ہندو عیسائی لڑکیوں کو مسلمان کرنے کا شوق و توہین کے پرچموں کے سائے


وطن عزیز میں جہاں آج کل پی ڈی ایم کے جلسوں اور خان صاحب کے منہ پر ہاتھ پھیر کے دھمکیاں دینے پہ بحثیں چل رہی ہیں۔ وہیں دوسری جانب ملک میں مذہبی شدت پسندی کی حالیہ و مستقل لہر منہ زور گھوڑے کی طرح آگے بڑھتی جا رہی ہے۔ ربیع الاول کا مہینہ اس لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے۔ کہ اس مہینے ایک تو حضرت محمد ﷺ کی دنیا میں آمد کی خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ دوسری جانب شادیاں بھی عروج پہ ہوتی ہیں۔ ایسی ہی ایک شادی کا واقعہ ایک دم سے عوام کی توجہ لینے میں کامیاب ہوا۔ تیرہ سالہ مسیحی لڑکی آرزو راجہ اور چوالیس سالہ اظہر کی شادی۔ شادی پہ ہم جیسوں کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ لیکن فورس کنورژن کے بعد غیر مسلم لڑکیوں کی عمر رسیدہ مسلمانوں سے شادی پہ اعتراض ضرور بنتا ہے۔

تیرہ سالہ آرزو راجہ کی گم شدگی کے بعد اچانک پتہ چلتا ہے کہ اس نے قبول اسلام کے بعد چوالیس سالہ اظہر سے شادی کر لی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قبول اسلام کے بعد غیر مسلم لڑکیاں ہمیشہ نکاح ناموں کے ساتھ ہی منظر عام پہ کیوں آتی ہیں؟ دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے مسلمان بھائی جو اسلام کی ترویج کرتے ہیں۔ غیر مسلموں کو دین اسلام میں داخل کرتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ انہوں نے کبھی عمر رسیدہ غیر مسلم مردوں کو مسلمان کر کے اپنی کم عمر مسلمان بیٹیوں سے ان کی شادی نہیں کرائی؟ کیا اس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ دین اسلام میں صرف غیر مسلم بچیاں ہی داخل کی جائیں گی۔ اور پھر انہیں کھیتیاں بنا کے ان میں داخل ہوا جائے گا۔ معاف کیجئیے آپ کو برا تو ضرور لگے گا۔ مگر کیا میرے سوال غلط ہیں؟ غلط ہیں تو تصحیح کیجئیے۔ اور اگر درست ہیں تو ان کے جواب ڈھونڈیے۔

یہاں پر سوال یہ بھی ہے کہ آرزو راجہ کی وڈیوز منظر عام پہ آنے کے بعد جو تاثر بنا۔ وہ یہ تھا کہ وہ کہیں سے بھی فورس کنورژن کا شکار بچی نہیں لگ رہی تھی۔ آرزو کے بقول اس نے اپنی مرضی سے شادی کی۔ اور اپنی مرضی سے مسلمان ہوئی۔ میں ضرور اس کی اس بات پہ یقین لے آتی۔ اگر اس کی عمر تیرہ سال نہ ہوتی۔ وہ بالغ ہوتی اور واقعی ہی اس کے دل میں دین اسلام کو سمجھنے کی لگن ہوتی۔ جس طرح ہل ہل کر وہ وڈیو میں اپنی شادی کا اقرار کر رہی ہے۔ بچپن میں ہم ایسے ہل ہل کر مسجد میں قرآن کی دہرائی کرتے تھے۔ اور حفظ کرنے والے یونہی ہل ہل کر سبق سناتے تھے۔ شاید رٹے کا ہلنے سے گہرا تعلق بنتا ہے۔

میرا ایک سوال آرزو کے والدین سے بھی ہے۔ آپ نے بطور والدین اپنی ذمہ داری کس حد تک نبھائی؟ آپ کی بچی اگر کسی کے گھر آتی جاتی تھی۔ یا وہ لوگ آپ کے گھر آتے جاتے تھے۔ تو آپ نے کیوں اس چیز پہ نظر نہ رکھی۔ کہ بچی کے رویے میں بدلاو آ رہا ہے۔ کیوں وہ بچی اپنے باپ کی عمر کے بندے سے شادی کرتے وقت ذرا بھی نہیں ہچکچائی۔ میرے نزدیک انسان یا تو لالچ یا پھر خوف ان دو چیزوں کے اثر سے نکل نہیں سکتا۔ انسان کسی بھی حد تک یا تو خوف کی وجہ سے جاتا ہے۔ یا اپنے لالچ کے ہاتھوں۔

آرزو راجہ کے معاملے میں مجھے بچی کی برین واشنگ کے ساتھ ساتھ لالچ بھی نظر آیا۔ اس کی وڈیو میں جیسے اس نے سونے کے زیورات پہن رکھے تھے۔ کپڑے بھی اچھے تھے۔ تو مجھے یہ فیکٹر بھی اہم لگا کہ اچھے کپڑوں جوتوں و زیور کا لالچ بڑی سے بڑی عمر کی عورت کو بھی بہکا سکتا ہے۔ وہ تو پھر صرف تیرہ سال کی ہے۔ یہاں والدین قصور وار ہیں۔ ان کی تربیت میں کمی ہے۔ انہوں نے اپنی بچی کی اس حوالے سے تربیت نہیں کی۔

آرزو کے معاملے پہ میری بڑی بیٹی میرے پاس آئی۔ کہتی ماما اس کی وڈیو سے نہیں لگتا۔ کہ اسے فورس کیا گیا ہے۔ میں نے کہا بیٹا برین واش کیا گیا ہے۔ بچیاں باتوں میں آ جاتی ہیں۔ کل کو آپ کو کوئی ایسے لالچ دے۔ تو میں کیا کر لوں گی۔ اس نے مجھے جواباً اتنے سخت لہجے میں یہ کہا کہ میں کبھی بھی کسی کے کہنے پہ اپنے ماں باپ اور مذہب کو نہیں چھوڑوں گی۔ چاہے کوئی کتنا بھی لالچ دے۔ مجھے جو چاہیے۔ میں خود کما کے لے لوں گی۔

میں چپ کر گئی۔ اگلے دن میری تیرہ سالہ بیٹی کی مثال دیتے ہوئے میں اپنے ہسبینڈ کو بتا رہی تھی۔ تو وہ بھی احتجاج کرنے لگی۔ میری مثال مت دیں۔ میں تو کسی کی بات نہیں سنوں گی۔ مجھے کوئی ایسا کہے بھی کیوں۔ یہاں سے ثابت ہوا کہ بچوں میں اتنا شعور تو ڈویلپ ہے۔ کہ کسی کی باتوں میں نہیں آنا۔ یہ اس تربیت کا نتیجہ ہے۔ جو ڈیڑھ سال کی عمر سے میں بچوں کو سکھانا شروع کرتی تھی۔ کہ کسی کی گود میں نہیں جانا۔ کسی کو منہ نہیں چومنے دینا۔ اور کسی سے کوئی چیز لے کر نہیں کھانی اگر کوئی گھر کے دروازے پہ ہماری موت کی اطلاع بھی دے۔ تب بھی اس کے ساتھ نہیں جانا۔ جو چاہیے ہمیں بتائیں۔ ہم لے کر دے سکے تو لے دیں گے۔ ورنہ ہمیں معاف کر دینا۔ اللہ کا شکر ہے۔ بچوں نے کبھی ہمیں شرمندہ نہیں کروایا۔

والدین کی ذمہ داری میں یہ شامل ہے۔ کہ جب تک ان کے بچے بالغ نہیں ہو جاتے۔ وہ ان کو گائیڈ کریں۔ انہیں اچھا برا بتائیں۔ اپنی مرضی کی تعلیم و اپنی مرضی سے ان کی شادی کرنا والدین کی خواہش نہیں ہونی چاہیے۔ ایک اچھا و باشعور انسان بنانا والدین کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ یہ تو ہو گیا ایک واقعہ اور اس پر تجزیہ۔ دوسرا واقعہ بھی ایسے ہی شدت پسند رویے پہ ہے۔ وطن عزیز میں سب سے زیادہ چلنے والے دھندوں میں رئیل اسٹیٹ دوسرے نمبر پر ہے۔ جبکہ پہلے نمبر پہ مذہب کے نام پہ چلنے والے کاروبار ہیں۔ آپ کوئی کاروبار شروع کر رہے ہیں۔ اس کے نام کے ساتھ مکی مدنی بسم اللہ لگا لیجئیے۔ اور جی بھر کے لوٹ مار کیجئیے۔ دو نمبر ملاوٹ شدہ مال بیچیئے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ بلکہ پوچھنے کی جرات نہیں۔ حرام موت کون مرنا پسند کرے گا۔

