امریکی انتخاب کے نتائج: جو بائیڈن امریکہ کے صدر بن کر سب سے پہلے کیا کریں گے؟


جو بائیڈن
امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ پر اپنی فتح کے بعد نو منتخب صدر جو بائیڈن کی انتخابی ٹیم کا کہنا ہے کہ انھوں نے کورونا وائرس کی عالمی وبا سے نمٹنے کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا ہے۔

ان کی ٹیم نے ان کے منصوبوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ وہ امریکی شہریوں کی ٹیسٹنگ میں اضافہ کریں گے اور تمام افراد سے ماسک پہننے کا مطالبہ کیا جائے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ جو بائیڈن معیشت، نسلی تعصب اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے مسائل پر اپنی توجہ مرکوز کریں گے۔

صدر ٹرمپ نے تاحال اپنی شکست تسلیم نہیں کی اور بائیڈن کی فتح کی پیشگوئی متوقع نتائج کی بنا پر کی گئی ہے۔ اہم ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی فی الحال جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیے

وہ پانچ وجوہات جو بائیڈن کی فتح کا سبب بنیں

امریکی عوام نتائج کا طویل انتظار کیسے برداشت کر رہے ہیں؟

امریکی صدارتی انتخاب 2020: ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست کیوں ہوئی؟

صدر ٹرمپ کے ساتھ گزرا وہ دن جب وہ انتخاب ہارے

خیال رہے کہ نو منتخب ڈیموکریٹ صدر جنوری میں اس عہدے پر فائز ہونے کے بعد ان منصوبوں پر عمل کریں گے۔ سنیچر کو امریکہ کے اکثر بڑے ذرائع ابلاغ نے بائیڈن کی جیت کا اعلان کیا تھا۔

امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق بائیڈن کے منصوبوں میں کئی صدارتی حکم نامے شامل ہوں گے۔ یہ حکم نامے صدر کی جانب سے وفاقی حکومت کو پیش کیے جاتے ہیں اور انھیں کانگریس کی منظوری کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بائیڈن کے ان حکم ناموں کا مقصد ٹرمپ کی متنازع پالیسیوں کو بدلنا ہوگا۔

بائیڈن کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ کو دوبارہ پیرس معاہدے کا حصہ بنانا چاہتا ہیں۔ امریکہ سرکاری سطح پر بدھ سے پیرس معاہدے سے الگ ہوچکا ہے۔

وہ عالمی ادارہ صحت سے دستبرداری کے امریکی فیصلے کو بھی الٹنا چاہتے ہیں اور سات مسلم اکثریتی ممالک پر سفری پابندیاں ختم کرنا چاہتے ہیں۔

بائیڈن کے مطابق وہ اوباما کے دور کی اس پالیسی کو بحال کردیں گے جس کے تحت بغیر دستاویزات امریکہ داخل ہونے والے بچوں کو تارکین وطن کا درجہ دیا جائے گا۔

سنیچر کو اپنی پہلی تقریر میں بائیڈن کا کہنا تھا کہ امریکہ کی ’صحتیابی‘ کا وقت ہے۔ انھوں نے ملک کو ’منقسم کرنے کے بجائے متحد کرنے‘ کا وعدہ کیا ہے۔ انھوں نے ٹرمپ کے حامیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہمیں اپنے حریف کو دشمن سمجھنا چھوڑنا ہوگا۔‘

نو منتخب نائب صدر کملا ہیرس نے صدارت کی منتقلی سے متعلق ایک ویب سائٹ متعارف کرائی ہے۔

امریکہ، ووٹنگ، بائیڈن، الیکشن

ان متوقع نتائج کے مطابق ٹرمپ سنہ 1990 کی دہائی کے بعد پہلے ایسے امریکی صدر بن جائیں گے جو صرف ایک چار سالہ دور کے لیے منتخب ہوسکے۔

ٹرمپ کی رپبلکن پارٹی نے ان ریاستوں میں قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا ہے جہاں انھوں نے ووٹنگ کے عمل پر سوال اٹھائے ہیں اور اپنے تحفظات بیان کیے ہیں۔ تاہم الیکشن حکام کا کہنا ہے کہ تاحال دھاندلی سے متعلق کوئی شواہد سامنے نہیں آئے۔

سابق رپبلکن صدر جارج ڈبلیو بش نے بائیڈن کو ان کی فتح پر مبارکباد دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکیوں کو انتخاب کے نظام پر اعتماد ہونا چاہیے کہ ووٹنگ منصفانہ ہوئی ہے اور اس کے نتائج واضح ہیں۔ انھوں نے ٹرمپ کی مہم میں سخت جدوجہد پر بھی انھیں سراہا۔

لیکن بعض رپبلکن رہنماؤں نے نتائج ماننے سے انکار کیا ہے۔ امریکی ایوانِ نمائندگان کیون مکارتھی نے فاکس نیوز کو بتایا کہ ووٹنگ کی دوبارہ گنتی اور قانونی چارہ جوئی مکمل ہونی چاہیے۔ ’صرف اس کے بعد ہی امریکہ یہ فیصلہ کرے گا کہ کون فاتح ہوا۔‘

عالمی وبا سے متعلق بائیڈن کا کیا منصوبہ ہے؟

ٹرمپ کی حکمت عملی کے برعکس بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں بڑی تبدیلیوں کا فیصلہ کیا ہے۔ صدر ٹرمپ پر امریکہ میں کورونا وائرس کی شدت کو کم ظاہر کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے اور یہ بھی کہ وہ ماسک پہننے یا سماجی دوری جیسے اقدامات پر عملدرآمد یقینی نہیں بناتے۔

بائیڈن کی ٹیم نے کہا ہے کہ وہ یقینی بنائیں گے کہ تمام امریکیوں کے لیے صحت کی سہولیات دستیاب ہوں، ٹیسٹنگ مفت ہو اور لوگوں کو ’واضح، مسلسل اور شواہد پر منبی ہدایات‘ دی جائیں گی۔

عالمی وبا

بائیڈن ملک میں ماسک پہننا لازم بنانا چاہتے ہیں اور ان کے مطابق اس سے ہزاروں زندگیاں بچائی جاسکیں گی۔ وہ چاہتی ہیں کہ سب گھر سے باہر ماسک پہنیں اور ہر ریاست میں گورنر اور مقامی حکام اس اقدام کو سختی سے نافذ کروائیں۔

نو منتخب صدر کو ماضی میں ماسک باقاعدگی سے پہنے دیکھا گیا ہے جبکہ ٹرمپ نے عوامی مقامات پر ماسک پہننے سے اجتناب کیا ہے۔

سنیچر کو امریکہ میں مسلسل تیسرے روز ایک لاکھ 25 ہزار سے زیادہ مزید افراد میں کورونا کی تشخیص ہوئی ہے۔ یومیہ اموات مسلسل پانچویں روز ایک ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ اب تک امریکہ میں دو لاکھ 37 ہزار اموات ہوچکی ہیں۔

امریکہ میں وبائی امراض کے ماہر انتھونی فاؤچی کا کہنا ہے کہ امریکہ میں ’ہماری حالت اس سے بُری نہیں ہوسکتی تھی۔‘ امریکہ میں موسم سرما کی آمد کے ساتھ زیادہ لوگ عمارتوں کے اندر زیادہ وقت گزار رہے ہیں۔

بائیڈن نے امریکی معیشت کی بحالی کے منصوبے کا بھی اعلان کیا ہے۔ ملک میں اس بحران کے دوران لاکھوں لوگ بے روزگار ہوئے ہیں۔

ان کے منصوبوں میں امریکی پیداوار بڑھانے اور انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کی بات کی گئی ہے جبکہ وہ چاہتے ہیں کہ بچوں کی دیکھ بھال کے اخراجات کم ہوجائے اور مختلف نسلوں کے درمیان مالی سطح پر تفریق کو کم سے کم کیا جاسکے۔

منظم نسلی تعصب کو کیسے کم کیا جائے گا؟

ٹرمپ پر نسلی تناؤ بڑھانے اور سفید فام کی برتری کا دعویٰ کرنے والے گروہوں کی مذمت نہ کرنے کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔

بائیڈن کا کہنا ہے کہ وہ اپنی انتظامیہ کے ذریعے نسلی تعصب کو ختم کریں گے اور یہ ان کی صدارت کا اہم حصہ ہوگا۔

نسلی تعصب، امریکہ

وہ سیاہ فام اور دیگر اقلیتوں کے لیے سستے گھروں کا منصوبہ متعارف کرانا چاہتے ہیں اور ان سے منصفانہ سلوک اور تنخواہ کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ کا مرکزی بینک فیڈرل ریزرو نسل کی سطح پر مختلف افراد میں دولت کے فرق کو کم کرنے کے لیے اقدامات کریں۔

بائیڈن چاہتے ہیں کہ پولیس قانون نافذ کرنے کے لیے پُرتشدد واقعات میں حصہ نہ لیں اور اس کے لیے وہ قومی سطح پر پولیس کی نگرانی کا ایک کمیشن قائم کرنا چاہتے ہیں۔

وہ امریکہ میں قیدیوں کی آبادی کم کرنا چاہتے ہیں اور ان کی بحالی پر زور دیتے ہیں۔ ان کے مطابق ’ہمارا نظام عدل اس وقت تک منصفانہ نہیں ہوسکتا جب تک اس میں نسل، جنس اور تنخواہ کی بنیاد پر تفریق ختم نہ کی جاسکے۔‘

امریکہ میں الیکشن سے قبل پولیس کی پُرتشدد کارروائیوں کے خلاف مظاہرے دیکھے گئے۔ منی ایپلس میں پولیس کی تحویل میں جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کی ویڈیو پر پوری دنیا میں غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔

امریکہ میں رائے شماری کے جائزوں کے مطابق عوام کے لیے معیشت کے بعد نسلی تعصب دوسرے نمبر پر سب سے بڑا مسئلہ تھا اور انھوں نے اسی بنیاد پر ووٹ دیے۔

ٹرمپ کا منصوبہ کیا ہے؟

بی بی سی کی پیشگوئی کے مطابق نیواڈا اور پینسلوینیا میں بائیڈن کی جیت کے ساتھ ان کے پاس 270 سے زیادہ الیکٹورل کالج ووٹ ہوگئے ہیں اور اس سے ان کے صدر بننے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔

ان اعداد و شمار کے اعلان کے بعد ٹرمپ نے عوامی سطح پر بات نہیں کی۔ انھوں نے بارہا اپنے ٹویٹس میں ’ووٹر فراڈ‘ کا دعویٰ کیا ہے اور ٹوئٹر نے ان کے ٹویٹس کو ’متنازع‘ قرار دیا ہے۔ ٹرمپ کی انتخابی مہم نے عندیہ دیا ہے کہ وہ شکست تسلیم نہیں کریں گے۔

اتوار کو ٹرمپ کو گالف کھیلتے دیکھا گیا

اتوار کو ٹرمپ کو گالف کھیلتے دیکھا گیا

ٹرمپ نے کہا ہے کہ بائیڈن خود کو غلط بیانی کرتے ہوئے فاتح قرار دے رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ انتخاب ’ابھی ختم ہونے کے قریب نہیں ہیں۔‘

صدر ٹرمپ کے حق میں سات کروڑ ووٹ دیے گئے ہیں اور یہ دوسری نمبر پر آنے والے ایک امیدوار کے لیے سب سے زیادہ ووٹ ہیں۔

اب کیا ہوگا؟

ٹرمپ نے کئی ریاستوں میں نتائج کو چیلنج کیا ہے۔ جورجیا میں دوبارہ گنتی ہوگی اور وہاں دونوں امیدواروں کے درمیان ووٹوں کا فرق کم ہے۔ ٹرمپ نے وسکونسن میں بھی یہی مطالبہ کیا ہے۔

انھوں نے شواہد کے بغیر سپریم کورٹ میں اپنا دعویٰ دائر کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔

اگر انتخاب کے نتائج چیلنج ہوتے ہیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ وکلا ان نتائج کو ریاستی عدالتوں میں چیلنج کریں گے۔ ریاستی جج دوبارہ گنتی کا فیصلہ دے سکیں گے اور سپریم کورٹ کے جج سے کسی حکم کو بدلنے کی درخواست کی جاسکے گی۔

سنیچر کو ٹرمپ نے ایریزونا میں ووٹنگ کے عمل پر سوال اٹھایا اور کہا کہ بعض ووٹوں کو غیر قانونی طور پر رد کیا گیا۔ تاہم ایریزونا کے حکام نے ان الزامات کو رد کیا ہے۔

دریں اثنا بعض ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی جاری ہے اور حتمی اعلان کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ الیکشن کے کچھ ہفتوں بعد نتائج کا باقاعدہ اعلان کیا جاتا ہے۔

خیال ہے کہ امریکہ کا نیا صدر 20 جنوری کو حلف لے گا اور اس سے قبل اپنی کابینہ اور منصوبوں کا اعلان کرے گے۔ واشنگٹن میں ایک تقریب کے بعد صدر کو وائٹ ہاؤس لے جایا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp