گلگت بلتستان الیکشن 2020 پر اٹھائے گئے سوالات


اس دفعہ گلگت بلتستان اسمبلی کے لئے ہونے والے انتخابات اہم اس لئے بھی ہیں کہ پاکستان کے قومی سلامتی کے اداروں نے اس علاقے کی آئینی و قانونی حیثیت تبدیل کرنے کا عندیہ دیا ہے جس کی تکمیل میں اس بار منتخب ہونے والے نمائندوں کا کلیدی کردار اگر نہ بھی ہوا تو کم از کم انگوٹھا ان ہی سے لگوایا جائے گا۔ دنیا کی نظریں اس خطے پر پہلے سے مرکوز تھیں مگر اس بار خطے کی بدلتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر ان انتخابات کے عمل میں بھی دلچسپی لی جا رہی ہے۔ انتخابات کی صداقت اور ساکھ کا دار و مدار بغیر کسی قدغن کے تمام لوگوں، جماعتوں اور گروہوں کو اس میں حصہ لینے کے یکساں مواقع کی فراہمی کے علاوہ ادارہ جاتی غیر جانبداری اور ریاستی وسائل و اختیارات کے ان پر اثرانداز نہ ہونے پر بھی ہے۔

شفافیت اور غیر جانبداری کو یقینی بنانے کے لئے انتخابات منعقد کروانے والے اداروں کا کردار اہم ہوتا ہے۔ دنیا کے جمہوری ممالک میں ان اداروں کو خود مختار بنا دیا جاتا ہے تاکہ وہ کسی دباؤ میں آئے بغیر اپنا آئینی اور قانونی کردار ادا کرسکیں۔ پاکستان کا الیکشن کمیشن بھی اس کا ایک نمونہ ہے جس کے ممبران کی تقرری حزب اختلاف اور حکومت کی باہمی مشاورت اور رضامندی سے ہوتی ہے۔ انتخابی عمل کے دوران الیکشن کمیشن نہ صرف بااختیار ہوتا ہے بلکہ مالی طور بھی خود مختار ہوتا ہے تاکہ وہ کسی قسم کے دباؤ میں آئے بغیر اپنا کام کر سکے۔

گلگت بلتستان میں الیکشن کمیشن کا ایسا کوئی خود مختار ادارہ نظر نہیں آتا۔ صرف ایک چیف الیکشن کمشنر گورنر کی مشاورت سے وزیر اعظم پاکستان نے مقرر کیا ہوا ہے جو ایک حاضر سروس جج ہے۔ اس ادارے کے قواعد و ضوابط پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ صدارتی حکم نامہ جس کے تحت یہ انتخابات منعقد ہو رہے ہیں اس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے الیکشن کمیشن کے قواعد کا اطلاق یہاں بھی ہوگا۔ چیف الیکشن کمشنر کے دستخطوں سے 6 اکتوبر 2020 ء کو جاری کردہ ایک اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ گلگت بلتستان اسمبلی کے 2020 ء کے انتخابات کے انعقاد کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے 62 نکات پر مشتمل ضابطہ اخلاق پر یہاں بھی تمام سیاسی جماعتیں متفق ہوئی ہیں۔

مذکورہ ضابطہ اخلاق کے سیکشن ’بی‘ میں زیر عنوان کمپین کے نکتہ 18 میں کہا گیا ہے کہ ملک کے صدر، وزیر اعظم، چیئرمین/ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، سپیکر/ ڈپٹی سپیکر قومی و صوبائی اسمبلی، وزراء سمیت کسی بھی حکومتی عہدے دار کو اس میں حصہ لینے کی ممانعت ہے۔ مگر عملاً وفاقی وزیر برائے کشمیر و گلگت بلتستان اس انتخابی مہم میں حکومتی جماعت کی بھر پور سرپرستی کرتے نظر آتے ہیں۔ اس بارے میں چیف الیکشن کمشنر کی اپنی پریس کانفرنس کے مطابق وہ سوائے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر ایک نوٹس جاری کرنے کے کچھ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا جس سے اس ادارے کی بے بسی واضح طور پر نظر آتی ہے۔

مذکورہ ضابطہ اخلاق کے مطابق کسی قسم کے نئے ترقیاتی منصوبے کا افتتاح یا اعلان کرنا بھی ممنوع قرار پایا ہے۔ مگر دوسری طرف وفاقی وزیر امور گلگت بلتستان و آزاد کشمیر جس کے ماتحت پورا علاقہ ایک ذیلی محکمہ کا درجہ رکھتا ہے یہاں لوگوں کو ووٹوں کی ”جتنے ہزار کی برتری پر اتنے ہزار کروڑ“ کا فنڈ دینے جیسے اعلانات کرتا نظر آتا ہے جو نہ صرف اس ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے بلکہ عوامی وسائل کو جماعتی مفادات کے لئے استعمال کرنے کا مصداق ہے۔ حکومتی جماعت کی طرف سے ایسے اقدامات ایک طرف وفاقی حکومت کے اختیارات کے ناجائز استعمال کے ساتھ ساتھ اپنے ہی مرتب کردہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے تو دوسری طرف یہ مقامی اداروں کی بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

