بلوچستان کی سیاست پر مختصر تجزیہ


بلوچستان کی سیاست ویسے تو برائے نام ہی ہے اس کے باوجود اگر بلوچستان کی سیاست پر بات کی جائے تو بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) اپنی جڑیں مضبوط کر رہی ہے، کیونکہ باپ نے ضلع، تحصیل اور یو سی لیول پر اپنی پارٹی کی تنظیم سازی شروع کردی ہے، اگر باپ کو 10، 15 ہی نوجوان قائدین مل جاتے ہیں تو باپ ایک مضبوط پارٹی بن کر ابھرے گی، جہاں تک بات بی این پی اور نیشنل پارٹی کی ہے تو ان کی مرکزی قیادت غرور سے بھری ہوئی ہے جو اپنی پارٹی کے لوگوں کو بھی وقت نہیں دے پارہے۔ یوتھ جو کسی بھی پارٹی کا بہت بڑا اثاثہ ہوا کرتی ہے بی این پی اور نیشنل پارٹی نے اسے یکسر نظرانداز کیا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بی این پی کے پاس سیاست کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے لاپتہ افراد کی بازیابی جبکہ بی این پی اپنے اس مطالبہ میں بھی وہ کردار ادا نہ کرسکی۔

جہاں تک نیشنل پارٹی کی بات ہے وہ ابھی ہوا میں تیر چھوڑے جا رہی ہے جس کا کوئی ایسا خاص منشور ابھی تک عوام میں مقبولیت حاصل نہیں کر سکا جو عوام کو اپنی طرف راغب کرسکے۔

ممکن ہے اختر مینگل اگلے الیکشن سے پہلے اپنے مطالبات میں ایک اور مطالبہ کا اضافہ بھی کریں اور اسی مطالبہ کی بنیاد پر وہ اپنی مہم کو چلانے کی کوشش کریں گے کیونکہ اگر مینگل صاحب پھر سے لاپتہ افراد کی بازیابی پر اپنی مہم چلاتے ہیں تو انہیں عوامی حلقوں میں بہت سے سوالات کے جوابات سے گزرنا پڑ سکتا ہے۔ جس نئے مطالبہ کا اضافہ مینگل صاحب کریں گے وہ ہے جنوبی پنجاب کے وہ علاقے جو بلوچستان کا حصہ رہے ہیں اس پٹی کو بلوچستان میں شامل کیا جائے، یعنی کہ ڈی جی خان اور راجن پور وغیرہ کے علاقے بلوچستان کا حصہ ہیں۔ ممکن ہے اس مطالبہ سے جنوبی پنجاب کے کچھ علاقوں میں مینگل صاحب کی مقبولیت میں اضافہ ہو مگر یہ مطالبہ بھی وہ مطالبہ ہے جس پر عمل ہونا انتہائی مشکل بلکہ ناممکنات میں سے ہے۔

بلوچستان عوامی پارٹی نے تنظیم سازی شروع کر رکھی ہے اگر اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے بلوچستان عوامی پارٹی اپنے اقتدار کے آخری سالوں میں عوام کو کچھ ریلیف دینے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو ممکن ہے کہ اگلی حکومت بھی باپ کی ہی ہو، حالانکہ میری ذاتی خواہش یہی ہے کہ اگلی حکومت باپ کی نہ ہو جو نا اہلوں کا ٹولہ ہے مگر وہ کہتے ہیں ناں

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).