کورونا وائرس: ائیر انڈیا سمیت دیگر انڈین فضائی کمپنیوں پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟


An Indian Airlines plane taxes towards takeoff at Mumbai airport on September 27, 2009.
کورونا وائرس کی وبا نے پہلے سے ان گنت مسائل سے دوچار انڈین فضائی کمپنیوں کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک سابق پائلٹ نے بتایا کہ ’میں اپنا گھر بیچ کر ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں منتقل ہو گیا ہوں کیونکہ اب میں اپنے گھر کا قرض ادا کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔‘

38 سالہ پائلٹ جو انڈیا کی سرکاری ائیر لائن ائیر انڈیا کے لیے کام کرتے تھے، نے بتایا کہ جب وہ (قرض) کی ادائیگیاں نہیں کر پا رہے تھے تو انھیں اور ان کے رشتہ داروں کو بینک والوں نے کس طرح مسلسل ہراساں کیا۔

’یہاں تک کہ بینک والے میرے گھر آئے اور یہ میرے لیے بہت شرمناک تھا۔ تنگ آ کر میں نے اپنا گھر فروخت کر دیا اور اس چیز نے مجھے بہت دکھی کیا۔‘

ایک وقت تھا جب ایئر انڈیا کے لیے ملازمت کرنا ایک منافع بخش کیریئر تھا۔ 2011 میں سینئر پائلٹ ایک کروڑ روپے تک کما رہے تھے، جو موجودہ زر مبادلہ کی شرح پر، ایک لاکھ 35 ہزار ڈالر یا ایک لاکھ تین ہزار پاؤنڈ سے زیادہ بنتے ہیں۔

لیکن اب انڈیا کی قومی ائیر لائن دیوالیہ ہو چکی ہے۔

یہ ائیر لائن کئی برسوں سے ایک خریدار کی تلاش میں تھی لیکن وبائی مرض کے دوران اس کا امکان کم ہو چکا ہے، اور مبینہ طور پر اب حالات یہ ہو چکے ہیں کہ حکومت چاہتی ہے کہ بس ایئر لائن بک جائے اور اس مقصد کے لیے وہ 3.3 بلین ڈالرز کے قرضے علیحدگی سے ادا کرنے پر بھی غور کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کورونا وائرس: مستقبل میں سفر کیسا ہو گا؟

کورونا وائرس: نوکر اور ڈرائیور کیسے گزارہ کریں گے

پاکستان میں سیاحت پر پابندی ہزاروں خاندانوں کے لیے تباہی کا پیغام

AirAsia Airlines Air hostess wearing protective mask watch on his smartphone at the Netaji Subhas Chandra Bose International Airport on June 04, 2020 in Kolkata, India.

لیکن صرف ایئر انڈیا ہی مشکلات کا شکار نہیں ہے۔ انڈین ہوا بازی جسے ملازمت کے لیے ایک بہترین صنعت سمجھا جاتا تھا، کئی برسوں سے زوال کا شکار ہے۔

انڈیا کی سب سے پرانی نجی ائیر لائن کمپنی جیٹ ایئرویز سمیت سات ایئر لائنز، جن کا ذکر اکثر کامیابی کی داستان کے طور پر کیا جاتا تھا، گذشتہ ایک دہائی میں ان کا کاروبار ٹھپ ہو گیا اور جو باقی رہ گئیں ہیں انھیں کورونا وائرس، ایندھن کی بڑھتی قیمتوں، بھاری ٹیکسوں، طلب میں کمی اور سخت مقابلے نے مشکل صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔

اور ایسا عالمی سطح پر ایک مشکل سال کے بعد ہوا ہے۔ سنہ 2019 میں، تکنیکی مسائل اور ایئربس کے پریٹ اینڈ وٹنی انجنوں میں ہونے والے مسائل کی وجہ سے بوئنگ کے 737 میکس طیارے گراؤنڈ ہو جانے سے ایئر لائنز متاثر ہوئیں۔ اگرچہ ایندھن کی کم قیمتوں سے ائیر لائنز کو کچھ سہولت ملی، لیکن طویل مدتی نقصانات کی وصولی کے لیے یہ کافی نہیں تھا۔

انڈیا کے پاس اس وقت آٹھ کیریئرز ہیں، جس میں انڈیگو مارکیٹ میں سب سے آگے ہے۔ ائیر دکن واحد ائیر لائن تھی جو اپریل میں اپنے تمام عملے کو تنخواہ کے بغیر رخصت پر رکھتے ہوئے آپریشن معطل کرنے پر مجبور ہو گئی تھی۔

انڈونیشیا کی ایک تنظیم سنٹر فار ایوی ایشن (CAPA) کے سی ای او کپل کول کہتے ہیں ’انڈین ہوائی کمپنیوں کو انتہائی غیر یقینی صورتحال میں رکھا گیا ہے۔‘

Jet Airways employees hold placards as they raise slogans during a protest against delayed salaries and the current shutdown crisis outside Rajiv Gandhi Bhawan at Jor Bagh on May 21, 2019 in New Delhi, India.

ماہرین کا کہنا ہے کہ سب سے بڑا چیلنج مسافروں کی آمد و رفت میں کمی ہے۔ انڈیا میں کورونا وائرس کے باعث لگائے گئے سخت لاک ڈاؤن، جو دو ماہ سے زیادہ عرصہ تک جاری رہا، نے ہوائی ٹریفک کو مکمل طور پر روک دیا۔ اگرچہ ایئر لائنز نے ایک بار پھر کام کرنا شروع کر دیا ہے، لیکن اب تک بہت کم لوگ ہوائی سفر کر رہے ہیں اور بین الاقوامی ٹریفک ابھی تک سخت قوانین کے زیرِ اثر ہے۔

ریٹنگ ایجنسی آئی سی آر اے کے مطابق، مئی اور ستمبر 2020 کے درمیان ملک کے اندر سفر کرنے والے مسافروں کی آمدورفت 11 ملین تھی جبکہ گذشتہ برس اسی مدت کے دوران یہ تعداد 70 ملین تھی۔

آئی سی آر اے کے نائب صدر کنجال شاہ کا کہنا ہے کہ 2021 میں بھی ٹریفک کم رہنے کی توقع ہے۔

لہذا دیوالیہ ہونے والی ائیر لائنز ملازمتوں میں کمی کر رہی ہیں۔ انڈین کمرشل پائلٹس ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری پراوین کیرتی کا کہنا ہے کہ ائیر انڈیا نے صرف اس سال 48 پائلٹوں کو ملازمت سے فارغ کیا اور دیگر ایئر لائنز نے اپنے بہت سارے پائلٹوں کو بغیر تنخواہ چھٹی پر بھیج دیا ہے یا تنخواہوں میں 30 فیصد تک کمی کر دی ہے۔

انٹرنیشنل ائیر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے اندازے کے مطابق انڈین ہوا بازی اور ان سے منسلک شعبوں میں 30 لاکھ تک ملازمتیں ختم ہونے کاخدشہ ہے۔

کیر ریٹنگز کی ریسرچ تجزیہ کار ارووشی جگاشیت کا کہنا ہے کہ ’تنخواہوں کی رقم کم کر دی جائے، بس یہی ایک راستہ بچا ہے۔‘

اس کی وجہ یہ ہے کہ اب محصولات تو مستحکم ہیں لیکن آپریشنل اخراجات جیسے ایندھن، دیکھ بھال اور پارکنگ کے لیے ہوائی اڈے کے معاوضے، یہ سب ان کے قابو سے باہر ہیں۔

جگاشیت کا مزید کہنا ہے کہ نام نہاد بجٹ والی ایئر لائنز، جیسے انڈیگو یا ایئر ایشیا، اس لیے بہتر نہیں کیونکہ وہ ان اخراجات کو برداشت کرتی رہی ہیں جن کی وصولی وہ مسافروں سے نہیں کر پا رہی تھیں۔

دونوں ایئر لائنز اس بحران سے نمٹنے کے لیے لاکھوں ڈالر اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

IndiGo Airlines Air hostess wearing protective mask posing for selfie on smartphone at the Netaji Subhas Chandra Bose International Airport on June 04, 2020 in Kolkata, India.

نجی ائر لائن کے پائلٹ امیلندو پاٹھک کا کہنا ہے کہ ایسے غیر یقینی وقتوں میں کام کرنا ذہنی طور پر بہت مشکل ہے ’لیکن ہمیں کام جاری رکھنا ہے۔ میں لاکھوں میں کما لیتا تھا اور اب میں فی گھنٹہ صرف 81 ڈالر کما رہا ہوں۔ میرا پورا خاندان مجھ پر انحصار کرتا ہے اور میری جمع پونجی ختم ہو رہی ہے۔‘

انڈسٹری میں دوسرے ملازمین کے لیے بھی صورتحال خراب ہے۔ 34 سالہ ریتیکا سریواستو ایک نجی ایئر لائن کے اکاؤنٹس ڈویژن میں کام کرتی تھیں۔ انھوں نے ایک نجی ہوائی اڈے کی کمپنی میں، مارچ 2020 میں اسی طرح کی ملازمت کے لیے اپنی سابقہ نوکری چھوڑ دی تھی۔ لیکن وبائی بیماری کی وجہ سے یہ پیش کش ختم ہو گئی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’انھوں نے کہا تھا کہ ایک بار جب چیزیں معمول پر آئیں گی تو وہ فون کریں گے۔ اب یہ مشکل نظر آرہا ہے۔‘

اپنی زندگی کے اخراجات کو کم کرنے کے لیے وہ اور ان کے شوہر دہلی سے ورانسی منتقل ہو گئے۔

’ہم دہلی میں رہنے کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔ ہماری جمع پونجی ختم ہو گئی۔ میرے شوہر کو بھی پوری اجرت نہیں دی جا رہی ہے۔ انھیں صرف اپنی تنخواہ کا 30 فیصد ملتا ہے۔ جبکہ میں سات ماہ سے کوئی نوکری ڈھونڈ رہی ہوں۔ جہاں بھی جاتی ہوں، وہ کہتے ہیں کہ مجھے صرف ہوا بازی کے شعبے میں تجربہ ہے۔ لیکن میرا فنانس میں بھی تجربہ ہے۔‘

A Passenger with protective gear arrive Netaji Subhash Chandra Bose International Airport in Kolkata on September 03,2020.

ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس وائرس کی طرح بحالی کا عمل بھی طویل اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہو گا۔ ایک تو عالمی معیشت پر وبائی مرض کا اثر اور دوسرا انڈیا میں سست روی کا شکار معیشت، ہوا بازی کی صنعت طویل عرصے تک ان سے متاثر رہے گی۔ اور صارفین کی طلب میں آہستہ آہستہ اضافہ ہو گا۔

کارروبار دوبارہ شروع کرنے کے لیے ایئر لائنز کو حکومت کی جانب سے دی جانے والی کریڈٹ لائنز یا قرضوں کی شکل میں رقم کی ضرورت ہے۔

جگاشیت کا کہنا ہے کہ حکومت دوسرے طریقوں سے بھی مدد کر سکتی ہے: ’ہوائی اڈے کی پارکنگ کے معاوضوں میں معافی یا تین ماہ تک نیویگیشنل خدمات میں مدد دی جا سکتی ہے۔‘

لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ اس سے آگے سب کھیل انتظار کا ہے۔

سنٹر فار ایوی ایشن کے کول کا کہنا ہے کہ ’فضائی سفر کی طلب میں بہتری آ رہی ہے تاہم اب بھی یہ بہت کم ہے اور مستقبل قریب میں کاروبار یا تفریح ​​کے لیے سفر کرنے والوں کی تعداد میں اضافے کے کوئی رجحانات نظر نہیں آ رہے اور سنہ 2022 تک اس صنعت اور اس سے وابستہ شعبوں کی توسیع کا بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp