بلتستان ترقی کو نہیں وفاق کو ووٹ دیتا ہے


6 نومبر کو مریم نواز نے بلتستان ریجن کے صدر مقام سکردو میں بڑے جلسے سے خطاب کیا، مسلم لیگ کا پاور شو واقعی دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا، مگر کیا یہ مجمع پورا یا کم از کم آدھا ووٹ بھی شیر کو دے گا؟ بلتستان کا سیاسی کلچر اور ماضی کی انتخابی روایات بتلاتی ہیں، نہیں۔ بلتستان کی زمین پر پاؤں رکھ کر دیکھیں تو یہ آفتاب نصف النہار کی طرح عیاں ہے کہ آنے والا اتوار چھوڑ کے اگلے اتوار کو ہونے والے انتخابات میں بلتستان ریجن سے مسلم لیگ نون کو 9 میں سے ایک بھی سیٹ نہیں مل رہی۔ بلکہ میں ذرا آگے بڑھ کے کہتا ہوں کہ بلتستان کے 9 میں سے ایک بھی حلقے میں مسلم لیگ نون دوسرے نمبر پر بھی نہیں آ رہی۔ (صرف حلقہ گانچھے 2 میں دوسری پوزیشن کا بہت معمولی امکان بن سکتا ہے ) ۔ مگر کیوں؟ اس لیے کہ بلتستان وفاق کو ووٹ دیتا ہے نہ کہ سیاسی جماعت کو۔

مسلم لیگ نون کی گزری حکومت میں لاکھ کیڑے نکالیں مگر آپ اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ اس نے ڈلیور کیا ہے۔ 2015 میں مسلم لیگ نون کے انتخابی منشور میں شامل بڑے وعدے نبھائے جا چکے۔ جگلوٹ سکردو روڈ کا عظیم منصوبہ، بلتستان کی اولین دانشگاہ جامعہ بلتستان اور یہاں کے لوگوں کا مرغوب و محبوب مطالبہ یعنی نئے اضلاع کی تشکیل۔ باقی کمی کوتاہی بھی یقیناً ہوئی ہے نون لیگی حکومت سے مگر یہ کہ بلتستان سے مذکورہ بالا بڑے منصوبوں کے عوض کوئی ووٹ نہیں ملنا۔

گلگت بلتستان الیکشن میں بلتستان وفاق کے لئے پیس آف کیک کی حیثیت رکھتا ہے۔ 2009 میں وفاقی حکومت پیپلز پارٹی نے 9 میں سے 7 سیٹیں اٹھائیں جبکہ نون لیگ کے حصے میں ایک حلقہ آیا۔ 2015 میں وفاق کے شیر نے یہاں سے 6 حلقے توڑے جبکہ پیپلز پارٹی کا حصہ 7 سے گھٹ کے ایک رہ گیا۔ اب 2020 میں بھی وفاق کی حریصانہ نظریں بلتستان پر ہے۔ آپ نے شاید ایک بات نوٹس نہیں کی وہ یہ کہ بلاول نے اپنے طویل دورے کا آغاز بلتستان سے کیا۔

الیکشن کی سائنس یہ ہے کہ انتخاب کے قریب قریب دنوں میں آپ عوام کو جتنا چارج کرو گے اتنا فائدہ ہو گا، اسی ترکیب کے مطابق پیپلز پارٹی نے بلاول کے دورے کی ترتیب رکھی، یعنی الیکشن کے قریب قریب ایام میں جلسہ گلگت میں رکھا جائے تاکہ گلگت حلقہ ایک اور دو کی سیٹیں نکالی جا سکیں، رہا بلتستان تو وہ تو فکس ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی کو بلتستان سے 3 نشستوں کی امید قوی تو ہے ہی مگر چوتھی یا پانچویں سیٹ نکل آئے تو یہ بونس ہو گا۔

پیپلز پارٹی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مسلم لیگ کی دستیاب اعلی قیادت یعنی مریم نواز اور شاہد خاقان نے بھی بلتستان کو پہلے چنا، گلگت ریجن کو الیکشن کے قریب رکھا۔ دوسری جانب وفاقی حکومتی پارٹی نے سارا زور ہی بلتستان پر لگانا ہے، بلتستان وفاق کا پیس آف کیک جو ٹھہرا۔ یہی وجہ سے کہ وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور سمیت پی ٹی آئی کا وفاقی قافلہ سب سے آخر میں اور الیکشن کے آخری ہفتے میں بلتستان پہنچ رہا ہے، گلگت اور دیامر کو پہلے نمٹایا جا چکا۔

2009 میں پیپلز پارٹی نے بلتستان کے 9 میں سے 7 سیٹیں سمیٹیں۔ 2015 میں اہل بلتستان نے 9 میں سے 6 حلقوں پر نون لیگ کو جتایا۔ اب 2020 میں پی ٹی آئی کتنے حلقے ٹارگٹ کیے ہوئے ہے؟ آج کے دن تک میرا اظہاریہ یہ ہے کہ بلتستان سے پی ٹی آئی 5، پیپلز پارٹی 3 اور ایم ڈبلیو ایم ایم ایک سیٹ۔

آنے والی حکومت تحریک انصاف یا پیپلز پارٹی میں سے جس کی بھی بنے، منتظر حکومت کو بلتستان کے عوام کا دیا یہ سبق یاد رکھنا چاہیے کہ انہوں نے ڈیویلپمنٹ کو تو ووٹ نہیں دینا۔ اگر آپ نے ترقیاتی کام اگلے الیکشن کو سامنے رکھ کے کرنا ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں، ادھر سے کام اور ترقی پر تو ووٹ نہیں ملنا۔ ہاں اگلی نسل کو پیش نظر رکھ کر کام کرنا ہے تو بسم اللہ، اللہ کی خوشنودی تو حاصل ہو سکتی ہے مگر بلتستان کے عوام کی سیاسی خوشنودی تو وفاق کے ٹکٹ میں ہے نہ کہ ترقیاتی منصوبوں میں۔

ڈاکٹر سکندر علی زرین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سکندر علی زرین

سکندر علی زرین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ ماس کمیونیکیشن کے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ گزشتہ دس برس سے جیو نیوز سے بطور ایسوسی ایٹ اسائنمنٹ ایڈیٹر منسلک ہیں۔ گلگت بلتستان کے اخبارات کے لیے رپورٹنگ کرتے ہیں اور کالم بھی لکھتے ہیں۔ سیاست، تاریخ، اردو ادب، ابلاغیات ان کے پسندیدہ میدان ہیں

sikander-ali-zareen has 45 posts and counting.See all posts by sikander-ali-zareen