بائیڈن انتظامیہ اور پاکستان


طے ہو گیا کہ سیاست میں کامیاب ہونے کے لیے گدھا ہونا ضروری ہے اگر سیاست دان گدھا نہیں ہے تو اس کا گدھے کے نشان پر الیکشن لڑنا ضروری ہے۔ مطلب یہ کہ خاطر جمع رکھیں یا تو گدھا کامیاب ہوگا یا پر گدھے کے نشان پر کوئی سیاست دان۔ اس کی دلیل حالیہ امریکی انتخابات ہیں جہاں پر گدھے کے نشان پر جوبائیڈن ایک اعصاب شکن مقابلے کے بعد صدر منتخب ہو گئے۔ ان انتخابات میں امریکی ووٹرز نے اپنی ماضی کی غلطی کو درست کرتے ہوئے حقیقی گدھے کی بجائے گدھے کے نشان پر لڑنے والے سیاست دان کو کامیاب کرایا۔ 2020 کے امریکی انتخابات اس حوالے سے بھی یادگار رہیں گے کہ امریکیوں کی نظر میں ایک گدھا انتخابی نشان گدھے سے شکست کھا گیا۔ ستم یہ کہ انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا کر سپریم کورٹ جانے کا اعلان کر کے ٹرمپ نے دو صدیوں کی روایات کا جنازہ بھی نکال دیا۔

یہی نہیں بلکہ جوبائیڈن کی جیت کے بعد ایک اور موضوع زیر بحث ہے کہ ٹرمپ وائٹ ہاؤس کو خالی کرے گا یا نہیں۔ اور اگر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس خالی کرنے سے انکار کر دیا تو کیا ہوگا۔ کیونکہ اس عمل کی نا تو امریکی آئین میں کوئی وضاحت موجود ہے اور نا ہی اس کے متعلق کوئی قانون بنایا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ٹرمپ کا یہ بیان بھی موجود ہے کہ انتقال اقتدار کا مرحلہ آسان نہیں ہوگا۔ ویسے تو معاملات ٹھیک ہی ہوجائیں گے تاہم خدشہ یہ ہے کہ کم وبیش دو صدیوں پر محیط روایات کا جنازہ نا نکل جائے۔ ٹرمپ کی ممکنہ ضد کی صورت میں اگر سکیورٹی نے ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس سے بے دخل کیا تو یہ بھی اپنی نوعیت کی پہلی روایت ہوگی بلکہ ری پبلیکن کے لیے ایک قابل شرم روایت ہوگی۔ امید ہے پارٹی ٹرمپ کو ایسا نہیں کرنے دی گی۔ تاہم ٹرمپ سے کچھ بعید نہیں کہ وہ کسی وقت کیا کردے

ٹرمپ 21 ویں صدی کا پہلا امریکی صدر ہے جو انتخابات میں دوسری مدت کے لیے کامیاب نہیں ہوسکا اور مجموعی طور پر گزشتہ 30 سال میں پہلا امریکی صدر جو دوسری مدت کے لیے ناکام ہوا۔ اس سے قبل بھی 1992 میں ریپبلیکن امیدوار جارج ڈبلیو بش دوسری بار صدارت کے انتخابات میں ڈیموکریٹ امیدوار بل کلنٹن سے شکست کھا گئے تھے۔ امریکی انتخابات کی گزشتہ 100 سالہ تاریخ میں 4 امیدوار ایسے ہیں جن میں ولیم ہاورڈ ٹافٹ، ہربرٹ ہوور، جمی کارٹر، جارج ایچ ڈبلیو بش شامل ہیں دوسری مدت کے لیے کامیاب نہیں ہو سکے اور اب ان میں ٹرمپ کا بھی شمار ہوگا۔ جبکہ مجموعی امریکی انتخابی تاریخ میں دس امیدوار رہے ہیں جو دوسری مدت کے لیے کامیاب نا ہو سکے جن میں جان ایڈمز پہلے امریکی صدرتھے جو 1800 کے انتخابات میں دوسری مدت کے لے تھامس جیفرسن سے شکست کھا گئے تھے۔

حالیہ امریکی انتخابات میں 46 ویں نومنتخب صدر جوبائیڈن ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں۔ 1942 میں امریکی ریاست پنسلوینیا میں پیدا ہونے والے جوبائیڈن 1972 میں پہلی بار امریکی سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ 1988 اور 2008 میں جوبائیڈن نے امریکی صدارت کے لیے پارٹی نامزدگی حاصل کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نا ہو سکے۔ تاہم صدر اوباما نے ان کو اپنا نائب صدر نامزد کر دیا اور وہ 2009 سے 2017 تک امریکہ کے نائب صدر رہے۔ جوبائیڈن اب تک کی امریکی تاریخ کے منتخب ہونے والے سب سے معمر صدر ہیں۔ جب وہ صدارت کا حلف اٹھائیں گے تو ان کی عمر 78 برس ہوگی۔ جبکہ نومنتخب نائب صدر کاملا ہیرس 1964 میں پیدا ہوئیں۔ 2011 میں کیلی فورنیا کی پہلی خاتون سیاہ فام اٹارنی بنیں۔ 2016 میں کیلی فورنیا سے سینیٹر منتخب ہوئیں۔ کاملا کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ امریکہ کی پہلی خاتون نائب صدر منتخب ہوئی ہیں۔

رہی بات یہ کہ بائیڈن کے صدر بننے کے بعد پاک امریکہ تعلقات کیسے رہیں گے تو پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ پاکستان کے تعلقات رپبلیکن سے تو بہت اچھے رہے ہیں تاہم ڈیموکریٹ حکومت سے تعلقات ہمیشہ مشکلات کا شکار رہے ہیں۔ ڈیموکریٹک ادوار میں پاکستان پر معاشی اور ایٹمی پابندیاں لگتی رہیں۔ اور اگر پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات کا جائزہ لیں تو کوئی شک نہیں کہ بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ ایک مشکل دور شروع ہونے والا ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب ڈیموکریٹک رہنما ہیلری کلنٹن ڈیپ اسٹیٹ کی مثال کے لیے پاکستان کا نام لے۔

جوبائیڈن کے جنوبی اشیائی ممالک اور خاص طور پر پاکستان اور انڈیا سے ذاتی مراسم رہے ہیں وہ ان ممالک کے مسائل کے حوالے سے بہت کچھ ذاتی طورپرجانتے ہیں۔ وہ یہاں کی سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین سے بخوبی آشنا ہیں۔ 2008 میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں جو بائیڈن کو کیری لوگر بل اور جمہوریت کو تقویت دینے پر صدر پاکستان آصف علی زرداری کی طرف سے اعلیٰ ترین سول اعزازہلال پاکستان سے نوازا گیا۔ اس قدر آشنائی پاکستان کے مفاد میں بھی جا سکتی ہے اور خلاف بھی اور یہ بھی طے ہے کہ بائیڈن انتظامیہ مختلف معاملات میں اپنی اصولی راے ضرور رکھے گی اور مداخلت کرے گی جو کہ اس سے قبل ٹرمپ انتظامیہ نہیں کرتی تھی۔

پاک امریکہ تعلقات کو مشکلات سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں جاری سیاسی بے چینی کا جلد از جلد خاتمہ کیا جائے اور سویلین اداروں کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے۔ پاک بھارت تعلقات اور خاص طور پر مسئلہ کشمیر جو کہ حل تو نہیں ہوگا مگر اس مسئلہ پر بھی بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے دونوں ملکوں پر دباو بڑھے گا۔ سب سے اہم یہ کہ خطے میں ہندوستان ایک اہم ملک ہے اور امریکہ کو چین کا مقابلہ کرنے لیے بہرحال انڈیا کی مدد کی ضرورت پڑے گی ایسے میں قوی اندیشہ ہے کہ امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات سردمہری کا شکار رہیں۔ خلاصہ یہ کہ جو بائیڈن کے دور صدارت میں پاکستان کے امریکہ سے تعلقات بہت زیادہ خوشگوار نہیں ہوں گے اور نا ہی اس کی امید رکھنی چاہیے۔ لیکن ہمیں سیاسی استحکام، جمہوری اداروں کی مضبوطی، افغان پالیسی، معیشت کی بحالی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو بائیڈن انتظامیہ کے نقطہ نظر سے ازسر نو دیکھنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).