آئین کی بالا دستی کا بیانیہ


محترم مجاہد صاحب کا یہ ایک ٹھوس موقف ہے جس کو وہ نیک دلی سے درست سمجھ کر ہر بار گھما پھرا کر پیش کرتے ہیں آج مورخہ چھ نومبر 2020 کو بھی انہوں اپنے مضمون میں اسی سمت رہنمائی فرمائی ہے۔ انہیں چونکہ پاکستانی سیاست میں فوج کا کردار ایک آنکھ نہیں بھاتا، لہذا منطقی طور پرسیاستدانوں کی حمایت میں جمہوریت کی بحالی کی خاطر دلائل دیتے رہتے ہیں۔ پاکستان کے سیاست دان اگر حقیقت میں جمہوریت پسند ہوتے تو ان کی بات سو فی صد لائق تائید ٹھہرتی لیکن بد قسمتی سے یہ سیاستدان جس خطوط وحدانی کے اندر ہیں اس کے باہر مائینس کا نشان لگا ہوا ہے اور ہر میتھے میٹسٹ جانتا ہے کہ خطوط وحدانی کو ختم کریں تو باہر والی مائینس کی علامت اندر کی تمام علامات کو الٹا کر دیتی ہے۔ (ریاضی کے اس اصول کا علم سیاسیات پر اطلاق منطقی مغالطے کی کلاسیک مثال ہے۔ تاہم یہ میری (و-مسعود) کی رائے ہے۔ محترم کولمبس خان اور پڑھنے والے اپنی رائے قائم کرنے کا حق رکھتے ہیں۔)

یہ سیاستدان اپنی جماعتوں میں جمہوریت کو قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتے جو جاگیرداری کی اک نئی اور بھیانک شکل ہے۔ اور عوام کی خیر خواہی کے نام پر عوام کو احمق سمجھتے ہوئے نعروں کی لے میں بدحالی کی طرف ہانکے جا رہے ہیں۔ اللہ کے بعد عوام کا ان ”دانوں“ کے علاوہ کوئی والی بھی دکھائی نہیں دیتا جس وجہ سے یہ بے بس ہے۔

ایک عرصہ سے عدنان کاکڑ صاحب منصہ ”ہم سب“ سے غیر حاضر ہیں لہذا ان کے پائے کی تو نہیں لیکن ان کے انداز سے کسی قدر ملتی جلتی، اس حقیقت پر متمثل ہوتی ہوئی ایک کہانی پیش خدمت ہے۔

اگرچہ یہ کہانی تو کافی پرانی ہے لیکن بار بار دہرائے جانے کی وجہ سے ہر آن نئی ہی رہتی ہے جس کے مطابق ایک بھوکے گیدڑ کو ویرانے میں ایک مرغا نظر آ گیا اور اس کا جی للچایا کہ اس کے لذیذ گوشت سے لطف اندوز ہوا جائے لیکن تھا انصاف پسند۔ جس طرح جنگل میں ہوتا ہے اس نے مناسب سمجھا کہ پہلے مرغے پر کوئی الزام لگائے اور پھر اس کی سزا موت تجویز کر کے اسے ہڑپ کر جائے۔ چنانچہ اس نے الزام یہ لگایا کہ تم صبح شور کر کے انسانوں کی نیند خراب کرتے ہو۔

مرغے نے دست بستہ عرض کیا کہ صاحب! ۔ میں تو انسانوں کے لئے فائدہ کا کام کرتا ہوں۔ وہ اٹھتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔ جبکہ آپ رات کو سونے کے وقت شور کر کے انسانوں کی نیند میں خلل پیدا کرتے ہیں۔ دو طرفہ دلائل ابھی جاری تھے کہ ایک بھیڑیا صاحب تشریف لا کر شریک محفل ہو گئے۔ مرغے نے اس آس میں معاملہ ان حضرت کی خدمت میں پیش کرنے سے فیصلہ کی صورت میں شاید اس کی جان بچ ہی جائے اس نے رندھی ہوئی آواز میں صدا لگائی۔

میاں بھیڑیئے! میاں بھیڑیئے! ذرا تشریف رکھنا اور انصاف کر کے جانا۔ جناب بھیڑیا صاحب کی خدمت میں معاملہ گوش گزار کیا گیا تو وہ قلم منہ میں ڈال کر غور کرنے لگا کہ قسمت سے آج دوہرا شکار ہاتھ لگا ہے۔ بھوک کے باعث مجرم تو دونوں ہیں دکھائی دیتے تھے لہذا فیصلہ میں دونوں کو سزا دینی ہو گی۔ اس نے فیصلہ کا یہ اعلان تو کر دیا کہ دونوں قصوروار ہیں لیکن سزا کے اعلان کے لئے محفوظ کر لیا اور چند سیکنڈ کے وقفہ کے بعد سیشن کے دوبارہ شروع ہونے تک دونوں کو انتظار کا حکم دیا۔

اتنی اثناء میں اصل مالک جنگل کا بھی آن پہنچا جو اپنی بادشاہت میں امن و امان اور قانون کی حکمرانی کا ذمہ دار بھی تھا اور ہر ایسی طاقت جو ابھر کر اس کے لئے کسی وقت چیلنج کا باعث بن سکتی ہو برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ لہذا بادشاہ سلامت نے بھیڑیئے کی بد نیتی بھانپتے ہوئے اس کے شر سے جنگل کے دوسرے جانوروں کو بچانے کے لئے سزا کے طور پر جھپٹا مار کر گرفتار کر لیا۔ تب جا کر کے مرغے اور گیدڑ کو یہ علم حاصل ہوا کہ بھیڑیئے کے ارادے بڑے کرپٹ تھے۔ نفاذ امن کی کارروائی میں بادشاہ جنگل کو مصروف پا کردونوں دم اٹھا اور دبا کر جائے وقوعہ سے بھاگ گئے۔

کہانی کے کرداروں سے اتفاقی مماثلت کوئی محسوس کریں تو ان کی اپنی ذمہ داری ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).