جب مقتدر حلقوں کی طرف سے گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کی تجویز سامنے آئی تو راز و نیاز میں ہوئی مشاورت میں شامل تمام جماعتوں نے اتفاق کیا کہ اس معاملے کو گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات تک ملتوی کیا جائے۔ اس التوا کا ایک مقصد تو یہ تھا کہ کوئی جماعت یا فرد مجوزہ منصوبے کو اپنے مفادات کے لئے استعمال نہ کرسکے اور دوسری اہم بات یہ بھی تھی کہ اس سنجیدہ اور حساس معاملے کو انتخابی مہم جوئی میں نقصان نہ پہنچے۔ مگر ایک وفاقی وزیر نے یہ ہانڈی بھی بیچ چوراہے پر پھوڑ دی اور اب یہ معاملہ بھی صیغہ راز کا نہیں رہا۔

وزیر اعظم پاکستان یکم نومبر کو گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کی مبارکباد دے کر وہ نہ صرف انتخابات کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے بلکہ انہوں نے مبینہ طور پر اخفائے راز کے اپنے حلف کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔ وزیراعظم اس بات کو بھی جانتے ہوں گے کہ اس متنازع خطے کی آئینی اور قانونی حیثیت کی تبدیلی کے لئے نہ صرف پاکستان کا اپنا آئین ترمیم کا متقاضی ہے بلکہ گلگت بلتستان اور جموں و کشمیر کے دیگر حصوں میں بسنے والے لوگوں کا بھی اعتماد حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس بارے میں عالمی رائے کو ہموار کرنے کے مشکل مرحلے کا دار و مدار بھی پہلے کے اقدامات کی ساکھ پر ہوگا جو ایسے قبل از وقت اعلانات اور بیانات سے مجروح ہو سکتی ہے۔

گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں انتخابات پر یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ اسلام آباد میں جس جماعت کی حکومت ہو ہمیشہ وہ یہاں انتخابات میں اکثریت کیوں کر حاصل کرتی ہے۔ اس کی ایک وجہ جو نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ ان علاقوں میں انتخابات پاکستان کے عام انتخابات کے ساتھ منعقد نہیں ہوتے۔ جس ضابطہ اخلاق کے تحت یہاں انتخابات کو شفاف اور آزادانہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ پاکستان میں تو موثر ہے کیونکہ وہاں عام انتخابات ایک غیر جانبدار اور نسبتاً بے اختیار نگران حکومت کے تحت منعقد ہوتے ہیں۔ مگر جس وقت گلگت بلتستان اور کشمیر میں انتخابات ہوتے ہیں تو اسلام آباد میں برسر اقتدار جماعت یہاں بھی حکومت بنانے کے لئے کوشاں ہوتی ہے جس کے دباؤ کو یہاں کی کمزور اور بے اختیار انتظامی مشینری برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔

گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی انتظامی مشینری وفاق کی ایک وزارت کے ماتحت محکمے کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہاں کے چیف سیکرٹری، آئی جی پولیس سمیت تمام افسر شاہی وفاقی وزیر برائے گلگت بلتستان و کشمیر کے ماتحت ہوتی ہے جس کی حکم عدولی اس کے لئے ممکن نہیں ہوتی۔ گلگت بلتستان کے معاملے میں تو شاید جج اور عدلیہ بھی اس وزارت کے شکنجے سے آزاد اور خود مختار نہیں۔ گلگت بلتستان کے چیف الیکشن کمشنر کی اسلام آباد میں ہوئی کچھ ملاقاتوں اور میٹنگوں پر بھی حزب اختلاف کی طرف سے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

اسلام آباد میں برسر اقتدار سیاسی جماعت جس کے دائرہ اختیار میں انتظامی مشنری، مالی وسائل اور افسر شاہی ہو وہ ہمیشہ سے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتی آ رہی ہے۔ گلگت بلتستان کے انتخابات کو شفاف اور آزادانہ طور پر منعقد کروا کر عالمی رائے عامہ کو اپنے آئندہ کے بڑے فیصلوں کے حق میں کیسے ہموار کیا جائے یہ پاکستان کے مقتدر حلقوں کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 279 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan