توہین مذہب کے الزامات اور ریاست


لیجیے صاحب! طے یہ ہوا کہ اب ہمارے ایمان اور عقیدے کا فیصلہ نیم خواندہ ملا کے مکتب میں تربیت یافتہ عاشق کریں گے۔ در حقیقت یہ عاشق تاریخ انسانی کے بدترین جاہل اور وحشی درندے ہیں۔ اسلام کی تعریف، اسلام کے بنیادی خال و خد، اس کا بنیادی ماخذ یا مقصد اگر کوئی پوچھ لے تو شاید اس سوال کو ہی یہ سمجھ نہ پائیں جواب تو بہت بعد کی بات ہے۔ افسوس صد افسوس، جس مقدس ہستی کے عشق کے نام پر وحشت کا یہ کھیل رچایا جا رہا ہے اس ہستی نے سنی سنائی بات پر یقین کرنا ہی ایمان کے منافی قرار دیا ہے۔ جہل کا مہیب جبڑا مگر اسی ہستی کے نام پر انسانی جانیں نگل رہا ہے۔ اس بات کا ادراک مگر اہل علم کے اذہان ہی کر سکتے ہیں۔ یہ احساس اذیت سے کہیں بڑھ کر ہے کہ اہل علم کی صفوں میں جبہ و دستار پوش بہروپیوں کی بڑی تعداد گھس آئی ہے۔

مشک بو لباس میں لپٹے باریش اور پرنور چہروں والی ہستیاں قاتل کے بوسے لے رہی ہیں۔ اس کی بہادری کے قصے اور توصیف بیان کی جا رہی ہے۔ قاتل کے اعزاز میں جلوس برآمد ہوتے ہیں۔ تسکین جسم و جاں کے لئے قانون کی عملداری کے مرکز پولیس سٹیشن میں اسے چائے پیش کی جاتی ہے۔ ریاست کے اہم ترین ادارے کی چھت پر چڑھ کر قاتل اپنے مداحوں سے خطاب کرتا ہے اور دولے شاہ کے چوہوں کا ٹولہ داد و تحسین ارزاں کرتا ہے۔ پولیس کا محکمہ ریاست کی اولین ذمہ داری یعنی عوام کے جان و مال کے تحفظ کا ضامن ہے۔ مملکت خداداد کی پولیس مگر اس فعل شنیع کو روکنے سے معذور نظر آئی۔

قاتل کو اعتراض ہے کہ مقتول نے انبیا ءکرام کو خدا کا محتاج کیوں بتایا؟ فرائض کے مقابل سنت کی اہمیت کم کیوں بیان کی؟ خالق کی ربوبیت اور اقتدار اعلیٰ کے اس بیانیہ سے توہین مذہب یا توہین رسالت کا پہلو کیسے کشید کیا جا سکتا ہے؟ عقل انسانی یہ گتھی سلجھانے سے قاصر ہے۔ عظیم فلسفی ارسطو نے کہا تھا کہ علمی بحث جب عالموں کی بجائے عامیوں کا موضوع بن جائے تو معاشرے زوال سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ زوال کے سوال کا انحصار عروج کے امتیاز پر ہے۔ اقوم عالم میں کون سی ممتاز حیثیت ہمیں حاصل ہے؟ اس سے بڑھ کر اور زوال کیا ہوگا؟ انسانی سماج میں فرائض سے بڑھ کر اور کیا چیز ہو سکتی ہے۔ دینی نقطہ نظر سے بات کی جائے تو بھی سماج کو امن و آشتی اور خوشحالی سے ہمکنار کرنے کے لئے فرائض کی بجا آوری ہی سر فہرست ہے۔

مملکت خداداد میں فرقہ بندی اور نفرت کے بیج ضیا ءالحق نے بوئے۔ ماضی قریب میں ان بیجوں سے پھوٹنے والے خار دار زہریلے پودوں کی آبیاری ضیاالحق کے روحانی جان نشینوں نے کی۔ فصل با ر آور ہو چکی ہے۔ قوم کے فرزندوں کے سر تن سے جدا ہو رہے ہیں۔ سہاگنیں بیوہ اور بچے یتیم ہو رہے ہیں۔ عمر رسیدہ والدین کڑیل جوان بیٹے کھو رہے ہیں۔ یہ کڑیل جوان والدین کی عمر بھر کی پونجی ہیں۔ زر و جواہر اور نقدی سے جس کا تقابل ہی نہیں۔ ایسے میں منبر خاموش ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں جلوہ افروز ہستیوں کے حق میں گڑ گڑا کر دعائیں مانگنے والے ہوں یا مشاورت کی دستار پانے کے لئے داڑھی بیچنے والے جبہ پوش۔ نفاذ اسلام کے علمبردار ہوں یا سود کے مخالف اسلامی نظام کے داعی۔ قال اللہ و قال رسولﷺ کا ورد کرنے والی کوئی زبان کعبے کی حرمت سے زیادہ تکریم پانے والی انسانی جانیں تہ تیغ کیے جانے پر حرف مذمت کہنے سے انکاری ہے۔ مقصد جمہور کے حق حکمرانی کو سلب کرنا ہے۔ سماج کا طاقتور ٹولہ جمہور کے حق حکمرانی کو اپنے ناپاک قدموں تلے روندے رکھنا چاہتا ہے۔ مٹھی بھر مزاحمت کار لیکن ان کی راہ میں آج بھی حائل ہیں۔

عوام کی جان و مال کی حفاظت ریاست کی اولین ذمہ داری ہے لیکن ریاست مفلوج اور مقفل ہے۔ ریاست کے طاقت ور دست و بازو اختیار کی ریت کو مٹھی میں اور زور سے بھینچ رہے ہیں۔ قانون فطرت سے آگاہ ہوتے تو جانتے کہ مٹھی کی گرفت نرم رکھنا ہی اس کی بقا ہے۔ ٹیلی ویژن چینلز ہوں یا اخبارات انہیں عوام کے لئے درکار نان شبینہ سے کوئی غرض نہیں۔ کارکن صحافی پیٹ کے ہاتھوں مجبور ادارہ جاتی پالیسی کا پابند ہے اور سیٹھ اپنے سرمائے کی محبت میں مبتلا۔ بازار سیاست کا بھاؤ تاؤ ذرائع ابلاغ کے لئے غریب کی ہانڈی کے پتلے شوربے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ ملکی سیاسی اور انتظامی ڈھانچہ بھی سدھر ہی جائے گا۔ وقت کی سب سے اہم بحث تو ہزاروں میل دور موجود شیطان بزرگ کے تاج و تخت کے حصول کی لڑائی ہے۔ اس لئے کہ رندوں کے ساتھ ساتھ مومنوں کے خوابوں کی سرزمین بھی وہی ہے۔

کچھ ہمدرد قائد آباد کے مقتول بنک مینجر عمران حنیف کے طرف دار تو ہیں لیکن دلیل ان کی یہ ہے کہ مقتول توہین مذہب یا توہین رسالت کا مرتکب نہ تھا۔ سچا عاشق رسول تھا۔ دلیل، منطق اور قانون کی روسے یہ استدلال انتہائی بچگانہ ہے۔ کیا صف عشاق سے باہر تمام انسان گردن زدنی ہیں؟ کیا عشق کوئی اختیاری جذبہ ہے یا اضطراری کیفیت؟ کیسے ممکن ہے کہ طاقت کے زور پر کوئی بھی جذبہ انسان کے دل میں انڈیلا جا سکے؟

فرض کیجئے! مقتول ریاست کے کسی قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب تھا تو بھی اس کی گرفت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ مقتول کو مجرم بھی فرض کیا جائے تو کیا اس کی جان کی حرمت ساقط ہو جائے گی؟ مکالمہ یہ نہیں کہ جرم سرزد ہوا یا نہیں بلکہ بحث یہ ہے کہ ناحق خون کیوں بہایا گیا؟ جرم چھوٹا ہو یا بڑا سزا کا حق ریاست کا ہے۔ ریاست نے اپنا یہ حق کسی بھی سطح پر کسی فرد کے سامنے سرنڈر نہیں کیا۔ زور آوروں کا ایک ٹولہ مگر ریاست کے ہاتھوں سے یہ حق چھیننے کی کوششوں میں مسلسل مصروف ہے۔ صبح سے رات تک روٹی کے دو ٹکڑوں کی آس میں مشقت کی چکی میں پستا غریب دہائیوں سے سماجی اور معاشی نا انصافی کا شکار ہے۔ جبر کا شکنجہ اب اس کی سانسوں کو روک رہا ہے۔ جبر حد سے بڑھ جائے تو خوف کی زنجیریں ٹوٹ جاتی ہیں۔ نہتے ہاتھ بندوق سے بھڑ جاتے ہیں۔ خال خال مثالیں نظر بھی آتی ہیں۔ میرے وطن میں لیکن یہ مرحلہ شاید ابھی نہیں آیا کیونکہ مزاحمت کی کامیابی بھرپور نظم اور مسلسل جد و جہد کی متقاضی ہے۔ تجزیے کی زبان میں ہجوم کے انصاف کا یہ رویہ مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کا سبب بنے گا۔ انسان ہی قتل کر دیے گئے تو مذہب کا سوال کون کرے گا اور کس سے؟

قلم کا مزدور اس پر کیا لکھے؟ کیا قاتل احمد نواز ہے؟ پاکستان نامی مملکت خداداد میں اور کتنے احمد نواز ہیں؟ احمد نواز کی پہلی تربیت گاہ کا اس سانحے میں کوئی حصہ ہے یا نہیں؟ جن اساتذہ سے تحصیل علم کے بعد وہ عملی زندگی میں داخل ہوتا ہے وہ اپنا کردار کیسے ادا کر رہے ہیں؟ سماج ان احمد نوازوں کے کردار کی تشکیل کی بنیادیں کن اصولوں پر اٹھاتا ہے؟ حکومت یا ریاست کا اس بیچ کوئی کردار ہے یا نہیں؟ احمد نواز کے بوسے لینے اور اس کی تقدیس کے فلک شگاف نعرے بلند کرنے والا ہجوم ایک ہی دن میں منظم نہیں ہوا۔ وقت نے برسوں پرورش کی ہے۔ غلطی کہیں نہ کہیں اسی پرورش میں ہے۔ اس غلطی کو کھوجنے کا خواہش مند کون ہے؟ شاید کوئی نہیں۔ گر کوئی نہیں تو انتظار کیجئے۔ کوئی دن آتا ہے اگلی گولی آپ کے سینے میں پیوست ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).