آپ کی کسی کے ساتھ کوئی رنجش ہے، بدقسمتی سے آپ کے پاس کوئی زمین کا قیمتی ٹکڑا ہے۔ یا آپ کسی ایسے مسلک کے پیروکار ہیں۔ جو آپ کے مخالف کے مسلک سے الگ ہے۔ آپ تیار رہیں کہ کسی بھی وقت آپ کی جان لی جا سکتی ہے۔ آپ پہ توہین کا الزام لگوا کے عمر بھر کے لیے جیل میں سڑوایا جا سکتا ہے۔ آپ کی فیملی کو زندہ درگور کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب وطن عزیز میں دھڑلے سے ہوتا ہے۔ پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ کیونکہ ریاست کی پرائیورٹی میں یہ معاملات نہیں ہیں۔

دو دن پہلے قائد آباد میں گارڈ کے ہاتھوں بنک مینیجر کے قتل نے ایک بار پھر رنجیدہ کیا۔ قاتل کے معاملے میں ریاستی رٹ مکمل طور پہ ناکام نظر آئی۔ ایسا قتل آپ سعودی عرب یا دبئی میں کر کے دکھائیں۔ جیسے یہاں قاتل کو چوما جا رہا تھا۔ چائے پیش کی جا رہی تھی۔ جلوس نکل رہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا۔ جیسے قتل کرنا کوئی عظیم کام ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ مرنے والا بھی مسلمان و عاشق رسول تھا۔ اور مارنے والا بھی۔ فرق صرف مسلک کا تھا۔ ذاتی رنجش تھی۔ قاتل چالاک تھا۔ اس کو معلوم تھا کہ قتل کر کے کیسے بچنا ہے۔ کیسے لوگوں کی ہمدردیاں لینی ہیں۔ کیسے مذہب کارڈ کھیلنا ہے۔

وہ شاعر کہتا ہے نہ کہ
جانے کب کون مجھے مار دے کافر کہہ کر
شہر کا شہر مسلمان بنا پھرتا ہے

تو کل ملا کے بات یہ نکلتی ہے۔ کہ پہلے تو آپ اگلوں کو مسلمان کریں۔ پھر ان پہ توہین لگا کے قتل کرتے جائیں۔ مسلمانوں سے غیر مسلموں کی جان بھی محفوظ نہیں۔ اور ایک مسلمان کی جان بھی دوسرے مسلمان سے محفوظ نہیں۔ حل کچھ نہیں ہے۔ جب تک ریاست خود اس بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتی۔ سب سے پہلے تو اپنے نصاب سے جنگوں کے کارنامے نکالیں۔ انسانوں کے ساتھ کیسے رہتے ہیں۔ یہ شامل کریں۔ سکولوں کالجوں میں بچوں کو گدھا بنانے کا عمل جاری ہے۔

جنہوں نے سلیبس کو رٹا مار کے ختم کرنا ہے۔ پاس ہو کے اگلی کلاس میں پہنچنا ہے۔ اور بس۔ والدین نے اپنی ذمہ داریاں سکولوں پہ اساتذہ پہ ڈال دی ہیں۔ اور اساتذہ کو خود یہ نہیں پتہ کہ انہوں نے کرنا کیا ہے۔ نہ نئی سوچ، نہ مطالعے کی لگن نہ ہی بنیادی اخلاقیات ہم تربیت کے نام پہ ایک پیسے کی کوشش نہیں کرتے۔ کیونکہ یہ ہمارا مقصد ہے ہی نہیں۔ ریاست کو عوام کے شعور کی ضرورت نہیں۔ ان کے لیے اپنے مفادات کی جنگ میں سب جائز ہے۔

اور عوام کو جاہل رکھنے میں ہی ان کی بھلائی ہے۔ جب تک ریاست اس مذہبی غنڈہ گردی کو نہیں روکے گی۔ اس کے لیے کوشش نہیں کرے گی۔ کچھ نہیں ہونے والا۔ اگر دنیا میں خود کو انسان منوانا چاہتے ہیں تو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کریں۔ ورنہ بیٹھ کے اپنی اپنی قبر کے کھدنے کا انتظار کریں۔ کیونکہ اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).