ہم اللہ کو کم از کم اپنے جیسا ہی مان لیں


سلیم طویل سفر طے کر کے جب درگاہ پہنچا تو بابا جی کو سینکڑوں مریدوں میں بیٹھا پایا۔ پاس جا کر سلام عرض کرتے ہی بولا، حضور میں تین سو میل کا سفر طے کر کے آیا ہوں۔ آپ کا بہت نام سنا ہے۔ سنا ہے آپ کھوٹے کو کھرا، کوئلے کو ہیرا، اور ذرے کو ستارہ بنا دیتے ہیں۔ مجھ پر بھی کچھ نظر کیجئے، کوئی نصیحت عطا فرما دیجئے۔

بابا جی مسکرائے۔ بولے پتر، اللہ سائیں کو اپنے سے بہتر نہیں تو کم سے کم اپنے جیسا ہی مان لے۔

سلیم کھسیانی مسکراہٹ مسکرایا، اور چپ چاپ بیٹھ گیا۔ سوچنے لگا، بابا جی نے کیا ہی فضول اور بے تکی بات کی ہے۔ بھلا کوئی اللہ کو بھی خود سے کمتر سمجھ سکتا ہے؟ اللہ تو اللہ ہے۔ وہ تو سارے جہان کا مالک ہے۔ کون و مکاں کا خالق ہے، مکان و لامکاں اس کی سلطنت ہیں۔ اتنا لمبا سفر فضول ہی کیا۔ منہ لٹکائے لوٹنے لگا تو بابا جی بولے، پتر سلیم، رک جا۔ بہت لمبا سفر کر کے آیا ہے۔ صبح ناشتہ کر کے نکل جانا۔

سلیم اپنا سا منہ لے کر رک گیا۔ نماز پڑھی، نفل پڑھے، ذکر اذکار کرتا ہوا ایک کمرے میں سو گیا۔

صبح فجر کے کچھ وقت بعد دروازے پر دستک ہوئی۔ کسی خادم نے آواز دی کہ کھانا لے لیجیے۔ دروازہ کھولا تو دہلیز پر تھال موجود تھا۔ تھال میں دو دیسی گھی میں بھیگے ہوئے پراٹھے، بھنا ہوا گوشت، دو سوکھی روٹیاں، اور باسی دال تھی۔ ابھی حیرت گم ہی تھی کہ فقیر کی آواز کان میں پڑی۔ ”اللہ کے نام پہ کچھ دے دے بابا، اللہ کے نام پہ کچھ دے دے۔“

سلیم نے باسی دال اور سوکھی روٹیاں پھینکنے کے بجائے فقیر کو دیں، گوشت سے اپنا پیٹ بھرا، اجازت کے لیے بابا جی کی خدمت میں جا پہنچا۔ اجازت چاہی تو بابا جی پھر بولے، پتر سلیم، اللہ کو اپنے سے بہتر نہیں تو اپنے برابر ہی مان لے۔

غصے سی لال پیلا سلیم جھنجھلا اٹھا۔ کہنے لگا، بابا جی، کیا فضولیات گردانے جاتے ہیں؟ اللہ سے بھی کوئی برابری ہوتی ہے؟ کوئی رب کو بھی خود سے کمتر جانتا ہے؟

بابا جی مسکرائے۔ بولے پتر، تجھ سے فقیر نے اللہ کے نام پہ روٹی مانگی تو تو نے سوکھی روٹی اور باسی دال اسے عطا کی، پراٹھے اور گوشت خود کھایا۔ تو اللہ کو بہتر جانتا تو پراٹھے اور گوشت اسے دیتا، برابر جانتا تو ایک پراٹھا تھوڑا گوشت اسے دیتا، اور اتنا ہی خود رکھتا۔ ایک سوکھی اسے دے کر ایک خود کھاتا۔ پر تو کہتا تو اللہ کو بہتر ہے، مانتا برابر بھی نہیں۔

آپ غور کیجئے، بابا جی نے کتنا کڑوا سچ، کتنے میٹھے لفظوں میں بتا دیا۔ ہم ہر سال لوگوں کو خیرات کے نام پر کپڑے نکال دیتے ہیں۔ مگر غور کیجئے، جو کپڑا کسی غریب کی جھولی میں ڈالتے ہیں، وہ اپنے پہناوے کے قابل سمجھتے ہیں؟ کیا صرف وہی کپڑا غریب کو نہیں دیتے جو اب پہناوے کے قابل نہیں؟ یعنی جو مال کوڑا دان میں پھینکنا تھا، اسی کو کسی جھولی میں ڈال کر خیرات کا نام دے دیتے ہیں۔ ہم خدا کو کوڑا بیچ کر ثواب کے خریدار بننے والے لوگ، عمل دو ٹکے کا نہیں کرتے، اور اجر بے حساب چاہتے ہیں۔

ہمارے ہاں کامیاب وہ کہلاتا ہے جسے کام نہ کرنا پڑے۔ ہمارے ہاں ہر چہرے کے پیچھے ٹرمپ چھپا بیٹھا ہے، جو اپنی باسی خیرات کو پھینکنے کی جگہ کا نام دیوار مہربانی رکھتا ہے، اور دوسرے کی نصیحت کو جہالت سے تعبیر کرتا ہے۔

ہمارے ہاں جمہوریت بھی صرف اپنے حصے کے ووٹ کی عزت کے تقاضے کا نام ہے۔ فرانس کے خلاف جلوس نکلے تو میڈیا پر آواز نکالنا بھی جرم عظیم کہلاتا ہے۔ جمہور تو صرف وہ ہیں کہ جنہیں ٹیلیویژن کی سکرین پر بیچا جا سکتا ہے۔ جنہیں ٹی وی پر دکھایا نہیں جا سکتا، وہ تو ووٹ والا انگوٹھا لیے بغیر پیدا ہوتے ہیں۔ اور اگر کبھی ووٹ والا انگوٹھا لئے پیدا ہو بھی جائیں تو اس انگوٹھے کو کاٹ دینا ملک کی خدمت کہلاتا ہے۔

آزادیٔ اظہار رائے تو ایسی طوائف کا نام بن چکا ہے جو صرف سیٹھوں کے لیے ناچے تو جائز ہے۔ اگر اس کے گھنگرو کبھی غریب یا مذہب کے نام پر پسنے والوں میں آواز کرنے لگیں تو اس کا رقص حرام اور گناہ کبیرہ بن جاتا ہے۔

دوہرے معیاروں کے اسیر ہم فقیر کس منہ سے اللہ کے نام پر کوئی بات کریں۔ ہمارے یہاں تو کوئی بھی اللہ کو خود سے بہتر ماننے کو تیار نہیں ہے۔ ہمارے ہاں تو فقط باسی دال اور سوکھی روٹیاں پھینکنے کے بجائے جھولی میں ڈالنے کو خیرات کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں پراٹھے اور گوشت تو فقط سلیم زادوں کے لیے ہے۔ غریب کے لیے تو دیوار مہربانی ہے، وہ بھی اس قدر بلند کہ جس کا سایہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ ہماری زندگیوں کی تو شامیں بھی دھوپ زدہ ہیں۔

ہمارے ہاں تو سورج بھی آگ برساتا ہے، روشنی نہیں۔ ہمیں بابا جی کی فضول گوئی راس نہیں ہے۔ ہمیں فقط وہی لوگ اچھے لگتے ہیں جو ہمارے مدح سرا ہوں، پھر چاہے ہم کسی ادارے کی وردی پہنے ہوئے ہوں یا کسی جلسے کے صدر بے وقار۔ ہم اندھیروں کے اسیر، اجالوں کے قائل نہیں ہیں۔ ورنہ خدا کو اپنے سے بہتر نہ سہی، اپنے جیسا ہی مان لیتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).