نیلی آنکھوں والے بے وفا نہیں ہوتے


یہ پچھلے سال انہی دنوں کی بات ہے میں اپنے بیٹے کے پاس برطانیہ کے شہر برمنگھم میں مقیم تھا۔ میرا بیٹا اور اس کی بیوی دونوں کام پر چلے جاتے تھے اور بچے سکول، میں گھر میں اکیلا رہ جاتا تھا۔ میں دن کو وقت گزاری کے لیے گھر سے تھوڑی دور پارک میں چلا جاتا تھا۔ کبھی کوئی کتاب ساتھ لے جاتا اور بنچ پر بیٹھ کر پڑھتا رہتا۔ یہ ایک بہت بڑا پارک تھا۔ میری طرح ادھیڑ عمر کے دوسرے خواتین و حضرات بھی پارک میں سیر کرنے اور وقت گزاری کے لئے آتے تھے۔ برطانیہ میں ایک بات میں نے نوٹ کی کہ آپ کسی کو جانتے ہیں یا نہیں پاس سے گزرتے ہوئے زیادہ تر لوگ آپ سے ہائے ہیلو ضرور کریں گے۔

وہ نیلی آنکھوں والی ایک حسین اور گریس فل خاتون تھی۔ میں روزانہ اسے اپنے سفید روسی کتے کے ساتھ پارک میں چہل قدمی کرتے دیکھتا تھا۔ پارک میں اس سے میری ہیلو ہائے ہوتی رہتی تھی۔ یہ ایک حسین اتفاق تھا کہ وہ بھی اسی وقت سیر کرنے پارک میں آتی تھی جب میں وہاں سیر کے لئے اور کچھ وقت گزارنے گیا ہوتا تھا۔ ایک دن میں پارک میں ایک بیٹھا ایک کتاب پڑھ رہا تھا۔ بے دھیانی میں کتاب میرے ہاتھ سے گر گئی۔ اتفاق سے وہ خاتون بھی ادھر سے گزر رہی تھی۔

ان کے پستی نے میری کتاب اپنے دانتوں میں دبائی اور بھاگنے لگا۔ خاتون نے فوراً کتاب اس کے منہ سے چھینی تو اس کا ایک ورق پھٹ گیا۔ خاتون بڑی شرمندہ ہوئی اور معذرت کرنے لگی اور کہا کہ وہ مجھے نئی کتاب خرید کر دے دے گی۔ میں نے کہا، کوئی بات نہیں۔ لیکن دوسرے دن وہ نئی کتاب لے آئی تھیں۔ مجھے دی، میں نے لینے سے انکار کیا لیکن اس نے بصد اصرار وہ کتاب مجھے دے دی۔

یوں ہماری ہیلو ہائے کے بعد باتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ کتابوں پر۔ موسم پر۔ مویز پر اکثر بات ہونے لگی۔ ایک دن باتوں باتوں میں ایسے ہی میں نے کہہ دیا کہ سنا ہے کہ نیلی آنکھوں والے بڑے بے وفا ہوتے ہیں۔ میری یہ بات سن کر اسے غصہ آ گیا اور وہ اٹھ کر چلی گئی۔ اگلے ایک دو دن میں پارک میں نہیں گیا۔ ایک چھٹی والے دن میں اپنی پوتی کے ساتھ پارک میں کھیل رہا تھا تو وہ مجھے نظر آئی۔ میں نے اسے دیکھ کر ہاتھ ہلایا تو میرے قریب آ گئی۔

میری پوتی کو پیار کیا، بڑی پیاری بچی ہے اس نے کہا۔ میں نے اسے پوچھا کہ اس دن میری بات سے ناراض کیوں ہو گئیں تھیں۔ تو اس نے کہا کہ مجھے آپ کی بات بری لگی تھی۔ آپ مشرقی لوگ سمجھتے ہیں کہ وفا اور محبت صرف مشرق میں ہوتی ہے۔ لیکن آپ کو پتہ نہیں ہے کہ مشرق میں بھی بہت زیادہ مطلبی اور بے وفا ہوتے ہیں۔ یہ میرا تجربہ ہے۔ لیکن بات تو نیلی آنکھوں کی ہو رہی تھی، مشرق یا مغرب کی نہیں، میں نے کہا۔ جناب نیلی آنکھوں سے مراد ہمیشہ مغرب ہی لیا جاتا ہے کیونکہ نیلی آنکھیں تو گوروں کی ہی ہوتی ہیں۔ یہ تو مجھے بھی پتہ ہے۔ میں نے اس سے معذرت کی اور اپنے الفاظ پر معافی مانگی۔ مجھے جستجو ہوئی کہ ضرور اس کے ساتھ کچھ ہوا ہے۔ ایک دن اکٹھے سیر کرتے ہوئے میں اس بارے میں بات کی۔ پہلے تو اس نے ٹالنے کی کوشش کی لیکن میرے اصرار پر اپنی کہانی بیان کر ڈالی۔

یہ انیس سو اسی سے چند سال پرانی بات ہے میں اپنی ماں کے ساتھ برمنگھم کے نواح میں ایک چھوٹے سے ٹاؤن ڈڈلی میں رہتی تھی۔ برمنگھم کے ایک ہسپتال میں نرس تھی۔ روزانہ صبح بس پر آنا اور شام کو پھر واپسی پر بس کے ذریعے گھر واپس آ جانا میرا روز کا معمول تھا۔ ٹاؤن میں ہمارا کوئی رشتہ دار نہیں تھا۔ ہم اکیلی ماں بیٹی رہتی تھیں۔ میں ان دنوں بڑی شرمیلی اور اپنے کام سے کام رکھنے والی لڑکی تھی۔ ایک دن ہسپتال جاتے ہوئے میں اپنا پرس گھر بھول گئی۔

بس میں بیٹھنے کے لئے پرس دیکھا، تو نہیں تھا، میں پریشان ہو گئی کہ اگر یہ بس مس ہو گئی تو ہسپتال سے لیٹ ہو جاؤں گی۔ بس کا جوان ڈرائیور جو انڈین نظر آ رہا تھا، شاید میری پریشانی بھانپ گیا اور مجھے کہا کہ تم روز جاتی ہو کوئی بات نہیں، آپ بیٹھ جاؤ اور مجھے ٹکٹ دے دیا۔ میں شرمندہ سی ہو کر بس میں بیٹھ گئی۔ سیٹ پر بیٹھ کر غور سے ڈرائیور کو دیکھا تو وہ بڑا ہینڈسم اور میرا ہم عمر ہی لگا۔ میں ہسپتال کے سٹاپ پر اس کا شکریہ ادا کر کے اتر گئی۔

اگلے دو تین دن وہ مجھے نظر نہیں آیا۔ ایک دن واپسی پر جوں ہی میں بس پر سوار ہوئی تو وہ مجھے ڈرائیونگ سیٹ پر دکھائی دیا۔ میں نے اسے موجودہ ٹکٹ کے ساتھ پچھلے ٹکٹ کے پیسے بھی دیے جو اس نے نہیں لیے۔ اس کے بعد اکثر میں اس کی بس میں سفر کرنے لگی۔ اکثر نگاہیں چار ہونے لگی۔ میرا اب تک کوئی بوائے فرینڈ نہیں تھا اور نہ ہی میری ماں نے مجھے اتنی ڈھیل دی تھی کہ میں عام بوائے فرینڈز بناتی پھروں۔

ہماری ہیلو ہائے آگے بڑھی تو ایک دن ہم نے ایک پارک میں ملنے کا پروگرام بنایا۔ ہم پارک میں ملے، ایک دوسرے کے بارے میں باتیں کیں، وہ بھی میری طرح ہی شرمیلا سیدھا سادہ دیہاتی سا جوان تھا۔ علی اس کا نام اور پاکستانی تھا۔ اپنی فیملی کے ساتھ ہمارے ساتھ والے قصبہ میں رہتا تھا۔ اس کے بعد ہم اکثر ایک دوسرے سے ملنے لگے۔ ہم کسی کافی شاپ۔ کسی ریستوران یا پارک میں ملتے، باتیں کرتے اور کافی پیتے۔ ڈرنک نہ وہ کرتا تھا اور نہ ہی میں۔

ملتے ملاتے پتہ نہیں کب مجھے اس سے محبت ہو گئی، سچی والی محبت۔ وہ میرے لئے میرا پسندیدہ پرفیوم لاتا۔ چاکلیٹ لاتا، میرے لئے اچھے اچھے کپڑے لاتا۔ ہم ڈھیروں باتیں کرتے لیکن وہ کبھی بات چیت سے آگے نہیں بڑھا۔ میں بھی اسے اس کا پسندیدہ پرفیوم گفٹ کرتی۔ ہماری محبت بڑی پاک صاف تھی۔ ایک دن اس نے مجھے پروپوز کیا تو میں خوشی سے جھوم اٹھی۔ میں نے گھر جا کر والدہ کو ساری بات بتائی تو وہ بہت غصے ہوئیں کہ ان ایشیائی باشندوں کا کوئی اعتبار نہیں۔ یہ تمہیں چھوڑ کر چلا جائے گا۔

میں نے جب زیادہ زور دیا تو ماں نے کہا کہ اچھا اگر تم اس کے ساتھ جانا ہی چاہتی ہو تو باقاعدہ اس سے شادی کرو۔ میں نے کئی دفعہ علی سے اپنے والدین سے ملانے کے لئے کہا۔ وہ اکثر یہی جواب دیتا کہ اس کے والدین قدامت پسند ہیں۔ وہ اس شادی پر نہیں مانیں گے۔ اگر بعد میں تم والدین کے دباؤ میں آ کر مجھے چھوڑ کر چلے لئے تو؟ میں نے خدشے کا اظہار کیا۔ نہیں ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ چالیس سال پہلے گوری خاتون سے کسی پاکستانی کی شادی کا کوئی تصور نہیں تھا۔

البتہ کئی پاکستانی گوریوں کے ساتھ تعلقات ضرور رکھتے تھے۔ پھر ایک دن برطانوی قانون کے مطابق ہم نے کورٹ میرج کر لی۔ اس نے مجھے مذہب تبدیل کرنے کے لئے کہا تو میں تیار ہو گئی لیکن ماں نے منع کر دیا اور کہا کہ اسلام یہودی اور کرسچن مذہب میں شادی کی اجازت دیتا ہے۔ شادی کے بعد وہ بھی میرے ساتھ میری ماں کے فلیٹ میں منتقل ہو گیا۔

وہ دن میری زندگی کے حسین ترین دن تھے۔ پتہ ہی نہیں چلا کہ چھ ماہ کیسے گزر گئے۔ علی کبھی کبھی اپنے گھر رہنے کے لئے چلا جاتا۔ دو تین دن رہ کر پھر آ جاتا۔ میں نے کبھی اسے اس کے ماں باپ سے ملنے کو منع نہیں کیا۔ کبھی اس کی تنخواہ کا نہیں پوچھا کہ وہ کہاں خرچ کرتا ہے۔ گھر کے بل وغیرہ میری ماں ادا کرتی تھی اور باقی خرچہ میں خود ہی کرتی تھی۔ میری ماں نے کبھی ہمارے معاملات میں مداخلت نہیں کی۔ انہی دنوں مجھے یہ احساس ہوا کہ ہمارے گھر نیا مہمان آنے والا ہے۔

میں بہت خوش ہوئی کہ یہ ہماری محبت کی پہلی نشانی ہے۔ ہسپتال سے واپسی پر جب میں نے رات کو علی کو بتایا تو وہ بجائے خوش ہونے کے پریشان ہو گیا۔ مجھے کچھ اچھا نہیں لگا۔ ایک دن وہ گھر آیا تو کچھ پریشان سا تھا میرے پوچھنے پر بھی اس نے نہیں بتایا کہ کیا بات ہے۔ ایک دن میری طبیعت کچھ خراب تھی، اس دن میں ہسپتال ڈیوٹی پر نہیں گئی، ماں بھی گھر نہیں تھی۔ ڈور بیل ہوئی تو میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ وہ دو ایشیائی خاتون تھیں۔

ان میں سے ایک جوان اور دوسری ادھیڑ عمر کی تھی۔ میں نے سوالیہ نظروں سے ان کو دیکھا تو لڑکی نے میرا نام پوچھا۔ مجھے شک ہوا کہ یہ دونوں خواتین علی کی رشتہ دار ہو سکتی ہیں۔ میں نے خوش دلی سے انہیں اندر بلایا اور فرنٹ روم میں بٹھایا۔ لڑکی نے تعارف کروایا وہ علی کی بہن اور ساتھ علی کی والدہ ہیں۔ وہ آپس میں اپنی زبان میں بات کر رہی تھیں۔ ہسپتال میں مریضوں سے اور گھر میں علی سے کبھی کبھی بات کر کے مجھے کچھ الفاظ سمجھ آ جاتے تھے۔

انہوں نے مجھے بتایا کہ علی ان کا ایک ہی بیٹا ہے اور انہوں نے اس کی شادی اس کی خالہ کے گھر پاکستان میں کافی عرصہ سے طے کر رکھی ہے۔ اب تم نے اسے پھنسا لیا ہے جس وجہ سے وہ شادی سے انکاری ہے۔ تم اس کا پیچھا چھوڑ دو تا کہ ہم اس کی پاکستان شادی کر سکیں۔ علی کی ماں نے غصہ میں اپنی زبان میں بہت اونچی اونچی باتیں کیں۔ جو مجھے سمجھ نہیں آئیں۔ میں نے لڑکی کو بتایا کہ ہم نے باقاعدہ کورٹ میں شادی کی ہے۔ یہ سن کر لڑکی چپ ہو گئی اور جب اس نے یہ بات خاتون کو بتائی تو وہ رونے لگیں۔

میں اس صورت حال سے پریشان ہو گئی۔ لڑکی نے مجھے بتایا کہ علی کی شادی وہ بہت جلد پاکستان میں کر رہے ہیں اور اٹھ کر چلی گئیں۔ شام کو علی جب گھر آیا تو میں نے اسے ساری صورت حال بتائی اور اسے کہا کہ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ کہ کہیں تم مجھے چھوڑ کر نہ چلے جاؤ۔ وہ بھی پریشان ہو گیا لیکن مجھے کہا کہ وہ مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا۔

میرے دل میں ہزاروں وسوسے آ رہے تھے، اندر ایک ڈر بھی بیٹھ گیا کہ اب کیا ہو گا۔ اپنی ماں کی کہی ہوئی باتیں یاد آ رہی تھیں۔ ایک ہفتہ اسی ادھیڑ بن میں گزر گیا۔ اگلے ہفتے ایک دن وہ گھر سے ڈیوٹی پر گیا اور شام کو واپس نہیں آیا۔ میں نے کافی انتظار کیا کیونکہ وہ کبھی کبھی اپنے ماں باپ کو ملنے چلا جاتا تھا۔ ایک ہفتہ گزر گیا، وہ نہیں آیا تو میں نے اس کی تلاش شروع کر دی۔ اس کی بس کمپنی کے آفس گئی تو پتہ چلا، اس نے نوکری چھوڑ دی ہے۔

اس کے ایک ساتھی ڈرائیور سے پتہ چلا کہ وہ تو پاکستان چلا گیا ہے۔ ماں کو ان حالات کا پتہ چلا تو انہوں نے مجھے بہت سخت سست کہا اور کہا کہ میں نے تمہیں پہلے ہی خبردار کیا تھا کہ یہ ایشیائی قابل اعتبار نہیں ہیں۔ مزید کہا کہ اچھا ہے تمہاری جان چھوٹ گئی ہے، وہ خود ہی بھاگ گیا ہے۔ لیکن مجھے قرار نہیں تھا، میں نے اس سے سچی محبت کی تھی۔ مجھے اب بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ علی مجھے چھوڑ کر پاکستان چلا گیا ہے۔ اگر وہ پاکستان چلا گیا ہے تو یقیناً گھر والوں نے اس کی شادی کر دی ہوگی۔ میں بہت زیادہ پریشان تھی۔ انہی دنوں میں میرے جسم میں تبدیلی آنے لگی تھی۔ ماں کو پتہ چلا تو اس نے فوراً ابارشن کا مشورہ دیا۔ میں چند دن گو مگو کی کیفیت میں رہی کہ کیا کروں اور پھر میں نے اپنی زندگی خود گزارنے کا فیصلہ کر لیا۔ ماں سے علیحدہ ہو کر ایک فلیٹ میں منتقل ہو گئی۔

پانچ ماہ بعد میری بیٹی نتاشہ پیدا ہوئی۔ وہ بالکل علی کا پرتو تھی سوائے آنکھوں کے جو میری طرح نیلی تھیں۔ میں نے اس کی پرورش بہت ہی اچھی طرح کی۔ اپنے تجربے کو دیکھتے ہوئے اسے ہمیشہ ایشیائی خاص کر پاکستانی کمیونٹی سے بچا کر رکھا۔ آٹھ سال پہلے اس نے اپنے یونیورسٹی کے کلاس فیلو سے شادی کی اور وہ دونوں آسٹریلیا شفٹ ہو گئے ہیں۔ میں اب بھی نوکری کرتی ہوں اپنے کے لئے۔ ہمیشہ میں سہ پہر والی شفٹ میں کام کرتی ہوں۔

اس سے میرا وقت اچھا گزر جاتا ہے۔ کیا کبھی علی سے دوبارہ ملاقات ہوئی؟ میں نے پوچھا۔ ہاں ایک دفعہ میں لندن گئی تھی تو ٹریفالگر سکوائر میں مجھے وہ نظر آیا اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ۔ شاید اس نے مجھے پہلے ہی دیکھ لیا تھا اس لئے وہ بچوں کو لے کر فوراً وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ میں دیکھتی رہ گئی۔ آپ کے ملک کے لوگ گوریوں کے بارے میں بڑی باتیں کرتے ہیں۔ لیکن ان کو پتہ نہیں کہ ان کے اپنے لوگ کیسے عورتوں کی زندگیاں برباد کرتے ہیں۔ اتنا کہہ کر وہ نم آنکھوں سے اٹھ کر چلی گئیں۔ میں دور تک جاتے ہوئے اسے دیکھتا رہا لیکن اسے آواز دینے کی ہمت نہیں ہوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).