2014 کا دھرنا اور معاشرے پر اس کے اثرات


پچھلے دنوں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے وزیراعظم عمران خان کو پی ٹی وی حملہ کیس سے باعزت بری کر دیا ہے۔ عدالتی فیصلے کے مطابق عمران خان پر کوئی الزام ثابت نہ ہوسکا۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان نے سیاست میں قدم رکھا تو شروع کے چند سالوں میں انہیں عوامی سطح پر کوئی خاص پذیرائی نہ مل سکی۔ پہلے الیکشنز میں وہ قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست حاصل کرسکے۔ 2013 کے عام انتخابات سے پہلے قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہو چکی تھی اور وہ اپنے خاص دوستوں کے تعاون سے قومی اسمبلی کے ایوان میں خاطرخواہ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔ اگرچہ ایوان اقتدار تک تو نہ پہنچ سکے لیکن ان کو اقتدار حاصل کرنے کے گر اور طریقے اچھی طرع ازبر ہو گئے یا دوسرے لفظوں میں ازبر کرا دیے گئے۔

میاں نواز شریف الیکشن میں واضح برتری حاصل کرنے کے بعد تیسری دفعہ پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوچکے تھے۔ آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ عمران خان کو ایک اچھے کھلاڑی کی طرع پورے پانچ سال اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔ وہ سیاست میں تبدیلی کے سفر کی اچھے انداز میں شروعات کرتے اور تاریخ میں اپنا نام بناتے لیکن بوجوہ وہ ایسا نہ کرسکے۔ شاید ان کو ڈھلتی ہوئی عمر کا احساس ہو چلا تھا یا وہ سمجھتے تھے کہ جائز طریقے سے کبھی اقتدار حاصل نہیں کرسکیں گے۔

لہذا انہوں نے حکومت کی مخالفت میں جائز و ناجائز حربے استمال کرنا شروع کر دیے۔ اس وقت کی نواز حکومت بڑے احسن طریقے سے نظام حکومت چلارہی تھی۔ ملک کے طول و عرض میں ترقیاتی پروگرام پر زور و شور سے کام ہو رہا تھا۔ اس کے علاوہ روٹ نیٹ ورک کی اپ گریڈیشن کے ساتھ ساتھ موٹرویز بننا شروع ہو چکی تھیں۔ عوامی سطح پر کوئی ایسا خاص معاملہ یا بحران بھی درپیش نہیں تھا۔ غرض کہ راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔

اچانک عمران خان نے ایک پلاننگ کے ساتھ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔ اگست 2014 میں شروع ہونے والا لانگ مارچ بغیر کسی مزاحمت اور رکاوٹ کے اسلام آباد پہنچ کر دھرنے کی شکل اختیار کر گیا جو کئی مہینے تک جاری رہا۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری بھی ان کے ہم رکاب تھے۔ اس دھرنے نے سیاسی، معاشرتی اور معاشی طور پر ملک پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے جس کا ذکر تفصیل سے کرنے کی ازحد ضرورت ہے۔

تحریک انصاف کے اس دھرنے کی بدولت اسلام آباد کے شہریوں کو بے پناہ تکالیف برداشت کرنی پڑیں۔ ان کے معمولات زندگی پر بہت برا اثر پڑا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ واحد دھرنا تھا جو بغیر کسی کاز یا ٹھوس مقصد کے دیا گیا اور طویل عرصے تک جاری رہا۔ اس دھرنے نے وزیر داخلہ اور وزارت داخلہ کی کارکردگی کا پول کھول کر رکھ دیا۔

تحریک انصاف کا یہ دھرنا جو گنتی کے چند سو منچلوں پر مشتمل تھا اور اس میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی اکثریت تھی جو شام ڈھلتے ہی اسلام آباد کے ڈی چوک میں آ کر ہلے گلے میں مشغول ہو جاتے اور پھر آدھی رات کے بعد سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے۔ خان صاحب رات کے کسی پہر آ کر دھرنے میں موجود شرکا کو اپنے جذباتی خطاب سے گرماتے رہتے۔ ان کا یہ دھرنا کسی ایمپائر کا سپانسرڈ ایونٹ تھا جس کا ذکر وہ اپنی تقریروں میں تواتر سے کرتے۔

اس ان دیکھے طاقتور ایمپائر کی وجہ سے کسی کو میلی آنکھ سے دھرنے کے شرکا کو دیکھنے کی جرآت نہ ہو سکی۔ سپریم کورٹ کے معزز ججز دیواریں پھلانگ کر کورٹ روم تک بمشکل پہنچتے رہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کی دیواروں پر دھلے ہوئے کپڑے سوکھنے کے لیے ڈالے جاتے رہے۔ چین اور کئی دوسرے ممالک کے سربراہان کا دورہ پاکستان منسوخ ہوا۔ پی ٹی وی کی عمارت پر پیٹ اور تحریک انصاف کے کارکنوں نے ہلہ بول دیا اور توڑ پھوڑ کی۔

اسلام آباد کا رابطہ باقی ملک سے کہی ماہ تک منقطع رہا۔ وفاقی حکومت کے زیرانتظام سول سیکرٹریٹ میں کام بند ہو چکا تھا۔ لیکن عدلیہ سمیت کسی دوسرے ادارے کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی کیونکہ سب جانتے تھے کہ اس دھرنے کے ذریعے کون کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا۔ بھلا ہو پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کا جس کی حمایت کی وجہ سے نواز حکومت کی رخصتی ٹلی ورنہ خان صاحب اور ان کے سرپرستوں نے حکومت گرانے کی پوری تیاری کر رکھی تھی۔

پہلے طاہرالقادری نے دال نہ گلنے پر واپسی کا سفر باندھا اور کچھ دنوں بعد تحریک انصاف کے قائد نے منہ چھپا کر پشاور اے پی سی حملے کو بنیاد بنا کر دھرنا ختم کر دیا۔ ایک طرف تو شرکا کی تعداد مٹھی بھر رہ گئی تھی اور دوسری طرف خان صاحب کو اس بات کا یقین ہو چلا تھا کہ بازی ان کے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔ اس دھرنے کے دوران عمران خان کارکنوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پیش قدمی کرنے کے احکامات صادر فرماتے اور کبھی وزیراعظم ہاوٴس تک پہنچنے کا حکم دیتے۔

انہوں نے لوگوں کو سول نافرمانی پر اکسانا شروع کر دیا تھا۔ ان کی بجلی کے بل جلانے کی وڈیو پورے پاکستان نے دیکھی۔ کپتان لوگوں کو بغاوت پر اکساتے رہتے۔ غرض کہ انہوں نے ہر وہ کام کیا جس کی نہ قانون اجازت دیتا تھا اور نہ دستور۔ یہ ایونٹ تمام ٹی وی چینلز لمحہ بہ لمحہ عوام کو دکھاتے رہے۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی تقاریر براہ راست نشر کی جاتی تھیں۔ ”ایمپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے“ ۔ ”حکومت کو ختم کر دو“ کی صدائیں روزانہ بلند ہوتی رہیں لیکن کسی عدالتی، انتظامی یا ریاستی شخصیت نے خان صاحب اور ڈاکٹر طاہرالقادری کو منانے اور دھرنے کو جو معیشت، معاشرت اور خارجہ تعلقات پر برے اثرات ڈال رہا تھا کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی سوائے اس وقت کے آرمی چیف کے جنہوں نے نواز شریف کی درخواست پر مفاہمت کی نیم دلانہ کوشش کی۔

مطلوبہ عوامی حمایت نہ ملنے کی وجہ سے بالآخر دھرنا اپنے اختتام کو پہنچا اور اپنے پیچھے ایک ایسی داستان چھوڑ گیا جسے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک ڈراوٴنے خواب کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔ اسلام آباد کا ڈی چوک کہی ماہ تک سرکس کا منظر پیش کرتا رہا اور عوامی مینڈیٹ رکھنے والی وفاقی حکومت بے بسی سے صرف تماشا دیکھتی رہی کیونکہ طاقت کے مراکز ان سے ناراض تھے۔ 22 کروڑ پاکستانیوں کے ووٹوں سے وجود میں آنے والی نواز حکومت سوکھے پتے کی طرح ہو چکی تھی۔ عوامی مینڈیٹ بے بسی کا منظر پیش کر رہا تھا۔ طویل قطار میں لگ کر نوجوانوں، خواتین، بزرگوں اور معذور افراد کے ڈالے ہوئے ووٹ بے وقعت ہوچکے تھے۔ نواز شریف کمزور ترین حکمران بن چکے تھے کیونکہ انہیں کسی قومی ادارے کی حمایت حاصل نہیں تھی۔

تحریک انصاف کے اس دھرنے نے آج ملکی سیاست کا رخ بالکل بدل کر رکھ دیا ہے تہذیب اور شائستگی کی جگہ بدتہذیبی اور بہتان تراشی نے لے لی ہے۔ آج پاکستانی سیاست میں گالم گلوچ اور بے مقصد الزام تراشی ایک لازمی عنصر کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ شرافت کی سیاست کو موجودہ شکل کی طرف لے جانے کا سہرا وزیراعظم عمران خان اور ان کے رفقا کے سر پر ہے۔ انہوں نے بطور اپوزیشن راہنما جو ٹرینڈ اور طریقے سیاست کرنے کے لیے اپنا رکھے تھے انہی طریقوں پر اس وقت بطور حکمران چل رہے ہیں۔

موجودہ حکومت کے ترجمانوں کی فوج اپوزیشن راہنماوٴں کی کردارکشی کے لیے نہایت بھونڈے طریقے استمال کرنے میں مصروف ہے کیونکہ خان صاحب کو یہی طریقہ بھاتا ہے۔ جو ترجمان اپوزیشن کے کسی راہنما کی زیادہ کردارکشی کرتا ہے وہ اس کی بہت ستائش کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مخالفین کی پگڑیاں اچھالنا ہی سیاست ہے۔ وہ جمہوری اقدار پر اور مذاکرات کے عمل پر بالکل یقین نہیں رکھتے بلکہ اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ لگا کر سکون حاصل کرتے ہیں۔

خان صاحب چوروں اور ڈاکووں کا احتساب کرنے کا نعرہ کثرت سے بلند کرتے ہیں لیکن آج تک کسی سیاستدان کو سزا دلانا تو درکنار ان پر کوئی الزام تک ثابت نہ کرسکے۔ وہ سیاسی مخالفت کو ذاتی دشمنی میں تبدیل کرنا پسند کرتے ہیں۔ ان کو عوامی مسائل سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے کیونکہ اقتدار میں انے سے پہلے کیے گئے وعدوں کو وہ فراموش کرچکے ہیں۔ خان صاحب صرف پناہ گاہیں بنانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ پناہ گاہوں میں راتیں بسر کرنے والوں کے مستقبل کی ان کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔

اپوزیشن کا کڑا احتساب کرنے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن اپنے آپ اور اپنے رفقاء کو احتساب سے مبرا سمجھتے ہیں۔ ان کا ایک معاون ایک صفحے کا وضاحت نامہ پیش کرتا ہے اور خان صاحب خوشی سے اسے صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ عنایت کر دیتے ہیں۔ کبھی مدینے کی ریاست کبھی ایران اور کبھی چین کی طرز کی ریاست بنانے کے اعلانات کرتے ہیں۔ ان کی سمت واضح نہیں ہے جس طرع وہ اقتدار کے ایوان میں پہنچے ہیں وہ ہرگز انصاف پر مبنی نہیں تھا۔

اگر ان کو کسی بھی طریقے سے اقتدار مل ہی گیا ہے تو وہ اپنی سمت بھی درست کریں اور اہداف بھی واضح کریں۔ ایک اسلامی مملکت کے حکمران کی طرع عوام کی بھلائی اور خدمت کو اپنا طرہ امتیاز بنانے میں دلچسپی لیں یا کم از کم علامہ اقبال کے فلسفے اور قائد اعظم کے فرمودات پر عمل کر کے مملکت پاکستان کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل کرنے کی کوششوں کا آغاز کریں۔ اسی میں سب کی بھلائی ہے۔ خان صاحب اگر پسند کریں تو ترقی کی شاہراہ پر دوڑتے ہوئے پڑوسی ممالک کے نظام کا مطالعہ بھی کر لیں۔

یہ بات سب کو ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ پاکستانی بھیڑ بکریاں نہیں ہیں۔ یہ جیتے جاگتے انسان ہیں اور نہ ہی نان اور قیمے پر بکنے والے ہیں۔ اب عوام کو ان کا حق حکمرانی دینا پڑے گا۔ دو یا تین افراد کی خواہش اور مرضی کے مطابق اب یہ نظام نہیں چل سکتا۔ یہ بات بھی سب کو ذہن میں رکھنی ہوگی کہ کسی فیکٹری میں بنایا گیا ڈمی وزیراعظم نہ عوامی مسائل حل کر سکتا ہے اور نہ ہی بیرونی محاذ پر پاکستان کا کھویا ہوا وقار بحال کر سکتا ہے۔ پاکستان کے گمبھیر مسائل صرف عوام کے ووٹوں سے منتخب وزیراعظم ہی حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).