تفسیر قرآن ”ضیاء القرآن“ پر ایک نظر


قرآن مجید، فرقان حمید ابدی اور سرمدی تعلیمات کا مجموعہ اور احکام خداوندی کا مآخذ ہے، جو ہر دور میں پیدا پونے والے مسائل کا حل کامیابی کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ یہ وہ اعجاز قرآن ہے جس سے دوسری الہامی کتب بھی محروم ہیں۔ یہ اللہ جل جلالہ کا اپنے آخری نبیﷺ کے ذریعے بندوں سے کیا گیا آخری خطاب ہے۔ اس لیے علمائے امت کی یہ اہم ذمہ داری رہی ہے کہ وہ اس عظیم کتاب کے ترجمہ اور تفسیر کے ذریعے لوگوں کی راہنمائی فرمائیں۔

اسی لیے دور رسالت سے لے کر عصر حاضر تک ہر دور میں علماء نے قرآن مجید کے ترجمہ و تفسیر کو اپنا نصب العین بنایا۔ کلام الہٰی کی ہر آیت یکتا و بے مثل ہے۔ ترتیب اور شستگی الفاظ، بیان کی خصوصیات، سورتوں کا غیر معمولی آغاز و اختتام، آیات کی روانی، بے نظیر افکار رسانی، لفظ و معنی کا حسین امتزاج سب کچھ کیف آور اور وجد آفریں ہے۔ کلام اس قدر جامع اور وسیع الامعنی ہے کہ کسی بھی زبان میں اس کے حتمی ترجمہ اور تفسیر کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا۔

الفاظ و آیات کی مفصل تفسیر تو ممکن ہے لیکن ان کے معنی و مفہوم کا ہمہ جہت اور مکمل احاطہ کرنا ناممکن ہے۔ تاہم گزشتہ چودہ صدیوں میں سو سے زیادہ زبانوں میں قرآن حکیم کے تراجم ہوئے ہیں اور کم و بیش دو صدیوں میں صرف اردو زبان میں ایک ہزار کے قریب اردو تراجم قرآن ہو چکے ہیں۔ محققین کہتے ہیں کی اردو زبان میں پہلا ترجمہ مولانا شاہ رفیع الدین دہلوی کا 1776 ء اور دوسرا شاہ عبدالقادر کا 1790 ء کا ہے۔ کئی محقق یہ بھی کہتے ہیں کہ سب سے پہلا اردو ترجمہ 1131 ء میں ”تفسیر ہندی“ قاضی محمد معظم سنبھلی کا ہے۔

اس کے بعد 1185 ء میں ”تفسیر مرادیہ“ کے نام سے مراداللہ انصاری نے کیا۔ تاہم زیادہ تر محقق شاہ رفیع الدین کے ترجمے کو ہی پہلا اردو ترجمہ قرار دیتے ہیں۔ اس کے بعد چراغ سے چراغ جلتا گیا۔ اردو میں قرآن حکیم کے ترجمہ تفسیر کی شاندار روایت کی حامل ایک قابل تحسین کاوش جسٹس پیر کرم شاہ الازہری کی تفسیر ”ضیاءالقرآن“ ہے۔

پیر محمد کرم شاہ الازہری جنہیں ان کے عقیدت مند ضیاءالامت کے لقب سے یاد کرتے ہیں، ایک نابغۂ روزگار اور ہشت پہلو شخصیت تھے۔ ایک جید عالم دین، عظیم مفسرقرآن، منفرد سیرت نگار، صاحب نظر صوفی تھے۔ دینی تعلیم و تدریس، صحافت، قانون، اور مختلف شعبۂ ہائے زندگی میں انہوں نے یادگار نشانیاں چھوڑی ہیں۔ وہ یکم جولائی 1918 ء کو بھیرہ شریف میں پیدا ہوئے۔ سات سال کی عمر میں سکول داخل ہوئے۔ 1936 ء میں گورنمنٹ ہائی سکول بھیرہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔

1941 ء میں بی اے کیا اور اسی سال اورینٹیل کالج پنجاب یونیورسٹی میں عربی میں داخلہ لیا اور اس کے امتحان میں پنجاب بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ 1951 ءمیں مصر کی عالمی شہرت یافتہ جامعہ الازہر چلے گئے اور وہاں سے ایم اے اور ایم فل نمایاں پوزیشن کے ساتھ پاس کیا۔ ساڑھے تین سال بعد الازہر سے اعلیٰ تعلیم کی تکمیل کے بعد واپس وطن تشریف لائے تو اپنے آبائی علاقہ میں ایک دارالعلوم کی بنیاد رکھی اور اس کے نصاب کو معاصر دنیا کی ضروریات اور چیلنجز کے تناظر میں ازسر نو ترتیب دیا۔ انہوں نے اپنی خانقاہ کو روحانی مشاغل کے ساتھ علمی مرکز بھی بنایا۔ 1971 ء میں پیر کرم شاہ صاحب نے دینی صحافت کے میدان میں رجحان ساز رسالے ”ضیائے حرم“ کا اجراء کیا۔ 1974 ء میں ضیاءالقرآن پبلی کیشنز لاہور کا ادارہ قائم کیا۔ 1970 ء کے عشرے سے ذرا پہلے یا اس کے شروع میں ہی انہوں نے اپنی تفسیر قرآن

