پی کے 661 کے سانحے میں معاشرہ شہید ہوگیا


\"waqas-alam\"

شخصی آزادی یا لبرل ازم کا جو ڈھول پچھلے 70 سالوں سے بجایا جارہا ہے اور اس پر ہمارے چند دانشور پشت در پشت سے اس کے خلاف محاذ آرائی کررہے ان کو اب خوش ہو لینا چاہیے کیونکہ معاشرہ احساسِ بشر سے نکل چکا ہے شخص کو نہ رائے دینے کا حق ہے نہ ہی اپنی بات کہنے کی اجازت، انسان اب مسلک، مذہب، رنگ، ثقافت اور لسانی بنیادوں پر اس حد تک تقسیم ہو چکے ہیں کہ ان کے درمیان خلیج کو پر کرنا اب مشکل نظر آرہا ہے۔

ایدھی، امجد صابری، جنید جمشید یہ تین بڑی شخصیات تھیں اور تین تنازعات ان کی موت پر ابھرے۔ جنید جمشید کی ذات سے ہزار نظریاتی اختلافات اپنی جگہ ہیں ان کے مذہبی خیالات سے میرا کبھی اتفاق نہیں رہا مگر ان کی ہر بات کو احترام کی نظر سے دیکھنا ہی میرا رویہ ہے کیونکہ جس لبرل اور شخصی آزاد معاشرے کا خواب میں دیکھ رہا ہوں اس میں ہر ایک کی رائے کا احترام بھی ضروری ہے چاہے وہ میرے مسلک کے، مذہب کے خلاف کیوں نہ ہو چاہے وہ کتنا ہی رجعت پسندانہ کیوں نہ ہو۔ میڈیا کہ ریٹینگ کی لالچ سے ہٹ کر دیکھا جائے تو جتنی قیمتی جان جنید جمشید کی تھی اتنی ہی ان 47 کی بھی تھی لیکن جنید جمشید کو نمایاں اس لئے کیا گیا کہ وہ ایک آبادی کا ہردل عزیز شخص تھا۔ مذہبی حوالے سمیت اس کے ماضی کی زندگی بھی ایک کردار تھی وہ ایک برانڈ اور سیلیبرٹی تھا۔ پی۔ کے 661 کے واقعے کے بعد ہمارے لوگوں کے رویہ نے مجھے ایک سوچ میں غرق کردیا کہ ان 70 سالوں میں ہماری سوچ کس مقام پر آکھڑی ہوئی ہے؟ کس سمت ہم جارہے ہیں؟ آخر کیوں ہم نظریہ سے اختلاف پر اس شخصیت کو متنازعہ بنا دیتے ہیں؟

اس سانحہ سے بھی زیادہ الم ناک ہمارے مذہبی طبقہ کا رویہ تھا خصوصاً وہ طبقہ جو مسلکی بنیادوں پر جنید جمشید سے اختلاف کرتا تھا بلکہ اگر مبالغہ نہ ہو تو منافرت رکھتا تھا۔ سوشل میڈیا پر اس کی موت کی خبر پر ایک کہرام تو مچا مگر جہاں افسوس اور غم کے جذبات تھے وہیں دوسرے گروہ کی جانب سے ”الحمدللہ“ اور ”خارجی جہنم واصل ہوا“ سمیت کئی اور طریقوں سے بھی اپنی نفرت کا کھل کر اظہار کیا۔ اسی سال وفات پانے والے انسانیت کے عظیم خدمتگار ”ایدھی صاحب“ کے اوپر بھی بعد از انتقال اس طبقہ نے کیا کچھ نہیں کہا۔ ان پر مفتی نعیم سمیت کئی علماء نے فتوے دیے۔ ان کی خدمت کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دے کر ان کی شخصیت پر کتنا گند اچھالا گیا۔ واقعی کلیجہ بول پڑا کہ یہ انسان ہی نہیں ہیں جو انسان کی خدمت سے اوپر اپنے عقائد کو رکھتے ہوں۔ پھر امجد صابری کے دردناک قتل کے دوسرے دن میرا اپنے محلے سے گذر ہورہا تھا کہ میرے کانوں نے وہ بھی سنا کہ ”اچھا ہوا اس مشرک قوال کو مار دیا گیا، اللہ ان لوگوں سے راضی ہو جنہوں نے اس کام کو پورا کیا، اگر مجھے موقع ملتا تو میں ضرور اس سے مشرف ہوتا ”، بس! پھر مجھے انسان ہونے پر شرمندگی ہونے لگی۔

ملک کو اس آگ سے بچانے کے لئے اب ہمیں واقعی لبرل اور شخصی آزاد معاشرے کے قیام کے سرگرم عمل ہوجانا پڑے گا کیونکہ اس قسم کا رویہ نسلیں تباہ کردیتا ہے اور ہم تین نسلیں گنوا چکے ہیں۔ ہمیں جہاں مذہبی انتہاپسند سوچ سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے وہیں نظریاتی ٹکراؤ پر پیدا ہونے والے اختلاف پر احترام بھی سیکھنا ہے۔ اسی میں اس معاشرے کی بقاء ہے اور یہی ہماری سالمیت کی نوید ہے۔ آخر میں ان تمام جانوں کو خدا اپنی امان میں رکھے جو اس گھٹن زدہ معاشرے سے پرواز کر چکی ہیں اور وہاں کا رخ کیا ہے جہاں کوئی نفرت کوئی مذہب، کوئی رنگ، کوئی زبان، کوئی نظریہ نہیں ہے۔ امید ہے جنید جمشید جس طرح ہمیں محظوظ کرتے رہے، اس جہاں میں بھی فاطمہ ثریا بجیہ، انتظار حسین اور امجد صابری کے ساتھ باقی 47 مسافروں کو بھی اپنی آواز سے محظوظ کریں گے۔

(وقاص عالم انگاریہ کا لسبیلہ، بلوچستان سے تعلق ہے اور وہ کراچی یونیورسٹی میں سیاسیات، عمرانیات اور تاریخ کے طالب علم ہیں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments