سالی اور بہنوئی: بس یہی کسر باقی تھی


شاید یہ ہمیشہ سے ایسا ہی ہے لیکن اب احساس زیادہ ہوتا ہے کہ رشتوں کی بنیاد ان کے تقدس، مان اور محبت پہ ہی رکھی جا سکتی ہے جہاں پر رشتوں سے یہ مان، تقدس اور باہمی رواداری ختم ہوتی ہے ان کے کے سانس گھٹنے لگتے ہیں۔ گرانٹڈ لئے جانے کی بھی کوئی تو حد ہوتی ہے۔ ہر تعلق اپنی ہیئت رکھتا ہے اور حیثیت بھی اور کاش کہ ہم قائم شدہ رشتوں کو ان کی ہیئت اور حیثیت کے ساتھ نباہ سکیں تو ہماری اقدار پوری زندگی سے قائم رہ سکیں

کبھی اگر ٹائم مل ہی جائے اور ٹی وی آن کر کے پاکستانی ڈرامہ دیکھنے کی کوشش کی جائے جو کہ ہمیشہ سے میرا فیورٹ ترین رہا ہے لیکن افسوس ساری ڈرامہ انڈسٹری سالی بہنوئی کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑگئی ہے مطلب افئیر ہی چلانا ہو یا عشق ہی کرنا ہو تو اور بڑے لوگ مل جاتے ہیں یہ ہر ڈرامے میں لڑکیوں کو بہنوئیوں کے پیچھے لگا کے کیا ثابت کیا جا رہا ہے کہ بہن کا رشتہ اتنا ارزاں ہے اتنا ناپائیدار ہے کہ آج کل ہر لڑکی کو اپنے بہنوئی سے سوکالڈ عشق ہو جاتا ہے۔

پھر صورت حال اگر خاموش عشق تک ہی رہتی تو بھی سمجھ میں آتا ہے کہ بہر حال عزت، مان، رشتے اور احساسات ہی ہم انسانوں کی اصل بنیاد ہیں اور پھر اسلام نے جن رشتوں کو نامحرم قرار دے دیا ہم ان پر اپنے ماڈرنزم اور ہندوازم کے جوائنٹ فیملی سسٹم کی جتنی بھی دلیل کر لیں یہ رشتے نامحرم ہی رہیں گے اور ان کی ہئیت کبھی بھی تبدیل نہیں ہو سکتی۔ لیکن افسوس کا انتہائی مقام تو ادھر سے شروع ہوتا ہے جب سالی اپنے بہنوئی کو حاصل کرنے کے لئے سازشوں کا ناختم ہونے والا جال بنتی ہے مطلب یہ کانسیپٹس، یہ سازشیں سامنے لاکے دیکھنے والوں کو دکھایا جا رہا ہے کہ ان فضولیات کا حصول اب ایسا ناممکن بھی نہیں بس چند سازشیں کریں اور پھر کمال دیکھیں۔ بہنوئی آپ کے قدموں میں۔ اور سب سے بڑا کاٹھ کا الو تو مرد کو بنایا جاتا ہے۔ ویسے اس میں کوئی خاص شک بھی نہیں کہ مرد اپنی تمام تر ذہانت کی حتمی شکل کے باوجود جتنا آسانی سے سازشوں میں گھر جاتا ہے عورت اس کے مقابلے میں شاید تھوڑی بہتر ہے یایہ محض میرا اندازہ ہے

خیر جب قسمت یا دماغ میں سے کوئی بھی خراب ہو تو کچھ بھی رونما ہو سکتا ہے

لیکن دکھ تو اس بات کا ہے ہمارے معاشرے میں رشتوں کی بدصورتی کی وہ صورت دکھائی جا رہی ہے جو فی الواقع ہم نے تو زندگی میں کہیں دور دور تک نہیں دیکھی۔ ہاں اگر یہ حرکتیں مرد کرتے ہوئے دکھائے جاتے تو حیرت نہ بھی ہو مگر ہمارے ہاں تربیت کا یہ معیار تو بالکل بھی نہیں کہ لڑکیوں کی بہنوئیوں سے عشق، محبت ہو جائے یا پھر بہنوں کے ساتھ انتقام اس حد تک پہنچ جائے کہ خدانخواستہ بہن کی موت ہی واقع ہو جائے

اس سب میں ہمیں اندازہ بھی نہیں ہو رہا کہ ان ڈراموں کے ذریعے کتنے لاکھوں امیچور ذہنوں تک اس انتہائی فضول ترین عشقیہ کانسیپٹ کو رسائی دی جا رہی ہے۔ آرٹ میں انسانی معاشرے کی بدصورتیوں کو پینٹ کرنا حقیقی آرٹ سمجھا جاتا ہے اور آرٹ کی کوئی بھی قسم حقیقت ہی کی مبالغہ آرائی ہو تو زیادہ قریب لگتی ہے سو لکھنے والوں نے کیا کیا نہیں لکھا۔ معاشرے کی کون سی بد صورتی سامنے نہیں آئی اور آنی بھی چاہیے کہ پردہ ڈالنے سے مسائل ختم نہیں ہوتے بلکہ تہوں کے نیچے بری طرح سلگتے رہتے ہیں۔

لیکن وہ برائیاں جو سرے سے ناپید ہیں انھیں کیوں آرٹ کا جزو بنایا جا رہا ہے غلط کانسیپٹس کیوں پھیلائے جا رہے ہیں۔

مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ایسے تھرڈ کلاس ڈرامے کدھر سے پیدا کیے جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں آج وہ وہ برائی ہے کہ آنکھ اٹھتے ہی تکلیف سے بند ہوجاتی ہے مگر وائے حیرت کہ ان پہ سب کو چپ لگی ہوئی ہے۔ لیکن یہ گھریلو سیاستیں جو ہم نے سراسر ہمسایہ ممالک سے لے کر کے اپنے ڈرامے میں انڈیلی ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان سیاستوں اور سازشوں سے بہت پالا پڑتا رہتا ہے پتہ نہیں ہمارا معاشرہ تھا ہی اتنا سازشی یا پھر یہ سالہا سال کے انڈین ڈراموں کے اثرات ہیں مگر اب گلہ کیا کہ ہمارا میڈیا بھی بس یہی سب دکھا رہا ہے

یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے رشتے ہمارے لئے بہت مقدس ہیں۔ آج بھی ہمارے ہاں جیٹھ، بہنوئی کو باپ اور بھائی کی جگہ سمجھا جاتا ہے وہ بھلے سمجھیں یا نہ سمجھیں مگر لڑکیوں کو یہی تربیت دی جاتی ہے تو پھر یہ بہنوئیوں سے عشق والی افتاد اتنی تیزی سے کیوں بپا ہو رہی ہے۔ پیمرا کبھی کبھی ڈرامہ ختم ہونے کے بعد بین لگا دیتا ہے لیکن ایسے بے سر پیر ڈرامے سوچنے والے کمرشلائزڈ ذہن کہیں باز آکے نہیں دے رہے۔ افسوس کہ عوام بھی پورے ذوق و شوق سے دیکھ کے ریٹنگ بڑھاتے ہیں غرضیکہ اس سب کا کوئی انت ہے ہی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).