شمالی کوریا میں سیاحوں کی میزبانی کرنے والے سرکاری ہوٹل جو آپ کو کئی دہائی پیچھے لے جاتے ہیں


شمالی کوریا جانے والے بہت سارے سیاحوں کو وقت کے ساتھ واپس سفر کرنے کا احساس اس وقت ہو گا جب وہ اپنے ہوٹل میں داخل ہوں گے۔ بی بی سی کورین کے جولی لی لکھتے ہیں ’پیانگ یانگ ہوٹلوں میں سنہ 1970 کے انوکھے فن تعمیر اور ڈیزائن کو اب ایک نئی کتاب میں دستاویزی شکل دی گئی ہے جس میں شمالی کوریا کی ثقافت کی ایک انتہائی نایاب جھلک پیش کی گئی ہے۔‘

شمالی کوریا آنے والے سیاحوں پر حکام گہری نظر رکھتے ہیں۔ اس ملک میں سیاحت کی صنعت کو ریاست کنٹرول کرتی ہے اور حکومتی ٹور گائیڈز سیاحوں کی نگرانی کرتے ہیں۔ انھیں صرف ’منظور شدہ‘ مقامات تک رسائی کی اجازت ہوتی ہے جس کا مطلب ہے کہ سب سیاحوں کا سفر ایک جیسا ہوتا ہے۔

لیکن گذشتہ موسم بہار میں آسٹریلیا کے فوٹو گرافر جیمز سکولن اور نکول ریڈ نے دارالحکومت پیانگ یانگ میں پانچ راتیں گزاریں، گیارہ ہوٹلوں میں وقت گزارا اور ’ہوٹلز آف پیانگ یانگ‘ کے نام سے کتاب شائع کی۔

یہ بھی پڑھیے

ایڈونچر سیاحت: ہوٹل نہیں خیموں میں رہنے والے منچلے

سعودی شہزادوں کی پرتعیش جیل بننے والا ہوٹل کھل گیا

خلا میں لگژری ہوٹل کے قیام کا اعلان

جیمز سکولن ایک ٹوور گائیڈ ہیں اور آٹھ مرتبہ پیانگ یانگ جا چکے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ہوٹل جانبدار جگہیں ہوتی ہیں جہاں آنے والوں کی قواعد کی مطابق اتنی سخت نگرانی نہیں کی جاتی۔

ان کا فن تعمیر اور ڈیزائن ایک ایسے ملک کے بارے میں بتاتے ہیں، جو بڑے پیمانے پر دنیا بھر کے لیے بند ہے لیکن پھر بھی سیاحوں کو بہلاتا ہے۔

شمالی کوریا کے تمام ہوٹل حکومت کی سرپرستی میں ہیں تو ان کی تھوڑی بہت تشہیر بھی کی جاتی ہے۔

سکولن کہتے ہیں ’یہ واقعی عجیب بات ہے کیونکہ ہم اس کے اتنے عادی ہیں۔ یہ ہماری زندگی کا حصہ ہے۔‘

’یہ بات مجھے حیرت میں ڈال دیتی ہے کہ دینا کے پھیلنے سے قبل ہمارا ملک کیسا تھا۔‘

درحقیقت وہ ہوٹلوں کو ’پرانے زمانے کے اچھی طرح سے برقرار رکھے ہوئے آثار‘ کہتے ہیں۔

ان میں سے بیشتر کو مشرقی جرمنی اور سوویت یونین نے سنہ 1970 اور 1980 کی دہائی کے دوران کوریائی جنگ کے بعد شہر کا زیادہ تر حصہ تباہ ہونے کے بعد تعمیر کیا تھا۔

سکولن کہتے ہیں کہ ان کے اثرات آج بھی ہوٹلوں کے فن تعمیر اور ڈیزائن میں واضح نظر آتے ہیں۔

یہاں کون جاتا ہے؟

یہ دیکھتے ہوئے کہ شمالی کوریا باقی دنیا سے کافی حد تک منقطع ہے، بہت سے لوگوں کو توقع ہو گی کہ یہاں ہوٹل خالی اور ویران ہوں گے۔

لیکن اس کے باوجود جب مسٹر سکولن اور مسٹر ریڈ نے گذشتہ برس یہاں کا دورہ کیا تو انھیں معلوم ہوا کہ ایسا نہیں۔ ہوٹل سیاحوں سے بھرے ہوئے تھے جن میں سے تقریباً سب کا ہی تعلق چین سے تھا۔

سکولن کہتے ہیں ’ہماری تصاویر سے یہ تاثر ضرور ملتا ہے کہ ہوٹل ویران ہیں لیکن یہ سچ نہیں۔ ہوٹل بھرے ہوئے تھے۔ جب آپ شمالی کوریا میں سیاح ہیں تو آپ صبح 8 بجے اٹھ جاتے ہیں اور میوزیم اور یادگاروں کو دیکھنے کے لیے بس پر جاتے ہیں۔‘

’آپ ہوٹل میں سو یا ٹھہر نہیں سکتے کیونکہ آپ گائیڈڈ ٹور پر ہیں۔ ہمارا پروجیکٹ بہت اچھا تھا کیونکہ ہمارے پاس ذاتی گائیڈز تھے اور ہم صرف ایک ہوٹل سے دوسرے ہوٹل تک کا سفر کرتے تھے۔‘

وہ یاد کرتے ہیں کہ شمالی کوریا میں سیاحت کووڈ-19 کے پھیلنے سے پہلے عروج پر تھی۔ ایک خیال ہے کہ ہر سال تقریباً ایک لاکھ سیاح یہاں آتے ہیں جن میں زیادہ تر چینی ہوتے ہیں۔ اسی دورانیے میں غیر چینی سیاحوں کی تعداد آٹھ سے دس ہزار کے درمیان سمجھی جاتی ہے۔

مسٹر سکولن کہتے ہیں کہ ان کی جتنے بھی چینی سیاحوں سے ملاقات ہوئی، ان سب کے شمالی کوریا آنے کی وجہ ایک ہی تھی اور وہ یہ کہ اس سے انھیں 1970 کی دہائی کے چین کی یاد آتی تھی۔

’شمالی کوریا کا دورہ کر کے، وہ لازمی طور پر اپنی تاریخ کا دورہ کر رہے ہیں۔ مشرقی جرمنی، روس اور سابقہ ​​مشرقی ممالک کے بہت سے لوگ بھی اسی طرح کی وجوہات کی بنا پر یہاں آتے ہیں۔ ہمارے جیسے مغربی لوگ یہاں اس لئے جاتے ہیں کیونکہ یہ بہت ہی الگ اور مختلف ہے۔‘

ہوٹل کیسے ہیں؟

ہوٹلوں میں شراب خانے اور سوئمنگ پول موجود ہیں اگرچہ کمروں میں وائی فائی سروس مہیا نہیں کی جاتی۔ در حقیقت یہاں سیاحت کا انفراسٹرکچر کئی دہائیوں پرانا ہے اور ایسا نہیں جیسا زیادہ تر بین الاقوامی سیاح توقع کرتے ہیں۔

لیکن اگرچہ بیرونی عمارتیں سخت اور ایک جیسی نظر آتی ہیں لیکن اندرونی ڈیزائن رنگا رنگ اور مخلتف ہو سکتے ہیں۔

سکولن کہتے ہیں ’اس کی ایک مثال کوریو ہوٹل ہے، جس میں کراوکے کا ایک کمرہ ہے، جو ’ستر کی دہائی‘ کا تاثر دیتا ہے۔‘

انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ دلچسپ ہے کیونکہ یہ اس ملک سے بالکل متضاد ہے۔

’اور یہ تصور کرنا بہت دلچسپ ہے کہ یہ ڈیزائن کس نے تیار کیا ہو گا۔ کیوںکہ یہ شخص شاید کبھی مغرب یا جاپان نہیں گیا تھا، جس کا مطلب ہے کہ یہ عجیب و غریب نظر آنے والا کمرہ پوری طرح سے ان کے تخیل سے نکلا تھا۔‘

’لہذا مجھے لگتا ہے کہ تخلیقی صلاحیتوں کی انفرادیت کا یہ اظہار شمالی کوریا میں بھی ممکن ہے، جو تخلیقی صلاحیتوں کے لیے سب سے زیادہ سازگار ملک نہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32510 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp