویسی کیا ہوتی ہے؟ کسی بندے کی پرسنل سپیس کیا ہوتی ہے؟

ہمارے سماج میں دوسروں کی نجی زندگیوں میں تاکنے جھانکنے کا بہت زیادہ چلن ہے۔ میں یہاں پر اس اہم موضوع کے حوالہ سے ”ان سرچ آف پیس“ کے ساتویں پروگرام کا خلاصہ پیش کرنا چاہوں گا جس میں ڈاکٹر خالد سہیل اور ڈاکٹر کامران احمد نے اس موضوع پر شاندار ڈسکشن کی۔ ڈاکٹر سہیل کا کہنا تھا کہ خاندان کیا ہوتے ہیں؟ جس میں ہم پیدا ہوئے یا وہ خاندان جسے ہم خود بناتے ہیں؟ اس پس منظر کے تناظر میں انہوں نے ایک کانفرنس کا حوالہ دیا۔

اس کانفرنس میں تین دن تک اسی بات کو ڈسکس کیا گیا کہ خاندان کی تعریف کیا ہوگی؟ انہوں نے اس موضوع پر تقریباً 50 کے قریب تعریفیں یعنی تصورات اخذ کیے۔ ان کا ماننا تھا کہ آشرم یا اولڈ ہوم سینٹر میں جو مل کر کھانا کھاتے ہیں وہ بھی ایک خاندان کہلاتے ہیں۔ ڈاکٹر کامران کا کہنا تھا کہ مشرق کے مشترکہ خاندانی نظام اور مغرب کے الگ خاندانی نظام کی اپنی اپنی خوبصورتی اور اہمیت ہے لیکن بات صرف خاندانی رشتے اور ذمہ داریاں نبھانے کی نہیں ہے بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ آپ اپنے خاندان میں کوالٹی ٹائم کتنا انجوائے کرتے ہیں؟

کیا آپ مشترکہ خاندانی نظام میں رشتوں کو سیلیبریٹ کر رہے ہیں؟ اگر آپ کوالٹی ٹائم گزار رہے ہیں تو پھر مشترکہ نظام میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ ڈاکٹر سہیل نے اپنے فیملی بیک گراؤنڈ کو ڈسکس کرتے ہوئے کہا کہ میرا ننھیال مذہب کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے جبکہ ددھیال کے لوگ کافی وسیع الذہن، ادیب اور فلسفی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ننھیال کے ساتھ میرا جذباتی رشتہ ہے جبکہ ددھیال کے ساتھ ایک طرح سے انٹلیکچول قسم کا رشتہ ہے اور انہوں نے اسی رشتے کو بہت حد تک انجوائے کیا اور خود بھی غیر روایتی راستے کا انتخاب کیا۔

فیملی بیک گراؤنڈ کے تناظر میں ان کا کہنا تھا کہ جو بچے غیر روایتی ذہن رکھتے ہیں ان کو اپنی روایتی فیملی میں سپورٹ نہیں ملتی تو ان کو چاہیے کہ وہ اپنے سکول، کالج، سوسائٹی اور فیملی میں ایک دو لوگ ایسے چنیں جن کے ساتھ وہ اپنا تخلیقی تعلق قائم کرسکیں تاکہ وہ لوگ اس کو انسپائر کر سکیں۔ ڈاکٹر کامران کا کہنا تھا کہ روایتی فیملی سسٹم میں والدین کو اپنے بچوں کے شوق اور رجحانات کا علم ہونا چاہیے اور ان کو ان رجحانات کے مطابق مکمل سپورٹ کرنی چاہیے۔

والدین کو سوچنا چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنے مطابق نہیں بلکہ بچوں کے رجحانات کے مطابق سپورٹ کرتے ہوئے ان کی راہنمائی کریں تاکہ ان کے بچے کوہلو کے بیل کی طرح اپنی زندگیاں بسر نہ کریں۔ والدین کو اپنی سوچ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ روایتی دادا، دادی اور ماں باپ والے کردار سے باہر آ کر اپنے بچوں کو آج کی ضرورت کے مطابق سپورٹ کریں۔ ڈاکٹر سہیل کا کہنا تھا کہ میری نظر میں مغربی ماں باپ نے اس حقیقت کو جان لیا ہے کہ جب ان کا بچہ جوان ہو جائے تو وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کا اہل ہوجاتا ہے اور اسی لیے مغربی والدین اپنے نوجوان بچوں کی زندگیوں میں بلا وجہ مداخلت نہیں کرتے جبکہ مشرقی معاشروں میں والدین نے ابھی اس حقیقت کو پورے طریقہ سے تسلیم نہیں کیا ہے۔

ان کی نظر میں چاہے بچہ کسی بنک کا صدر ہی کیوں نہ بن جائے ان کی نظر میں بچہ ہی رہتا ہے۔ ڈاکٹر کامران کا کہنا تھا کہ مغرب میں اس عمل کو ”individuation“ کہتے ہیں اور ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے بچے اکثر اوقات اپنے فیصلے آزادانہ طور پر لینے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں مگر اس کے برعکس ہمارے والدین ان کے فیصلوں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ہمارے بچے گھونسلے سے نکلنے اور پرواز کرنے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں جبکہ دوسری طرف ماں باپ ”نافرمانی“ کا ٹائیٹل لگا کر ان کو پیچھے کی طرف دھکیل رہے ہوتے ہیں۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ والدین کچھ بھی give upنہیں کرنا چاہتے۔ والدین بعض دفعہ اپنے بچوں کی زندگیوں پر اس قدر اثر انداز ہو جاتے ہیں کہ مزاحیہ سی صورتحال جنم لینے لگتی ہے۔ اس گفتگو کا نچوڑ یہ ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کو آزادانہ فیصلے کرنے کی اجازت دینی چاہیے اور ان کی آزادی کا مکمل خیال رکھنا چاہیے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سپیس اور پرائیویسی سب کا بنیادی حق ہے اور ہمیں اس کا احترام کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).