امریکی صدارتی انتخاب: صدر ٹرمپ کے ساتھ گزرا وہ دن جب وہ الیکشن ہارے


ٹرمپ
پچھلے چار برسوں میں ، میں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اچھے اور برے گزرنے والے دنوں میں دیکھا ہے۔ لیکن 7 نومبر، جس دن وہ صدارتی الیکشن ہارے اُس جیسے دن کی اور کوئی مثال نہیں ملتی۔

گہرے رنگ کی ونڈ بریکر، کالی پتلون اور سفید میگا ٹوپی یعنی جس پر یہ الفاظ درج تھے کہ ’میک امریکہ گریٹ اگین‘ پہنے صدر 10 بجے سے چند منٹ پہلے وائٹ ہاؤس سے چلے گئے۔ انھوں نے اپنے دن کا ابتدائی حصہ انتخابی دھاندلی کے بارے میں ٹویٹ کرتے ہوئے گزارا تھا۔

وہ آگے کی طرف جھکے ہوئے چلتے دکھائی دیے جیسے ہوا انھیں پیچھے کی طرف دھکیل رہی ہو اور اس چال کے ساتھ وہ ایک گہرے رنگ کی گاڑی میں چڑھ کر بیٹھے اور وائٹ ہاؤس سے 25 میل (40 کلو میٹر) کے فاصلے پر اسٹارلنگ ورجینیا میں اپنے گولف کلب ٹرمپ نیشنل کا رخ کیا۔

اس لمحے میں انھوں نے بھرپور خود اعتمادی کا مظاہرہ کیا۔ یہ ایک خوبصورت دن تھا، جو گولف کے لیے بہترین تھا، اور وہ یہ دن کلب میں گزارنے جا رہے تھا۔ لیکن وہ لوگ جو اُن کے لیے کام کرتے ہیں وہ مضطرب نظر آئے۔

‘آپ کیسی ہیں؟’ میں نے عملے کی ایک جونیئر اہلکار سے پوچھا۔ انھوں نے جواب میں کہا ’ٹھیک‘، لیکن آنکھیں سُکیڑتے ہوئے مسکرائیں۔ پھر انھوں نے آنکھیں نیچی کر کے اپنے فون کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔

یہ بھی پڑھیے

امریکی صدارتی انتخاب 2020: ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست کیوں ہوئی؟

ڈونلڈ ٹرمپ نے جیت کی دوڑ میں مقدمات کا راستہ اپنا لیا

کیا نتائج سے متعلق ڈراؤنا خواب حقیقت کا روپ دھار رہا ہے؟

Trump arrives back at White House

انتخابات کا صدمہ

انتخابات کے بعد سے وائٹ ہاؤس میں ماحول سوگوار رہا ہے۔ گو کہ یہ صرف منگل کی بات ہے لیکن ایسا لگتا ہے پوری عمر گزر گئی ہو۔

جب میں ہفتے کی صبح عمارت سے گزر رہا تھا تو ویسٹ ونگ کے بہت سارے ڈیسک خالی تھے۔ عملے کے متعدد اہلکار کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں، اور وہ دفتر نہیں آئے تھے۔ باقی قرنطینہ میں تھے۔

پھر تقریباً ساڑھے گیارہ بجے جب صدر اپنے گولف کلب میں تھے تو بی بی سی اور امریکی ٹی وی نیٹ ورکس نے ان کے ڈیموکریٹ حریف جو بائیڈن کو انتخابات میں فاتح قرار دینا شروع کیا۔

جب میں نے یہ خبر سنی تو میں کلب سے ایک میل کے فاصلے پر ایک اطالوی ریستوران میں بیٹھا ہوا تھا۔ میں وائٹ ہاؤس کے پریس پول کا رکن ہوں، یعنی صحافیوں کا ایک چھوٹا گروپ جو صدر کے ساتھ سفر کرتا ہے۔ ہم سب ان کے کلب سے نکلنے کے منتظر تھے۔

ریستوران کے باہر کی ایک خاتون نے کہا ’وہ زہریلا ہے۔‘ ، انھوں نے ڈیموکریٹ پارٹی کی حمایت کرنے والے اس علاقے میں اپنے بیشتر پڑوسیوں کی طرح صدر کے حریف کو ووٹ دیا تھا۔

دوسروں نے بلند آواز میں اپنی حیرت کا اظہار کیا کہ صدر آخر کب کلب چھوڑ کر واپس وائٹ ہاؤس جائیں گے۔ وقت گزرتا رہا اور کئی منٹوں سے گھنٹے بیت گئے۔

قانون نافذ کرنے والے افسر نے خاموشی سے اپنے ایک ساتھی سے کہا،’وہ اپنا وقت لے رہے ہیں۔‘

صدر کو جانے کی جلدی نہیں تھی۔ کلب میں وہ اپنے دوستوں کے درمیان تھے۔ کلب کے دروازے کے باہر ان کے حامی مجھ پر اور دوسرے نامہ نگاروں پر چیخے اور کہا: ‘میڈیا کو ملنا والا پیسہ بند کریں۔‘

مضبوط ہیل والی جوتی پہنے اور سر پرسرخ سفید اور نیلے رنگ کا کپڑا باندھے ایک عورت کھڑی تھی جس نے ایک پوسٹر اٹھایا ہوا تھا جس پر درج تھا کہ ’چوری بند کرو۔‘

ایک شخص اپنے ٹرک کو کلب کے سامنے سڑک سے گزار رہا تھا جس پر متعدد جھنڈے لگے ہوئے تھے، جن میں سے ایک پر صدر ٹینک پر کھڑے نظر آئے، گویا وہ پوری دنیا کے کمانڈر ہوں۔ اس سے ظاہر ہوا کہ ان کے حامی انھیں کس طرح دیکھتے ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ نے پچھلے چار سالوں میں خود کو کس طرح دیکھا ہے۔

آخر کار، وہ کلب سے باہر نکلے اور اپنے گھر واپسی کا سفر شروع کیا۔ ان کے نقاد ہزاروں کی تعداد میں اُن کا انتظار کر رہے تھے۔

‘آپ ہار گئے اور ہم سب جیت گئے’

امریکہ

ورجینیا سے صدر کا قافلہ چیختا چنگھاڑتا ہوا گزرا ، میں بھی اس قافلے کا حصہ تھا اور ایک وین فیئر فیکس کاؤنٹی پارک وے پر حادثے سے بال بال بچی۔ سائرن بلند آواز میں بج رہے تھے۔

ہم جتنا وائٹ ہاؤس کے قریب پہنچے ہجوم بھی بڑھتا چلا گیا۔ لوگ ان کی شکست کا جشن منانے باہر نکلے تھے۔ ایک شخص نے پوسٹر اُٹھایا ہوا تھا جس پر درج تھا کہ: ’آپ ہار گئے اور ہم سب جیت گئے۔’ لوگوں نے ہارن بجائے اور نعرے لگائے۔

پھر ہم وائٹ ہاؤس واپس پہنچے، صدر ٹرمپ عمارت کے پہلو میں موجود دروازے سے اندر گئے، ایک ایسا داخلی دروازہ جسے صدور شاذ و نادر ہی استعمال کرتے ہیں۔ ان کے کندھے ڈھلکے ہوئے تھے اور سر نیچے جھکا ہوا تھا۔

انھوں نے ایک نظر ہماری طرف دیکھا اور مجھے اور پریس پول کے دیگر صحافیوں کو انگوٹھے سے پسندیدگی کا اشارہ دیا۔ یہ ایک بے دلی سے دیا گیا اشارہ تھا۔ انھوں نے اپنا ہاتھ بھرپور طریقے سے نہیں اٹھایا اور مٹھی نہیں ہلائی، جس طرح وہ اکثر کیا کرتے تھے۔

چاہے وائٹ ہاؤس میں ہوں یا گولف کلب میں، صدر کے قدم کبھی بھی ڈگمگائے نہیں۔ وہ انتخابی دھاندلی کے بارے میں بغیر شواہد کے دعوے کرتے رہے ہیں اور ان کا اصرار ہے کہ انھیں انصاف فراہم کیا جائے گا۔

انھوں نے صبح کی گئی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ’غیر قانونی طور پر حاصل کیے گئے ووٹوں کے بارے میں بات کی اور دوپہر کے آخر تک وہ جلی حروف میں لکھے گئے اپنے پیغام میں اعلان کر رہے تھے کہ ’میں انتخاب جیت گیا ہوں۔‘

’مبصرین کو گنتی کے کمرے میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ میں انتخاب جیتا ہوں مجھے 71،000،000 قانونی ووٹ ملے ہیں۔ انتخابی عمل میں دھاندلی کی گئی ہے جو ہمارے مبصرین کو دیکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔ لاکھوں افراد کو پوسٹ کے ذریعے ووٹ ڈالنے والے بیلٹ پیپر بھیجے گئے حالانکہ انھوں نے یہ مانگے بھی نہیں تھے۔‘

یہ تو تھے ٹوئٹر پر نظر آنے والے ڈونلڈ ٹرمپ۔ جس آدمی کو میں نے دیکھا اس نے ایک مختلف تاثر چھوڑا۔ جب وہ دوپہر کے آخری پہر وائٹ ہاؤس کے پہلو میں موجود دروازے سے اندر جا رہے تھے تو ان کی ساری شوخی جا چکی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp