جمہوریت بحالی تحریک پر بلاول بھٹو کا تارپیڈو حملہ


بلاول بھٹو زرداری نے بی بی سی اردو کو ایک انٹرویو میں نواز شریف کے بیانیہ سے دست برداری کا اعلان کیا ہے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب وزیر اعظم عمران خان کی نگرانی میں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو ملک دشمن اور غداری کا خطاب دیا جارہا ہے۔ وزیر اعظم نے آج بھی کہاہے کہ لندن میں بیٹھا نواز شریف فوج کو آپس میں لڑانا چاہتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اور پیپلز پارٹی نے نواز شریف کے خلاف مؤقف اختیار کرتے ہوئے ضرور اس بات کا جائزہ لیا ہوگا کہ اس انٹرویو کے بعد ان کا شمار وطن دشمنوں کی بجائے ’محب وطن‘ گروہ میں کیا جائے گا۔
تاہم حب الوطنی کی اجارہ داری کا پرمٹ اس وقت جس قوت کے نام جاری ہے بلاول بھٹو زرداری پی ڈی ایم کی باقی ماندہ دس جماعتوں کے ساتھ مل کر اسے منسوخ کروانے کی جد و جہد جاری رکھنے کا اعلان بھی کررہے ہیں۔ گوجرانوالہ کی جس تقریر سے بلاول بھٹو زرداری کو ’دھچکا‘ لگا تھا، وہ اب ملک میں آئین کی بالادستی اور عوامی حاکمیت کے مطالبے کی علامت بن چکی ہے۔ اس تقریر سے لاتعلقی کا اعلان خواہ کتنے ہی خلوص نیت سے کیا جائے، اس کا صرف ایک ہی مفہوم لیا جائے گا کہ وہ لیڈر یا پارٹی اس واضح، دو ٹوک اور شفاف اصول سے دست برداری کا اعلان کررہی ہے۔ یہ اصول ملک میں آئین کی بالادستی کے احترام سے عبارت ہے۔
سوال یہ نہیں کہ نواز شریف کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا نام لے کر انتخابی دھاندلی اور جمہوریت کش حکمت عملی کا الزام لگانا چاہئے تھا یا نہیں۔ اس وقت سوال یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری جب نواز شریف کے بیانیہ سے برملا اختلاف کا اظہار کرتے ہیں تو اس وقت ملک میں جاری جنگ میں وہ کس گروہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس انٹرویو کے بعد پیپلز پارٹی کے نوجوان قائد کا شمار پی ڈی ایم کے قائدین کی بجائے عمران خان اور ان کے ہمنواؤں کے ساتھ ہوگا۔ عمران خان اور ان کی حکومت نے عسکری قیادت کا وکیل بن کر مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف کو ٹارگٹ کرنے کی ذمہ داری اٹھائی ہوئی ہے۔ بلاول بھٹو کے انٹرویو میں کی گئی باتیں اس مقدمے کو مضبوط کریں گی۔ وہ خواہ پی ڈی ایم کا حصہ ہونے کا اعلان کریں اور اس کے جلسوں میں شریک ہوتے رہیں لیکن نواز شریف کی باتوں سے پہنچنے والے صدمے کا برملا اظہار کرکے بلاول بھٹو نے واضح کیا ہے کہ ان کا دل کس کے ساتھ دھڑکتا ہے۔
اس بے دلی کی متعدد وجوہ ہوسکتی ہیں۔ تبصرہ نگار اور تجزیہ کار اس بال کی کھال اتارتے رہیں گے۔ لیکن سندھ میں اقتدار قائم رکھنے کی مجبوری ان میں سر فہرست ہے۔ اس کے بعد آصف علی زرداری ، فریال تالپور اور ان کے دیگر ساتھیوں کے خلاف نت نئے مقدموں سے نجات ، دوسری مجبوری سمجھی جاسکتی ہے۔ تاہم پیپلز پارٹی کو ان محدودات کا اندازہ پاکستان جمہوری تحریک کا حصہ بننے سے پہلے کرنا چاہئے تھا۔ تحریک شروع ہونے کے بعد اس کے اہم ترین قائد اور مضبوط ترین بیانیہ سے اختلاف کرکے نہ صرف اس تحریک کو کمزور کیا جائے گا بلکہ پیپلز پارٹی کے سیاسی اعتبار کو بھی ٹھیس پہنچے گی۔ پیپلز پارٹی ماضی میں بھی جمہوری ضرورتوں پر مفاہمت سے کام لے کر پاکستان کے مین اسٹریم سیاسی دھارے میں شامل رہنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ آصف زرداری کے ’پاکستان کھپے‘ سے شروع ہونے والے پیپلز پارٹی کے نئے دور میں پارٹی 2008 میں اقتدار حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوئی تھی لیکن اسے اس کی جو قیمت ادا کرنا پڑی، اس کی تفصیلی کہانی بڑے زرداری نے ضرور اپنے برخوردار کو بتائی ہوگی۔
جون 2015 میں ’آپ نے چلے جانا ہے ، ہم نے یہیں رہنا ہے‘ والی تقریر کے بعد آصف زرداری اس وقت تک خود ساختہ جلا وطنی پر مجبور تھے جب تک جنرل راحیل شریف پاک فوج کے کمانڈر رہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے کمان سنبھالنے پر انہیں مبارک باد کا فون کرنے کے بعد ہی آصف زرداری وطن واپس آسکے تھے۔ اس جلاوطنی کے عوامل بھی بلاول بھٹو کے پیش نظر ہونے چاہئیں ۔ اس کے باوجود وہ یہ چاہتے ہیں کہ نواز شریف ان لوگوں کے خلاف ثبوت سامنے لائیں جن پر وہ جمہوری عمل کو داغدار کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ یہ ثبوت مانگنے سے پہلے کیا مناسب نہیں ہوگا کہ بلاول اپنے والد اور پارٹی کے معاون چئیر مین آصف زرداری کے جلاوطنی اختیار کرنے کی تفصیل وجوہات بتا دیں۔ راحیل شریف تو یوں بھی ماضی کا قصہ بن چکے ہیں۔
جنرل قمر جاوید باجوہ سے راہ و رسم بنا کر وطن واپس آنے کے بعد آصف زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت گرانے اور سینیٹ انتخابات میں نقصان پہنچانے میں کردار ادا کیا۔ اس وقت آصف زرداری، نواز شریف کو نیچا دکھانے کے لئے اس حد تک چلے گئے کہ رضا ربانی کو غیر مشروط چئیر مین سینیٹ بنانے کی پیشکش بھی قبول نہیں کی گئی اور صادق سنجرانی کو چئیرمین منتخب کروا لیا گیا۔ یہ حقائق بھی ریکارڈ پر آنے چاہئیں کہ کیا اس کی واحد وجہ نواز شریف سے ناراضی تھی کہ انہوں نے فوج کے خلاف آصف زرداری کی پرجوش تقریر کے بعد کیوں ان سے مقررہ ملاقات منسوخ کردی تھی۔ یا اس تبدیلی قلب کے کچھ دیگر عوامل بھی تھے؟ پیپلز پارٹی تو ابھی تک اپنے ان ہونہار سینیٹرز کا نام بھی سامنے نہیں لاسکی جنہوں نے جنوری 2019 میں صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے میں کردار ادا کیا تھا۔ اس معاملہ پر تو پیپلز پارٹی پوری اپوزیشن کے ساتھ اتفاق رائے کرچکی تھی۔ ا س لئے یہ شکوہ بھی نہیں کیا جاسکتا کہ پہلے سے اس بارے میں اطلاع نہیں دی گئی تھی۔
پیپلز پارٹی اور آصف زرداری کو ان ’خدمات‘ کے باوجود اسی صف میں کھڑا کردیا گیا جس میں نواز شریف اور ان کا خاندان کھڑا ہے۔’ ایک پیج‘ اور عمران خان جیسے ہونہار کی دریافت کے بعد ملکی سیاست میں مسلم لیگ (ن) کے علاوہ پیپلز پارٹی کا وجود بھی غیر ضروری قرار دیا جاتا رہا ہے۔ یہ کریڈٹ کسی اپوزیشن لیڈر یا پارٹی کو نہیں دیا جاسکتا کہ وہ موجودہ حکومت کے لئے چیلنج بنے ہیں۔ اس کا سہرا بلاشبہ عمران خان کے تکبر، ضد،کم فہمی اور تحریک انصاف کی ناقص حکمرانی کے سر باندھا جائے گا۔ پیپلز پارٹی ہی نہیں مسلم لیگ (ن) نے بھی گزشتہ دو سال کے دوران ہر معاملہ پر پارلیمنٹ میں حکومت کے ساتھ دست تعاون دراز کیا ، ہمہ قسم قانون سازی میں ساتھ دیااور اس کے جواب میں وزیر اعظم کی طرف سے کسی تحسین کی بجائے ’چوروں اور ڈاکوؤں‘ کے خطابات سے نوازا گیا۔ اپوزیشن کو کسی پارٹی کی تخصیص کے بغیر دیوار سے لگایا گیا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو مسلسل خوف میں مبتلا رکھا گیا اور اس کے لئے مشکلات پیدا کی گئیں۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ گوجرانوالہ کے جلسہ میں لندن سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے جب فوج کے اعلیٰ افسروں پر براہ راست الزام عائد کئے تو انہیں ’دھچکہ‘ لگا۔ حیرت ہے کہ بلاول اس دھچکے کے بعد نہ صرف جلسہ کے اسٹیج پر بیٹھے رہے بلکہ اسی جلسہ میں انہوں نے طویل تقریر کے ذریعے حکومت مخالف تحریک کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کا عہد بھی کیا۔ پیپلز پارٹی کے چئیرمین کے لئے اگر نواز شریف کا لب و لہجہ غیر سیاسی یا غیر متوقع تھا تو کیا وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی تقریر میں اس کا اظہار کرنا مناسب نہیں سمجھا؟ کیا ان کا فرض نہیں تھا کہ وہ عوام کو آگاہ کرتے کہ نواز شریف کی تقریر آل پارٹیز کی متفقہ قرارداد اور نقطہ نظر سے متصادم تھی۔ اس کے لئے انہیں گلگت بلتستان میں پولنگ سے چند روز پہلے بی بی سی کو انٹرویو دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ اگر جلسوں میں اٹھائے جانے والے نکات کو مشترکہ اجلاس میں طے کرنا ضروری ہے تو کیا اتحاد میں شامل کسی لیڈر پر اعتراض کرنے کے لئے پی ڈی ایم کے قائدین سے رجوع کرنا مناسب نہیں تھا؟
قومی اسمبلی کے اجلاس میں بلاول بھٹو زرداری نے ہی پہلی بار عمران خان کے لئے منتخب کی بجائے ’سیلکٹڈ‘ کا لفظ استعمال کیا تھا۔ ا س کے بعد انہوں نے تواتر سے اس اصطلاح کو استعمال کیا۔ اب یہ پھبتی ملک کے وزیر اعظم کے نام کا حصہ بن گئی ہے۔ بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں بلاول بھٹو زرداری نے اس طرز تکلم یا الزام سےمستثنیٰ ہونے کا اعلان نہیں کیا۔ گویا وہ اپنے اس مؤقف پر قائم ہیں کہ عمران خان منتخب نہیں ہوئے انہیں نامزد کیا گیا تھا۔ نواز شریف سے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے خلاف ثبوت مانگنے سے پہلے انہیں یہ بتا دینا چاہئے تھا کہ اگر عمران خان نامزد ہیں تو انہیں کن لوگوں نے کس کی ہدایت پر ’سلیکٹ‘ کیا تھا؟ دوسروں سے ثبوت مانگنے والے کے پاس اپنے بیان کے دستاویزی شواہد بھی ضرور ہونے چاہئیں۔
یہ بات اپنی جگہ حیرت کا سبب ہے کہ نواز شریف کے خلاف بلاول بھٹو زرداری کے مقدمے کا عنوان یہ ہے کہ انہوں نے چند افراد کے نام کیوں لئے۔ حالانکہ جب سیاست دان انتخاب چوری ہونے پر درپردہ عناصر کا ذکر اصطلاحات میں کرتے ہیں تو انہیں کم حوصلہ ہونے کا الزام دیا جاتا ہے۔ نواز شریف نے یہ حوصلہ دکھایا ہے تو اب ثبوت بھی انہی سے مانگے جارہے ہیں۔ حالانکہ آئی جی سندھ اغوا کیس میں جب جنرل قمر جاوید باجوہ نے بلاول سے فون پر بات کی تھی تو پیپلز پارٹی کے چئیرمین کو ان سے کہنا چاہئے تھا کہ وہ آئی جی اغوا کرنے والوں کا پتہ لگانے کے ساتھ خود پر عائد الزامات کا جواب بھی دے دیں۔ اس طرح ایک پنتھ دو کاج والا معاملہ ہوجاتا۔ یادش بخیر آئی جی کیس ابھی تک تحقیقات کے مراحل سے گزر رہا ہے اور بلاول ’ملزموں ‘ کو سزا ملنے کا انتظار کررہے ہیں۔ وہ سوچ لیں کہ کیا انہوں نے اس کیس میں ملزموں کی نشاندہی کردی ہے؟
پیپلز پارٹی یا بلاول بھٹو اس بات کو تسلیم کریں یا اس سے انکار کریں، یہ حقیقت اس وقت پاکستانی سیاست کا نوشتہ دیوار ہے کہ لوگ انتخابات اور سیاسی معاملات میں غیر منتخب عناصر کی مداخلت کے خلاف تحریک کا قائد نواز شریف کو ہی مانتے ہیں۔ ’ووٹ کو عزت دو‘ اور آئین کی بالادستی کا نعرہ نواز شریف کےحوصلہ اور جرات کی وجہ سے قبول عام حاصل کرسکا ہے۔ پیپلز پارٹی یا کوئی دوسری سیاسی جماعت اگر اس تحریک کا ساتھ نہیں بھی دے گی تو بھی اب اس خواہش کا رخ تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔
حکومتی و ریاستی جبر کے ذریعے اسٹیٹس کو بحال رکھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے لیکن ملک میں جمہوری بالادستی کی خواہش عوامی احتیاج اور بے چارگی کے ساتھ مل کر دو آتشہ ہوچکی ہے۔ اس کا راستہ روکنا ممکن نہیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali