عرفان اورگا کی تصنیف: Portrait of A Turkish Family



کتاب ختم ہوئی تو رات بھی ڈھلنے کے قریب تھی، کھڑکی سے باہر آسمان کو دیکھا، دل کی طرح وہاں بھی اداس بادل چھائے تھے۔ بجلی کی ہر چمک کے ساتھ ذہن میں کوئی نہ کوئی اداس منظر روشن ہوجاتا۔ معلوم تھا یہ مناظر مجھے سونے نہیں دیں گے۔ یہ دل میں کھدائی کر کے دبی لاشوں کو نکالیں گے۔ سوالوں کے بھوت ذہن میں ناچتے پھریں گے۔ پھر میں خود کو کیسے سمجھاؤں گا بھوت حقیقی نہیں ہوتے۔ گھٹن سے گھبرا کر چھت پر آیا وہاں بھی ہوا بند تھی۔

کتاب کا اختتامی منظر میری آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ عرفان اورگا اپنی پاگل ماں سے ملنے گیا جس نے اسے پہچاننے سے انکار کر دیا۔ وہ اسے دیکھ کر کہنے لگی میرا ایک بیٹا تھا تمھارے جیسا مگر اس نے میرا دل توڑ دیا۔ وہ اداسی سے وہاں سے چل دیا۔ نرس کہنے لگی آپ ملنے آیا کریں اس سے آپ کی ماں کی حالت بہتر ہوگی۔ مگر اسے معلوم تھا وہ کبھی ملنے نہیں جاسکے گا۔ کچھ دن بعد وہ مر گئی۔ وہ اس کے جنازے میں شامل نہ ہوسکا۔ وہ شامل بھی ہوتا تو کیا آخری دیدار میں اپنی ماں کو پہچان پاتا، دکھوں کی پرچھائیوں سے بھرے چہرے میں اس خوبصورتی کی جھلک بھی نہ ہوتی جس سے وہ آشنا تھا۔

اس کی ماں کو کھلے اور ہوا دار گھر بہت پسند تھے۔ اسے پاگل خانے لے جانے والے اسے بند ایمبولینس میں لے کر گئے، انھیں اندازہ نہیں تھا وہ کیا ظلم کر رہے ہیں۔ پاگل خانے میں وہ کمرے کی کھڑکی کھلی رکھتی وہ سارا دن بیٹھی باہر دیکھتی رہتی۔ جانے وہ کیا سوچتی ہوگی۔ شاید اپنے اس دل کے بارے میں جو اس نے اپنے شوہر کو بیگ کی سلائیوں میں سی کر دے دیا۔ وہ جو گیلی پولی کی تاریک راہوں میں مارا گیا۔ وہیں اس بیگ کے ساتھ اس کا دل بھی کہیں کھو گیا۔

اپنے بچوں کے بارے میں جنھیں بہت مشقت سے پالا، زمانے کے سرد و گرم سہے۔ جنھیں ایک وقت کی روٹی کھلانے کے لیے وہ صبح سے شام مزدوری کرتی رہی۔ جوان اور خوبصورت ہونے کے باوجود دوسری شادی کا نہیں سوچا۔ اپنی خواہشوں اور امنگوں کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا۔ سالوں بعد جب بچے اڑنا سیکھ گئے تو خواہشوں اور امنگوں کی قبروں سے تنہائی اور اداسی کے بھوت نکل آئے۔ اپنے ماضی کے لٹنے کا احساس ہوا وہ جو کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا۔ بادل کڑکے اور کچھ بوندیں گریں، مجھے آنکھوں میں نمی محسوس ہوئی۔

صرف ماں ہی نہیں ایک ایک کر کے ہر رشتہ مرتا گیا۔ بچپن میں دادا سے بہت لگاؤ تھا۔ وہ اپنی تہذیب کے نمائندہ تھے، وہ اس کے ساتھ کھیلتے، اسے کہانیاں سناتے، اسے فخر سے اپنے ساتھ باہر لے کر جاتے۔ اس کی دادی بہت رکھ رکھاؤ والی عورت تھیں۔ اپنی ہی دھن میں رہنے والی۔ وہ اسے ساتھ لے کر حمام جایا کرتیں۔ جہاں گھنٹوں گپ شپ ہوتی، ایک دوسرے کی برائیاں کی جاتیں، بیٹوں کے لیے رشتے دیکھے جاتے، اور طرح طرح کے کھانے کھائے جاتے۔ ان کا بڑا سا گھر جس کے درو دیوار سے روایت کی مہک آتی۔ اس گھر میں زندگی کا دھارا بن کسی شور کے بہتا۔ پھر حالات کے جبر نے سب چھین لیا۔

دادا فوت ہوئے، جنگ شروع ہوئی، والد کا کاروبار ختم ہوا، گھر بک گیا، ملازم رخصت ہوئی۔ شان و شوکت ماضی کا قصہ ہو گئی۔ والد اور تایا جنگ میں مارے گئے، ساری جمع پونجی آگ کی نظر ہو گئی۔ ہر وقت بھوک ستاتی رہتی مگر کھانے کو کچھ نہ ہوتا۔ ماں کو مزدوری کرنا پڑی۔ سالوں بعد جب حالات کچھ بہتر بھی ہوئے تو عرفان اورگا کے دل سے احساس زیاں نہیں جاتا۔ اسے معلوم ہے باقی زندگی اسی غم کے ساتھ گزارنی ہے، سینہ پیٹتے اور ماتم کرتے۔ یہ کتاب اسی کا نوحہ ہے۔

بچھ گئی ہے تیرے ماتم کو جو اب قسمت سے
ہم نے یہ صف دل صحرا سے اٹھانی تو نہیں

بادل خوب جم کر برسے اور مجھے بھگو گئے، میں اپنے آنسوؤں اور بارش میں فرق نہیں کر سکتا۔ عرفان اورگا کا احساس زیاں میرے بھی وجود کا حصہ بن چکا ہے۔

(پس نوشت: عرفان اورگا پیشے کے اعتبار سے فائٹر پائلٹ اور شوق کے اعتبار سے لکھاری تھے۔ انھوں نے ترکی کی تہذیب اور تاریخ سے متعلق کئی کتابیں لکھیں۔ ان کی خودنوشت پورٹریٹ آف اے ٹرکش فیملی سلطنت عثمانیہ کے آخری دنوں خاص طور پر جنگ عظیم اول کی تباہ کاریوں کی نہایت دردناک اور ذاتی کہانی ہے۔ نان فکشن ہونے کے باوجود کسی اعلی ادبی شاہکار سا بیانہ رکھتی یہ کتاب کچھ دیر کے لیے پرانے استنبول کے گلی کوچوں میں لے جاتی ہے۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).