اصرار اور مزید اصرار کے باوجود یہ ریکارڈنگ نہیں ہو سکتی


میں نے ہمت سے جب اپنے آنے کا مدعا بیان کیا تو ان کی ساری شفقت یک دم غائب ہو گئی اور انھوں نے بے ساختہ اور برملا میری گزارش ( اور خواہش ) کو رد کرتے ہوئے اپنا دو ٹوک فیصلہ سنا ڈالا جو میرے لئے، تمام ارادوں اورخوابو ں کے چکنا چور ہونے کے مترادف تھا۔ میرے پاس اب کہنے کو کچھ نہ بچا تھا کہ ساری کوششیں پہلے ہی رائیگاں جا چکی تھیں اور اب اس کے سوا چارہ نہ تھا کہ اس عزم سے دست کش ہو جایا جائے۔

اپنی پسندیدہ شخصیت کے حوالے سے، ایک خواب کو مکمل نہ ہوتا دیکھ کر جو دکھ ہونا تھا، سو وہ تو تھا ہی، مگر اصرار اور مزید اصرار کی حد پھلانگنا بھی حد ادب اور عقیدت سے گریز تھا، سو شکست تسلیم کر لینے میں ہی عافیت تھی۔

جب میں یہاں پہنچا تو مجھے انھوں نے بے حد محبت اور اپنائیت کے ساتھ خوش آمدید کہا اور اپنی مختصر بیٹھک ( اور شاید جائے تحریر ) کی طرف لے چلے۔ جائے تحریر کا اندازہ اس جگہ کرسی میز کے علاوہ کتابوں اور اس کے ساتھ ساتھ ایک روسٹرم کی موجودگی سے ہوا۔

وہ شخصیت جس نے اس معاشرے میں حس مزاح کو عام کرنے اور اپنے پڑھنے والوں کو اس ہنر میں خاص کرنے کا کارنامہ انجام دیا ہو، وہ مقابل ہو تو آنکھوں میں خوشی سے، خود بہ خود کرنیں پھوٹنے لگتی ہیں۔ سو اسی کیفیت میں، دوران گفتگو یہ اندیشہ بھی مسلسل ذہن پر سوار تھا کہ عقیدت کے اظہار میں کوئی حماقت سرزد نہ ہو۔ پھر اس غیر معمولی احتیاط میں مزید حماقت کا خوف بھی طاری تھا۔

اس مختصر کمرے میں، روسٹرم کے علاوہ، میری توجہ اگر کسی چیز کی طرف مائل تھی تو وہ دیوار پر آویزاں، فریم میں لگی ایک تصویر تھی جو بہ ظاہر کسی غیر ملکی کی لگتی تھی۔ میں حیران تھا کہ جس معاشرے میں محض شادی کے دنوں کی تصاویر ( یا اپنی کامیابیوں کو ) نمایاں کرنے کا چلن عام ہو، وہاں انھوں نے کس کو اتنا محبوب جانا ہے کہ اسے مستقل پیش نظر رکھا ہے۔ اس حیرانی کو ختم کرنے کے لئے جب میں نے ان سے، اس تصویر کے بابت جاننا چاہا تو ان کی وضاحت میں ایک بڑے ادیب کی، ایک اور بڑے ادیب سے تعلق اور لگاؤ کی کہانی پوشیدہ دکھائی دی۔

یہ تصویر انگریزی کے کلاسک ادیب لی کاک کی تھی جس کی تحریر سے اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ لاہور کے مال روڈ پر چہل قدمی کے دوران وہ اور ان کا ایک دوست، لی کاک کی کتاب کے اوراق، آپس میں بانٹ کر ایک دوسرے کو سنایا کرتے تھے۔ کتاب اور لکھاری سے یہ ربط، ان کے اس طرز فکر کی بھی نمائندگی کرتا ہے کہ لکھنے کے لئے، پڑھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔

روسٹرم کے حوالے سے یہ غیر مصدقہ اطلاعات میرے علم میں تھیں کہ غیر روایتی طور پر، وہ لکھنے کے لئے کرسی میز کی بہ جائے روسٹرم استعمال کرتے ہیں، اس کی بصری تائید بھی ہوئی اور انھوں نے بھی، اسے ذہانت اور ظرافت کے سفر کا گواہ اور شریک قرار دیا۔

اب وہ مرحلہ تھا جس کے لئے میں ان کے پاس حاضر ہوا تھا اور وہ تھا ان کی شخصیت اور تحریر کے حوالے سے ایک پروفائل ڈوکو منٹری کی تیاری۔ اس آرزو کے جواب میں انھوں نے اپنے موقف کی یوں وضاحت کی کہ اس کمرے میں کیمرہ نہیں آئے گا۔ میں نے جب بہت کریدا تو وہ بولے کہ ”ماضی میں، میری تحریر کا سکرین پلے مجھ سے، وعدے کے باوجود نظر ثانی کے لئے نہیں بھیجا گیا۔ پھر میری شرط تھی کہ سکرین پر میری تحریر کی منتقلی صرف مستنصر حسین تارڑ یا ڈاکٹر یونس بٹ کریں گے، اس پر بھی عمل نہیں ہوا۔ اس لئے اس کمرے میں، کیمرہ نہیں آئے گا۔“

کیمرے پر عائد اس پابندی کو دیکھتے ہوئے، میں نے اپنے مشن کی تکمیل کے لئے، انھیں متبادل تجویز دی۔ چلیں کیمرہ یہاں نہیں آئے گا۔ میں آپ کو ایک ٹیپ ریکارڈر لا دیتا ہوں اور آپ تنہائی میں اپنے خیالات اس پر منتقل کردیں۔ میں اس میں باقی اجزا بعد میں شامل کر لوں گا۔ میں نے اپنے جانتے وہ حل پیش کیا جس سے میری دانست میں انکار کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ میرا اندازہ یکسر غلط تھا۔ بولے ”مجھے امجد اسلام امجد نے بتایا ہے کہ اب ایسے ٹیپ ریکارڈر آ گئے ہیں جن میں کیمرے لگے ہوتے ہیں۔“

آخری ایک حل ابھی میرے پاس تھا، سوچا وہ بھی آزما لیتے ہیں۔ میں نے ان سے گزارش کی کہ آپ اپنی البم مجھے دے دیں، میں اس کی مدد سے یہ پروفائل ترتیب دے لوں گا۔ کہنے لگے ”ہر گز نہیں۔ ایک سال پہلے ایک صحافی میری تصاویر لے گیا تھا، ابھی تک واپس نہیں لایا۔“

یوں یہ ملاقات ہر چند کہ میرے مقاصد کے لئے، نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی مگر وہ حیرانی آج بھی قائم ہے کہ ہمارے ارد گرد کوئی اس قدر بھی خود نمائی سے عاجز ہو سکتا ہے۔

اس فیصلہ کن انکار کے بعد، شفیق الرحمن صاحب نے نہایت شفقت کے ساتھ، اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے مختلف پہلووں سے تعلق رکھنے والی اشیا دکھائیں بھی اور ان کے حوالے سے تفصیلات، اتنی ہی محبت سے بیان بھی کیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).