محنت کش کا بیٹا امریکہ کا صدر بن گیا


کون جانتا تھا مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھنے والا بچہ ایک دن بڑا ہو کر امریکہ کا صدر بن جائے گا۔ نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن 20 نومبر 1942 کو امریکی ریاست پینسلوینیا کے قصبے سکرینٹن میں پیدا ہوئے اس وقت ان کے والد جوزف بائیڈن ایک محنت کش کے طور پر کام کرتے تھے۔ بائیڈن کے والد سارا دن بھٹیوں کی چمنیاں صاف کرنے کا کام کرتے جبکہ والدہ ایک روایتی مسیحی خاتون تھیں۔ بائیڈن کے والد ابتداء میں دولت مند تھے لیکن بائیڈن کے پیدا ہونے سے قبل انہیں کئی مالی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا اور وہ شدید مالی بدحالی کا شکار ہو گئے۔

کئی سالوں تک بائیڈن خاندان، جوبائیڈن کے نانا نانی کے ساتھ رہا۔ 1950 کی دہائی کے دوران وہ اس قدر معاشی زوال کا شکار ہوئے کہ جوزف بائیڈن کو کمانے کے لئے کوئی مستقل کام نہ مل سکا۔ 1953 کے آغاز سے یہ خاندان ایک اپارٹمنٹ میں کئی سال تک رہائش پذیر رہا۔ آخر جوزف بائیڈن کو استعمال شدہ کاروں کے سیلز مین کے طور پر کام مل گیا۔ اس طرح ان کی فیملی ایک مڈل کلاس زندگی گزارنے لگی۔ امریکی آن لائن میگزین ”ٹاؤن اینڈ کنٹری“ کی ایک رپورٹ کے مطابق جو بائیڈن چونکہ مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتے تھے اس لئے وہ ”مڈل کلاس جو“ کے نام سے بھی جانے جاتے تھے لیکن اب جوبائیڈن کا شمار امریکہ کی میلینیئر (ارب پتی) شخصیات میں شمار ہوتا ہے۔ 2016 سے 2018 تک امریکی فیڈرل ٹیکس ریٹرن کے مطابق جوبائیڈن 9 ملین ڈالر کی مجموعی مالیت رکھتے ہیں۔ 9 ملین سے یاد آیا، 1973 میں امریکی سائنس فکشن ٹی وی سیریز ”سکس ملین ڈالر مین“ بہت مشہور تھی، سیریز کا ہیرو کسی قدر جوبائیڈن سے مشابہہ بھی ہے لیکن جوبائیڈن ”نائن ملین ڈالر مین“ کے طور پر ابھرے ہیں۔

جوبائیڈن پختہ ارادے کی شخصیت کے مالک ہیں اس بات کا اندازہ ان کی زندگی کے مختلف پہلووں اور ادوار سے ہوتا ہے۔ جوبائیڈن بچپن میں ہکلا کر بولتے تھے۔ جب کوئی ان سے ان کا نام پوچھتا تووہ اپنا نام ”بائی، بائی“ کر کے بتاتے جس کی وجہ سے ان کا نام جوبائیڈن پڑ گیا۔ ہکلانے کی وجہ سے جوبائیڈن کو کافی مشکل پیش آتی تھی چنانچہ اس نے اپنی اس عادت سے چھٹکارا پانے کا تہیہ کیا۔ جوبائیڈن اپنی ہکلانے کی عادت کو خود ٹھیک کرنے کی کوشش میں لگا رہا اور آخر وہ اس میں کامیاب بھی ہو گیا۔ ہکلانے کی عادت کو ٹھیک کرنے کے لئے جوبائیڈن نے مختلف طریقے اختیار کیے کبھی وہ منہ میں شیشے کی گولیاں ڈال کر بات کرتا تو کبھی آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر طویل نظمیں پڑھتا رہتا۔

اسی طرح زمانہ طالب علمی میں جب جوبائیڈن کو اپنی ساتھی طالبہ نیلیہ ہنٹر سے عشق ہوا تو اس سے شادی کا ارادہ کیا، اس سلسلے میں جب وہ نیلیہ کے والدین سے ملنے گیا تو انھوں نے جوبائیڈن سے حسب روایت روزگار کے متعلق سوال کیا جس پر جوبائیڈن نے بڑے اعتماد کے ساتھ برجستہ جواب دیا کہ میں امریکہ کا صدر بنوں گا اس لئے پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ اس وقت نیلیہ کے والدین نے شاید جوبائیڈن کے اس جواب کو ایک پرجوش نوجوان کا عزم سمجھاہوگالیکن انھیں کیا معلوم تھا کہ جوبائیڈن جو کہہ رہا ہے وہ ایک دن کر کے دکھائے گا اورسچ مچ امریکہ کا صدر بن جائے گا۔ جوبائیڈن نے 1966 میں نیلیہ سے شادی کرلی۔

نئے امریکی صدر جوبائیڈن کوذاتی زندگی میں بے حد دکھوں اور تکلیوں کا سامنا رہا لیکن وہ مضبوط ارادوں کے ساتھ اپنی منزل کی جانب بڑھتا رہا اور آج امریکہ کا صدر بن کر تاریخی کامیابی حاصل کرلی ہے۔ جوبائڈن دو مرتبہ 2008 اور 2011 میں پاکستان کا دورہ بھی کرچکے ہیں۔ جوبائیڈن کو سابق صدر آصف علی زرداری کے دور حکومت 2008 میں ہلال پاکستان کے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا، یہ اعزاز سینیٹر جوبائیڈن اور رچرڈ لوگر کو پاکستان کے لیے 1.5 بلین ڈالر کی امداد منظور کرانے کے لیے کی جانے والی کوشش کے اعتراف میں دیا گیا تھا۔

اس کے بعد جوبائڈن نے آخری مرتبہ نائب صدر کی حیثیت سے 12 جنوری 2011 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ ایک اچھے منتظم اور غیر جانبدارانہ رائے رکھنے کی شہرت رکھنے والے جوبائیڈن کے نائب صدارت کے دور اور بطور سینیٹر بھی پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران جوبائیڈن نے مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک اور تارکین وطن شہریوں کو بہتر سہولیات کی فراہمی اور صدر ٹرمپ کی تارکین وطن مخالف پالیسیوں پر نظر ثانی کا بھی وعدہ کیا تھا۔ جوبائیڈن انسانی حقوق کی سر بلندی کے لیے کام کے حوالے سے بھی شہرت رکھتے ہیں۔ امریکی مسلمان اور دنیا بھر سے مسلم امہ کو ان سے بہت اچھی توقعات ہیں۔ توقع ہے کہ جوبائیڈن ٹرمپ کی نسبت بہت اچھا اور مثبت کردار ادا کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).