” ضیاءالقرآن“ کا آغاز کیا۔ یہ تفسیر قرآن 19 سال کی مسلسل شب و روز سعی سے مکمل ہوئی۔ ”ضیاءالقرآن“ 3500 صفحات اور 5 جلدوں پر مشتمل ہے۔ یہ اپنی متعدد خوبیوں کی بنیاد پر عصر حاضر کی اہم ترین تفسیر قرار دی جاتی ہے۔ بلاشبہ یہ تفسیری ادب میں ایک شان دار اور منفرد اضافہ ہے۔

اس تفسیر قرآن کو ہمارے تفسیری ادب و روایت میں اہم ترین تفاسیر کا خلاصہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ پیر کرم شاہ الازہری نے بطور خاص تفسیر ابن کثیر، بیضاوی، قرطبی، اور تفسیر مظہری سے استفادہ کیا ہے۔ بعض مقامات پر تفسیر رازی اور تفسیر روح المعانی سے مباحث اخذ کیے گئے ہیں۔

”ضیاءالقرآن“ میں ضیاءالامت نے اپنی تفسیر میں قرآن مجید کے متن کے مرکزی پیغام کے قریب رہنے کی کوشش کی ہے اور علمی موشگافیوں پر مبنی تفسیری مباحث سے اجتناب کیا ہے۔ اس میں پیر صاحب نے عام قاری کے فہم کو بھی پیش نظر رکھا ہے اور علماء کے ذوق کی آبیاری بھی کی ہے۔

جسٹس پیر کرم شاہ نے اس تفسیر میں قرآن حکیم کے اہم الفاظ کی لغوی اور نحوی تحقیقات کا بھی خاص اہتمام کیا ہے۔ یہ فہم قرآن کے لیے بڑی اہمیت کی حامل تحقیق ہے بلکہ یہ لسانی ذوق کی دلیل بھی ہے۔

ضیاءالامت کی تفسیر ضیاءالقرآن علمی مضامین کے ساتھ ساتھ روحانی مباحث سے بھی مملو ہے۔ وہ جا بجا اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہیں اور تلقین غزالی کا اسلوب اختیار کرتے نظر آتے ہیں۔ اس اعتبار سے پیر کرم شاہ الازہری نے ایک صاحب نظر شیخ طریقت کے طور پر قرآن کے متن سے تصوف کی علمی اساس کو واضح کیا ہے۔ ایسے مقامات پر وہ بالعموم تفسیر مظہری اور روح المعانی کے علاوہ علامہ اسماعیل حقی کی روح البیان سے بھی استفادہ کرتے ہیں۔ مزید برآں تصوف کی اصطلاحات، بنیادی کتب نیز مولانا روم اور علامہ اقبال کے اشعار سے بھی تصوف کے اپنے مضامین کو واضح کرتے ہیں۔

فہم قرآن کے لازمی تقاضوں میں سے ایک لسانی مہارت اور ادبی ذوق بھی ہے۔ اس حوالے سے پیر کرم شاہ کی منفرد تفسیر قرآن کی ایک اہم خصوصیت مصنف کا اسلوب تحریر بھی ہے۔ الفاظ و تراکیب، معانی و مفہوم، محاورہ و اسلوب، زبان و بیان غرض ہر لحاظ سے نمایاں ہے۔ اب کا اسلوب تحریر لسانی حقائق و مفاہیم سے آشنائی اور فصاحت و بلاغت کا شاہکار ہونے کے ساتھ ادبیت سے بھی بھرپور ہے۔ پیر صاحب کی لسانی مہارت و قدرت بیان پر مرزا غالب و علامہ اقبال کا اثر نمایاں نظر آتا ہے۔ ان کی اردو نہایت شستہ و رواں دواں نظر آتی ہے۔

ضیاءالقرآن کی مذکورہ بالا عمومی خصوصیات کے علاوہ ایک اہم ترین خصوصیت وہ مباحث اور مضامین ہیں، جو عام طور پر تفاسیر قرآن میں نظر نہیں آتے۔ مفسر قرآن پیر صاحب نے قرآنی صورت کو معاصر دنیا کی صورت حال سے جوڑ کر دیکھا ہے اور قرآن پاک کی تفسیر میں عصر جدید کے سوالات کے جواب بھی تلاش کیے ہیں۔ ضیاءالقرآن کی پانچوں جلدوں کے آخر میں مطالب کے عنوان سے مضامین کا انڈیکس دیا گیا ہے اور ان قرآنی آیات کی نشاندہی کی گئی ہے جس کے تحت ان مباحث پر قرآنی نکتۂ نظر پیش کیا گیا ہے۔ اس فہرست مضامین میں ہمیں جہاں اسلامی عقائد و اعمال، توحید و رسالت، قیامت اور اوامر و نواہی نیز احکامات دین کے حوالے سے عنوان نظر آتے ہیں۔ انبیاءاکرام کے قصص، کفار و مشرکین کی خرابیوں، مومنین و متقین کا تذکرہ ہے۔ اصحاب رسول اور اہل بیت اطہار کا تعارف ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ کے موضوعات ہیں وہیں کچھ منفرد عنوانات بھی ہیں جو بہت جاذب نظر اور توجہ کھینچنے والے ہیں۔ ان عنوانات پر نظر ڈالنے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عصری فہم و شعور کے حامل صوفی نے قرآن حکیم کی ہدایت کو کن کن زاویوں سے دیکھا ہے۔

1۔ انسان اور اس کی عظمت کا قرآنی تصور
2۔ عورت اور اس کے حقوق
3۔ شریعت اسلامیہ کی امتیازی خصوصیات
4۔ معاشیات
5سیاسیات
6۔ اسلامی اخلاق و آداب

ان عنوانات سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ مفسر قرآن پیر کرم شاہ الازہری معاصر دنیا کے اہم مباحث سے نہ صرف آگاہ تھے بلکہ اس بارے میں قرآن مجید سے اخذ ہدایت کا ایک واضح تصور رکھتے ہیں۔ اگر آپ مذکورہ عنوانات کے تحت پیر صاحب کے بیان کردہ تفسیری نکات کو دیکھیں تو آپ کو خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ پیر صاحب معاشیات و سیاسیات کے معاصر مباحث سے بھی پوری واقفیت رکھتے ہیں اور ان پر قرآنی موقف کو بڑی صراحت اور قابل فہم دلائل سے بیان کرتے ہیں

جسٹس محمد کرم شاہ الازہری نے اپنی تفسیر میں ان مقامات و مسائل کی تفسیر کا بھی خاص اہتمام کیا ہے جن پر مفسرین میں اختلاف پایا جاتا ہے یا جن کی بنیاد پر بریلوی مکتب فکر کی طرف شرک یا بدعت کی نسبت کی جاتی ہے۔ ایسے مقامات و موضوعات پر ضیاءالامت نے قرآن مجید پر براہ راست تفکر سے کوئی رائے قائم کرنے کی بجائے کسی روایت یا تفسیری قول کو ہی اپنی ترجیع کی بنیاد بنایا ہے۔ اس تناظر میں انہوں نے معاصر تفاسیر سے وسعت قلبی سے استفادہ کیا ہے۔

مختصر یہ کہ ”ضیاءالقرآن“ ایک منفرد تفسیر ہے جسے ایک صاحب طرز ادیب، دینی علوم کے ماہر، ایک نابغہ عصر مفکر اور صاحب دل صوفی نے لکھا ہے اور قرآن کی جامعیت و وسعت کو معاصر ذہن کے لیے قابل فہم بنایا ہے۔ ان سب پر مستزاد یہ کہ پیر صاحب، سید کائنات، صاحب قرآن سے گہری قلبی وابستگی رکھتے تھے اس کی جھلک بھی اس کی سطر سطر میں جھلکتی نظر آتی ہے۔ یہ وہ تفسیر ہے جس سے پیر کرم شاہ الازہری کی عظمت بھی نمایاں ہوئی۔ محترم طالب ہاشمی نے اس تفسیر کے بارے بالکل درست تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ

” تفسیر ضیاءالقرآن میں ترجمہ کا انداز بے مثل و بے نظیر ہے اور قرآن پاک کی ایک ایک آیت اور ایک ایک لفظ کو سمجھنے کے لیے نعمت غیر مترقبہ ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس باب میں حق تعالیٰ نے خود پیر کرم شاہ کی رہنمائی فرمائی۔ تفسیر کا انداز بیان نہایت دلنشین اور اثر انگیز ہے اور پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ علم و حکمت کی ایک جوئے رواں ہے جو مسلسل بہہ رہی ہے اور ہر شخص اس سے بقدر ظرف استفادہ کر سکتا ہے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).