پشتون خواتین جرگہ نظام: ایک اچھی پیشرفت


پاکستان میں خواتین کا سیاسی، قانونی اور معاشرتی استحصال کوئی انوکھی بات نہیں جو سنی نہ گئی ہو، اور پشتون معاشرے میں، یہ استحصال بہت حد تک پھیل گیا ہے۔ خواہ وہ برطانوی نوآبادیاتی دور کے دوران ہو یا افغان جنگ کے بعد، پشتون خواتین کے ساتھ یہ نا انصافی طویل عرصے سے عروج پر ہے۔ قبائلی اضلاع میں، خواتین کے بارے میں معاشرتی رویوں، جیسے صنفی امتیاز، جنسی طور پر ہراساں کرنے، جہیز، گھریلو تشدد، غیرت کے نام پر قتل، اور خواتین کے لئے معاشی آزادی، وراثت کا حق، اور کام کے مقام پر مساوی حقوق اور مراعات ہمیشہ سے بدتر ہیں۔

اس رکاوٹ میں قبائلی عمائدین کا اہم کردار ہے جو کہ ”ملک صاحب“ کے نام سے بھی جانے جاتے ہے۔ مثال کے طور پر، ایک قبائلی ملک کا کہنا ہے کہ، وہ نہیں چاہتے ہیں کہ خواتین ان پر حاوی ہو جائیں، اور انہوں نے مزید کہا کہ ”جرگہ میں خواتین کی موجودگی اسلامی اقدار کے منافی ہے“ ۔ اگر آپ تاریخ کے صفحات کو پڑھنے کی کوشش کریں گے تو آپ کو یہ معلوم جائے گا کہ ان قبائلی عمائدین نے مذہب، ثقافت اور معاشرے کے نام پر صنفی استحصال کے بہت سے جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔

خواتین کے حقوق کے خاتمے میں، پختون جرگہ کے نظام نے ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پختون جرگہ نظام، پدرشاہی سوچ کو تقویت دیتا ہے۔ جیسا کہ روتھ بدر گنس برگ کا کہنا ہے کہ ”خواتین کا تعلق ان تمام جگہوں سے ہے جہاں فیصلے کیے جاتے ہیں“۔ اقوام متحدہ نے اس ضمن میں سنجیدہ اقدامات اٹھائے ہیں۔ اس کی ایک واضح مثال یو این ایس سی آر 1325 اور اس کی حامی قراردادیں ہے۔ لیکن پشتون خواتین کو ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔

اس پدرشاہی ذہنیت کی ایک مثال، انیتا محسود جو کہ حلقہ جنوبی وزیرستان پر پختونخوا اسمبلی کی رکن بھی ہے کے ساتھ پیش آنے والا ایک حالیہ واقعہ ہے، جسے ٹانک میں منعقد محسود جرگہ میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ لوگوں نے انیتا محسود کو یہ کہہ کر جرگہ ہال سے نکالا کہ چونکہ وہ ایک خاتون ہے اور خاتون کا جرگہ میں موجود ہونا قبائلی روایات کے خلاف ہے۔ ایک ملک نے کہا کہ جب ہم عورتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں، تو کسی عورت کا گھر کی چار دیواری سے باہر نکل آنا بالکل نامناسب ہے۔

Anita Mehsud

ایسی بے شمار مثالیں ہیں جن میں خواتین کے حقوق پامال ہوئے ہیں۔ پختون جرگہ کے نظام میں ایک عجیب و غریب چیز دیکھنے کو ملتی ہیں کہ جب کبھی خواتین کے حقوق یا خواتین کے معاملات کے حوالے سے کوئی جرگہ بلایا جاتا ہے، جو کہ بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے، تب بھی قبائلی عمائدین خواتین کی نمائندگی کو یکسر نظرانداز کرتے ہیں۔ کیا یہ ایک عجیب و غریب منطق نہیں؟ پشتون خواتین کے حقوق پر کبھی کوئی خاص جرگہ منعقد نہیں ہوا جس میں خاص خواتین کی نمائندگی شامل ہو۔

حیرت کی بات ہے، کہ پشتون جرگے میں خواتین کے جہیز پر کئی بار بات ہوئی ہے اور وہ بھی، بلاشبہ، خواتین کی نمائندگی کے بغیر۔ بہرحال ایسا لگتا ہے کہ خدا نے پشتون خواتین کی آہ سن لی، اور ان کی سرپرستی کی تلخ تاریخ کا خاتمہ ہونے جا رہا ہے ”زمونگ جاندون“ ایم پی اے وفا وزیر کے ایک اقدام سے، جس کا مقصد خواتین کو با اختیار بنانا اور ان خواتین، خواجہ سرا اور بچوں کی حمایت کرنا ہے، جو امتیازی سلوک کی روش، جنسی استحصال، یا وہ خواتین جو گھریلو تشدد کا نشانہ بنی ہیں۔

مزید اہم بات، زمونگ جندون تنظیم کا مقصد خواتین کو ان جگہوں میں شامل کرنا ہے جہاں فیصلے ہوتے ہیں۔ کچھ دن قبل پشتون صوبائی ممبر وفا وزیر کی سربراہی میں، مرد و خواتین کے ایک وفد کا وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود خان کے ساتھ، پشتون جرگہ سسٹم کے اقدام کے حوالے سے ایک اجلاس کا انعقاد ہوا تھا۔ ملاقات میں، مستقبل قریب میں پختون معاشرے پر خواتین جرگہ سسٹم کے مثبت اثرات کے حوالے سے مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

زمونگ جوندون کے سربراہ ایم پی اے وفا وزیر نے کہا کہ پشتون معاشرے میں خواتین کی نمائندگی خطرے میں ہے اسی وجہ سے ہمیں ان مسائل کو ختم کرنے کے لئے آگے آنا ہوگا۔ ایک صحافی سے گفتگو کرتے ہوئے وفا وزیر نے یہ بھی کہا کہ خواتین جرگہ نظام میں ہم مقامی خواتین کو آگے لائیں گے اور چار سے پانچ خاتون ممبران کا انتخاب کیا جائے گا۔ تمام ممبران اپنے اپنے مقامی دفاتر میں بیٹھے گی، جہاں وہ مقامی خواتین کو درپیش مشکلات کے حل کے لئے موثر اقدامات اٹھائے گی۔ اگر واقعی اس نظام کو نافذ کیا جاتا ہے تو، یہ یقینی طور پر قبائلی خواتین کے لئے کسی معجزے سے کم نہ ہوگا۔ چونکہ یہ عمل، بنیادی طور پر قبائلی رسم و رواج اور پدرشاہی کے منافی ہے۔ اس لئے اس کا نفاذ اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).