جوبائیڈن کی جیت اورامریکی جمہوری انتخابی تماشا؟


امریکی صدارت کے لئے ڈیمو کریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن نے موجودہ امریکی صدر اور ری پبلکن پارٹی کے امیداوار ڈونلڈ ٹرمپ کو 273 الکٹورل کالج کے ووٹ حاصل کر کے شکست دے دی جو بائیڈن امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کر نے والے امریکہ کے 46 ویں صدر ہوں گے ۔ میڈیا کی دوسری اطلاعات کے مطابق 284 اور 290 الکٹورل کالج کے ووٹ حاصل کرنے کا دعویٰ بھی سامنے آیا ہے بہر حال جو بائیڈن کی فتح کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ نے خود کو صدارتی انتخابات کا فاتح قرار دیاسماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ بھاری اکثریت کے ساتھ دوبارہ صدر منتخب ہو گئے ہیں ٹرمپ نے ٹویٹر پر بار بار الزامات عائد کیے کہ بہت غلط ہوا گنتی میں دھاندلی کی گئی کلیدی ریاستوں میں نتائج پر چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات چوری کیے گئے۔

دوسری جانب دنیا بھر کے ممالک کے سربراہان کی جانب سے جوبائیڈن کو مبارکباد دینے کا سلسلہ جاری ہے سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن جو 2016 ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں ٹرمپ سے ہار گئی تھیں انہوں نے جو بائیڈن کی کامیابی پر پر جوش مبارکباد دی اور سابق امریکی صدر بارک اوباما نے جوبائیڈن کی جیت پر مبارکباد دیتے ہوئے سرمایہ افتخار اور بہت بڑا اعزاز قرار دیا۔ جوبائیڈن نے بھی میڈیا پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ رائے دہندوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا امریکی عوام نے ان پر اعتبار کیا جو عوام کی جانب سے اعزاز ہے۔

دنیا بھر کی سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو اکثر سیاسی رہنماؤں کو سیاست وراثت میں ملتی ہے یا ان کی کامیابی مکمل طور پر ان کی اپنی محنت کا نتیجہ ہوتی ہے یا ان کے ارد گرد کے حالات انہیں حادثاتی طور پر لیڈر بنا دیتے ہیں۔ ایک امریکی جریدے نے جوبائیڈن کی جیت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ امریکی سیاست میں آج کوئی بھی ایسا شخص نہیں جس کی زندگی جو بائیڈن سے زیادہ المناک واقعات سے تشکیل پائی ہو ’بائیڈن کا طویل سیاسی سفر مسلسل المیوں کے ساتھ آگے بڑھتا رہا۔

1972 میں جب جو بائیڈن امریکی سینٹ کے رکن منتخب ہوئے تو ان کی اہلیہ اور ننھی بچی ایک کار حادثہ میں ہلاک ہو گئیں اور اسی حادثہ میں بچ جانے والے ان کے بیٹے 2015ء میں دماغ کے کینسر کے باعث فوت ہو گئے ان کا بیٹا کملا ہیرس کا بھی دوست تھا جو اب جو بائیڈن کے ساتھ ہی امریکہ کی نائب صدر بن جائیں گی۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق ان کی زندگی کے ان ہی المناک پہلوؤں نے انہیں ایک عام امریکی کی نظر میں‘ زیادہ اپنے جیسا ’زیادہ حقیقی اور ہمدرد بنایا۔ 2020ء کے صدارتی انتخابی مہم میں بھی ان کی ذاتی زندگی کے المیے ان کی سیاسی طاقت کی بنیاد پر پیش کیے جاتے رہے۔

امریکہ دنیا کا سب سے طاقتور ملک ہے اور اس ملک کی 244 سالہ قدیم جمہوریت ہونے کی وجہ سے یہاں کے انتخابات پر پوری دنیا کی نظریں مرکوز ہوتی ہیں لیکن امریکی صدر ٹرمپ کی ہٹ دھرمی اور اڑیل رویے نے دنیا کی اس قدیم ترین جمہوریت کے حالیہ جمہوری انتخابات کو ایک تماشے میں تبدیل کر کے رکھ دیا جس کا پوری دنیا حیرت کے ساتھ مشاہدہ کر رہی ہے۔ اس مرتبہ کرونا وبا کے سبب امریکی عوام کی ایک بڑی تعداد نے ڈاک کے ذریعے رائے دہی کو ترجیح دی جس پر ٹرمپ نے ابتدا میں ہی سوالیہ نشان لگا دیا۔

رائے شماری میں غیرمعمولی تاخیر کے بعد دونوں امیدواروں میں کانٹے کا مقابلہ ہوا لیکن نفسیاتی و عددی برتری میں جو بائیڈن سبقت لے گیا اور ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس کی زمین اس کے پیروں کے نیچے سے سرک گئی ٹرمپ نے اپنی ہار کو دیکھتے ہوئے تین ریاستوں میں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن ان کی درخواست مسترد ہو گئی۔ امریکہ کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں نے رائے شماری کے بعد جن اندیشوں کی پیشن گوئی کی تھی بالکل ویسا ہی ہوا انتخابات کے بعد اقتدار کی منتقلی مثالی جمہوریتوں کا طرہ امتیاز رہا ہے امریکی انتخابات کی تاریخ میں ایک دو واقعہ کے علاوہ شکست خوردہ امیدوار نے خندہ پیشانی کے ساتھ اقتدار فاتح امیدوار کو منتقل کیا۔ غلط فہمیاں اور خدشات تو ہر جمہوری ملک کے انتخابات میں ہوتے ہیں مگر انہیں طول دے کر عدالتوں تک لے جانے کا اعزاز صرف ٹرمپ کو حاصل ہوا ہے۔

ٹرمپ کے اس جارحانہ رویے نے امریکی جمہوریت اور اقدار کو شرمندہ کیا۔ ٹرمپ امریکہ کی تاریخ کے روایت شکن صدر واقع ہوئے ہیں۔ 2016ء میں جن ریاستوں میں ٹرمپ کو برتری حاصل ہوئی تھی وہ آج بھی ان کے قبضے میں نظر آتی ہیں لیکن امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے‘ کرونا وبا سے نمٹنے کے لئے غیر سنجیدہ رویہ ’نسل پرست ایجنڈا‘ بیرونی محاذ پر فلسطینی کاز کو نقصان اور ناکام پالیسیوں نے امریکہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا حتی کہ چین امریکہ کو معاشی رفتار میں پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی نمبر ایک معیشت بن گیا۔

ٹرمپ نے امریکہ کی قدیم جمہوری روایات اور اقدار کو پس پشت ڈال کر مروت و ہمدردی کا نقاب اپنے چہرے سے نوچ کر پھینک دیا۔ سابق امریکی صدور کی اکثریت بھی صہیون نواز رہی ہے لیکن ٹرمپ کے نا عاقبت اندیش فیصلوں کے باعث فلسطین کو بے یارو مدد گار جتنا ٹرمپ نے کیا کسی امریکی صدر نے نہیں کیا۔ بہر حال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست کے اور بہت سے اسباب ہیں جن پر ایک اضافی تحریر درکار ہے۔ ٹرمپ کی ناکامیوں اور نا عاقبت اندیش فیصلوں کی ایک طویل فہرست ہے لیکن ہمارا موضوع سخن امریکہ کی قدیم ترین جمہوریت کے جمہوری انتخابات کا انتخابی تماشا اور جو بائیڈن کی فتح ہے ٹرمپ کے ضدی اور جارحانہ رویے نے امریکی جمہوری انتخابی عمل پر ایک دھماکہ خیز سوالیہ نشان لگا دیا ہے کہ نتائج کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے جس انداز میں امریکی جمہوری انتخابات پر الزامات لگائے ہیں وہ امریکی جمہوریت پر سرخ دائرہ لگا دینے کے لئے کافی ہیں۔ پوری دنیا کو جمہوریت کا درس دینے والے امریکہ کے لئے سخت آزمائش کی گھڑی ہے دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ جمہوری انتخابات پر اٹھنے والے سوالیہ نشان کے تاثر کو زائل کرنے میں کس حد تک کامیاب ہو پاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).